مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب نمبر 13

اُنہوں نے اپنی غلطیوں سے سیکھا

اُنہوں نے اپنی غلطیوں سے سیکھا

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ یُوناہ کی غلطی نے اُنہیں اور جہاز پر موجود دیگر لوگوں کو کس مصیبت میں ڈال دیا تھا؟‏ (‏ب)‏ یُوناہ کی کہانی پر غور کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟‏

یُوناہ کے کانوں میں بہت سی بھیانک آوازیں پڑ رہی تھیں۔‏ طوفانی ہوائیں جہاز کے بادبان کو سہارا دینے والے رسوں سے ٹکرا کر تیز شور برپا کر رہی تھیں۔‏ پہاڑ جیسی اُونچی لہریں جہاز پر تھپیڑے مار رہی تھیں جس کی وجہ سے اِس کی لکڑیوں سے چرچر کی آوازیں پیدا ہو رہی تھیں۔‏ لیکن یُوناہ کے لیے سب سے زیادہ دل دہلا دینے والی آوازیں جہاز کے کپتان اور ملاحوں کی چیخ‌وپکار کی آوازیں تھیں جو کسی طرح جہاز کو سنبھالے رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔‏ یُوناہ کو صاف نظر آ رہا تھا کہ یہ سب آدمی بہت جلد موت کی آغوش میں جانے والے ہیں۔‏ اور وہ جانتے تھے کہ اِس سب کے ذمےدار وہ ہیں۔‏

2 یُوناہ مصیبت کے اِس بھنور میں کیسے پھنس گئے تھے؟‏ دراصل اُنہوں نے اپنے خدا یہوواہ کی نافرمانی کر کے سنگین غلطی کی تھی۔‏ لیکن اُنہوں نے ایسا کیا کِیا تھا؟‏ کیا اُن کی غلطی اِتنی سنگین تھی کہ یہوواہ کے ساتھ اُن کی دوستی بحال نہیں ہو سکتی تھی؟‏ اِن سوالوں کے جواب حاصل کرنے سے ہم بہت سے اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر یُوناہ کی کہانی سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ بھی صحیح راہ سے بھٹک سکتے ہیں جن کا ایمان بہت مضبوط ہوتا ہے۔‏ اور اِس کہانی سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ایسے لوگ اپنی غلطیوں کو کیسے سدھار سکتے ہیں۔‏

یُوناہ کا پس‌منظر

3-‏5.‏ ‏(‏الف)‏ جب لوگ یُوناہ کے بارے میں سوچتے ہیں تو اکثر اُن کا دھیان کن باتوں کی طرف جاتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم یُوناہ کے پس‌منظر کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟‏ (‏فٹ‌نوٹ کو بھی دیکھیں۔‏)‏ (‏ج)‏ یُوناہ کے لیے نبی کے طور پر خدمت کرنا آسان کیوں نہیں رہا ہوگا؟‏

3 جب لوگ یُوناہ کے بارے میں سوچتے ہیں تو اکثر اُن کا دھیان اُن کی خامیوں کی طرف جاتا ہے۔‏ مثال کے طور پر اُن کے ذہن میں وہ واقعات آتے ہیں جب یُوناہ نے خدا کی نافرمانی کی اور ہٹ‌دھرمی کا مظاہرہ کِیا۔‏ لیکن یُوناہ بہت سی خوبیوں کے مالک بھی تھے۔‏ اور اِسی لیے یہوواہ نے اُنہیں اپنے نبی کے طور پر چُنا تھا۔‏ ذرا سوچیں کہ اگر وہ خدا کے وفادار نہ ہوتے تو کیا خدا اُنہیں اِتنی اہم ذمےداری سونپتا؟‏

4 بائبل میں یُوناہ کے پس‌منظر کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں بتایا گیا۔‏ ‏(‏2-‏سلاطین 14:‏25 کو پڑھیں۔‏)‏ اُن کا تعلق شہر جات‌حفر سے تھا جو کہ ناصرت سے صرف 4 کلومیٹر (‏5.‏2 میل)‏ کے فاصلے پر واقع تھا۔‏ ناصرت وہ شہر تھا جہاں تقریباً 800 سال کے بعد یسوع نے پرورش پائی۔‏ * یُوناہ نے اُس دَور میں نبی کے طور پر خدمت کی جب اِسرائیل کی دس قبیلوں پر مشتمل سلطنت پر بادشاہ یربعام دوم کی حکومت تھی۔‏ اُس وقت ایلیاہ نبی کو فوت ہوئے کئی سال بیت چُکے تھے اور اُن کے جانشین اِلیشع بھی یربعام کے باپ کے دَورِحکومت میں وفات پا چُکے تھے۔‏ اگرچہ یہوواہ اِن نبیوں کے ذریعے اِسرائیل سے بعل کی پرستش کا صفایا کر چُکا تھا لیکن بنی‌اِسرائیل دوبارہ یہوواہ سے برگشتہ ہو گئے تھے۔‏ اِسرائیل کی سلطنت ایک ایسے بادشاہ کے زیرِاثر تھی جو ”‏[‏یہوواہ]‏ کی نظر میں بدی“‏ کر رہا تھا۔‏ (‏2-‏سلا 14:‏24‏)‏ ایسے حالات میں یُوناہ کے لیے نبی کے طور پر ذمےداریاں نبھانا آسان نہیں رہا ہوگا۔‏ پھر بھی اُنہوں نے وفاداری سے خدا کی خدمت کی۔‏

5 لیکن پھر یُوناہ کی زندگی میں ایک ڈرامائی موڑ آیا۔‏ اُنہیں یہوواہ کی طرف سے ایک ایسی ذمےداری ملی جسے پورا کرنا اُنہیں اِنتہائی مشکل دِکھائی دیا۔‏ یہوواہ نے اُنہیں ایسا کیا کرنے کو کہا؟‏

‏”‏اُٹھ اُس بڑے شہر نینوؔہ کو جا“‏

6.‏ یہوواہ نے یُوناہ کو کون سی ذمےداری دی اور اِسے نبھانا اُنہیں مشکل کیوں لگا ہوگا؟‏

6 یہوواہ نے یُوناہ سے کہا:‏ ”‏اُٹھ اُس بڑے شہر نینوؔہ کو جا اور اُس کے خلاف مُنادی کر کیونکہ اُن کی شرارت میرے حضور پہنچی ہے۔‏“‏ (‏یُوناہ 1:‏2‏)‏ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یُوناہ کو یہ ذمےداری نبھانا مشکل کیوں لگا ہوگا۔‏ نینوہ مشرق کی طرف تقریباً 800 کلومیٹر (‏500 میل)‏ کے فاصلے پر واقع تھا اور یُوناہ کو پیدل وہاں جانے میں تقریباً ایک مہینہ لگ جانا تھا۔‏ لیکن ایک مشکل ایسی تھی جو یُوناہ کو سفر کی مشکلات سے بھی کہیں بڑی لگی ہوگی۔‏ نینوہ میں اُنہیں یہوواہ کی طرف سے اسوریوں کو سزا کا پیغام سنانا تھا جو کہ ظلم‌وتشدد کرنے کے لیے مشہور تھے۔‏ جب خدا کے بندوں نے اُس پیغام کے لیے کوئی خاص ردِعمل نہیں دِکھایا تھا جو یُوناہ اُنہیں سنا رہے تھے تو بھلا وہ اُن بُت‌پرستوں سے کیا توقع کر سکتے تھے؟‏ غالباً یُوناہ کے دل میں یہ ڈر بیٹھ گیا تھا کہ اگر وہ اُس شہر کے تشددپسند لوگوں کے بیچ گئے جسے بعد میں ”‏خونریز شہر“‏ کہا گیا تو وہ ضرور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔‏—‏ناحوم 3:‏1،‏ 7‏۔‏

7،‏ 8.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ کی طرف سے ملنے والی ذمےداری سے جان چھڑانے کے لیے یُوناہ نے کیا کِیا؟‏ (‏ب)‏ ہمیں فوراً یہ نتیجہ کیوں نہیں نکال لینا چاہیے کہ یُوناہ بزدل تھے؟‏

7 ہم یہ تو نہیں جانتے کہ اُس وقت یُوناہ کا ذہن کن سوچوں میں گِھرا ہوا تھا لیکن ہمیں بائبل سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ وہ بھاگ گئے۔‏ یہوواہ نے اُنہیں مشرق کی طرف جانے کے لیے کہا تھا جبکہ وہ مغرب کی طرف نکل پڑے اور جتنی دُور جا سکتے تھے،‏ چل دیے۔‏ وہ یافا نامی شہر کی بندرگاہ پر پہنچے جہاں اُنہیں شہر ترسیس جانے والا ایک جہاز ملا۔‏ کچھ عالموں کا کہنا ہے کہ ترسیس ملک سپین میں تھا۔‏ اگر ایسا ہے تو یُوناہ نینوہ سے تقریباً 3500 کلومیٹر (‏2200 میل)‏ دُور جا رہے تھے۔‏ جہاز نے اُنہیں نینوہ کی مخالف سمت میں بڑے سمندر (‏بحیرۂروم)‏ کے پار لے جانا تھا اور اُن کا یہ سفر ایک سال کے لگ بھگ ہو سکتا تھا۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یُوناہ اپنی ذمےداری سے اِس حد تک جان چھڑانا چاہتے تھے کہ وہ بہت لمبا سفر کرنے کو بھی تیار تھے۔‏‏—‏یُوناہ 1:‏3 کو پڑھیں۔‏

8 کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ یُوناہ بزدل تھے؟‏ یُوناہ کے بارے میں اِتنی جلدی یہ رائے قائم کر لینا صحیح نہیں ہوگا۔‏ ہم آگے چل کر دیکھیں گے کہ یُوناہ نے بعد میں ایسے کام کیے جو ایک دلیر شخص ہی کر سکتا ہے۔‏ لیکن ہم سب کی طرح یُوناہ بھی عیب‌دار تھے اور بہت سی کمزوریوں سے لڑ رہے تھے۔‏ (‏زبور 51:‏5‏)‏ اور ہم میں سے کون یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ کبھی خوف کا شکار نہیں ہوا؟‏

9.‏ خدا کی طرف سے کوئی ذمےداری ملنے پر کبھی کبھار ہمیں کیسا لگ سکتا ہے اور ایسے موقعوں پر ہمیں کس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہیے؟‏

9 کبھی کبھار ہمیں بھی یہ لگ سکتا ہے کہ خدا ہمیں جو کام کرنے کے لیے کہتا ہے،‏ وہ بہت مشکل،‏ یہاں تک کہ ناممکن ہیں۔‏ مثال کے طور پر ہمیں خوش‌خبری کی مُنادی کرنا کٹھن لگ سکتا ہے جس کا حکم مسیحیوں کو دیا گیا ہے۔‏ (‏متی 24:‏14‏)‏ عیب‌دار ہونے کی وجہ سے ہم بڑی آسانی سے اِس حقیقت کو بھول سکتے ہیں جو یسوع نے فرمائی:‏ ”‏خدا سب کچھ کر سکتا ہے۔‏“‏ (‏مر 10:‏27‏)‏ چونکہ ہمیں بھی کبھی کبھار خدا کی ہدایات پر عمل کرنا ناممکن سا لگتا ہے اِس لیے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یُوناہ ایسا کیوں محسوس کر رہے تھے۔‏ البتہ یُوناہ کے ترسیس کی طرف بھاگنے کے بعد کیا ہوا؟‏

یہوواہ نے اپنے نبی کی اِصلاح کی

10،‏ 11.‏ ‏(‏الف)‏ جب جہاز بندرگاہ سے نکل رہا تھا تو یُوناہ کو کیسا لگ رہا ہوگا؟‏ (‏ب)‏ جہاز کے عملے پر کون سی آفت آن پڑی؟‏

10 جس جہاز پر یُوناہ چڑھے،‏ وہ غالباً ایک مال‌بردار جہاز تھا۔‏ ذرا تصور کریں کہ یُوناہ جہاز پر سوار ہو کر خود کو لمبے سفر کے لیے تیار کر رہے ہیں۔‏ وہ جہاز کے کپتان اور عملے کے لوگوں کو دیکھ رہے ہیں جو جہاز کو بندرگاہ سے باہر نکالنے میں مصروف ہیں۔‏ جوں‌جوں جہاز ساحلِ‌سمندر سے دُور جاتا ہے،‏ یُوناہ کو لگتا ہے کہ وہ اُس خطرے سے بچ گئے ہیں جس نے اُنہیں خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔‏ لیکن پھر اچانک سے موسم بدلنے لگتا ہے۔‏

11 تُندوتیز ہوائیں چلنے لگتی ہیں۔‏ سمندر بپھر جاتا ہے اور اِتنی اُونچی لہریں اُٹھنے لگتی ہیں کہ اِن کے سامنے آج‌کل کے بڑے بڑے بحری جہاز بھی بونے دِکھائی دیں۔‏ طوفانی موجوں کی وجہ سے جہاز شدت سے ڈولنے لگتا ہے اور چند ہی منٹوں میں پوری طرح اِن خوف‌ناک لہروں کے رحم‌وکرم پر چلا جاتا ہے۔‏ یُوناہ نے بعد میں بتایا کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ نے سمندر پر بڑی آندھی بھیجی۔‏“‏ لیکن کیا وہ طوفان کے دوران اِس بات سے واقف تھے؟‏ ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔‏ بہرحال یُوناہ نے جہاز کے عملے کو اپنے اپنے معبودوں کو پکارتے دیکھا۔‏ یُوناہ جانتے تھے کہ اُن کے معبود اُن کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔‏ اُنہیں پورا ”‏اندیشہ تھا کہ جہاز تباہ ہو جائے“‏ گا۔‏ (‏احبا 19:‏4؛‏ یُوناہ 1:‏4‏)‏ جہاز پر سوار دیگر لوگوں کے برعکس یُوناہ کو اپنے خدا سے دُعا کرنے میں شرم محسوس ہو رہی ہوگی کیونکہ وہ اُسی سے تو بھاگ رہے تھے۔‏

12.‏ ‏(‏الف)‏ کیا یُوناہ اِس وجہ سے سو رہے تھے کیونکہ اُنہیں اپنی اور دوسروں کی جان کی کوئی پرواہ نہیں تھی؟‏ (‏فٹ‌نوٹ کو بھی دیکھیں۔‏)‏ (‏ب)‏ یہوواہ نے یہ کیسے ظاہر کِیا کہ طوفان کس کی وجہ سے آیا ہے؟‏

12 یُوناہ کو لگا کہ وہ ملاحوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔‏ اِس لیے بےبسی کی حالت میں وہ جہاز کے نچلے حصے میں گئے اور ایک جگہ لیٹ کر گہری نیند سو گئے۔‏ * جہاز کے کپتان نے یُوناہ کو دیکھا،‏ اُنہیں جگایا اور اُن سے کہا کہ وہ بھی باقی سب کی طرح اپنے خدا سے دُعا کریں۔‏ ملاحوں کو یقین تھا کہ اِس طوفان کے پیچھے ضرور کسی دیوتا کا ہاتھ ہے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے قُرعہ ڈالا تاکہ یہ جان سکیں کہ طوفان جہاز پر موجود لوگوں میں سے کس کی وجہ سے آیا ہے۔‏ جیسے جیسے قُرعے میں سے ایک ایک کر کے آدمی نکلتے گئے،‏ یُوناہ کے دل کی دھڑکن بڑھتی گئی۔‏ اور آخرکار یُوناہ کا نام سامنے آیا۔‏ ایسا یہوواہ کی طرف سے ہوا اور یوں سب پر ظاہر ہو گیا کہ یہوواہ ہی یُوناہ کی وجہ سے طوفان لایا ہے۔‏‏—‏یُوناہ 1:‏5-‏7 کو پڑھیں۔‏

13.‏ ‏(‏الف)‏ یُوناہ نے ملاحوں کے سامنے کیا تسلیم کِیا؟‏ (‏ب)‏ یُوناہ نے ملاحوں سے کیا کرنے کو کہا اور کیوں؟‏

13 یُوناہ نے ملاحوں سے ساری حقیقت بیان کر دی۔‏ اُنہوں نے کہا کہ وہ یہوواہ کے خادم ہیں اور اُس سے بھاگ رہے ہیں۔‏ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہوواہ اُن سے ناخوش ہے اور یہ تسلیم کِیا کہ اُن کی وجہ سے باقی سب لوگ مصیبت میں پڑ گئے ہیں۔‏ یُوناہ کی باتیں سُن کر ملاحوں کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور اُن کی آنکھوں میں خوف تیرنے لگا۔‏ اُنہوں نے یُوناہ سے پوچھا کہ وہ کیا کریں تاکہ جہاز اور اپنی جانوں کو بچا سکیں۔‏ یُوناہ کا دل یہ سوچ کر کانپ گیا ہوگا کہ وہ اُس یخ اور طوفانی سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو جائیں گے۔‏ لیکن اِس ڈر کی وجہ سے وہ باقی لوگوں کو موت کے مُنہ میں کیوں دھکیل دیتے جبکہ وہ اُن کی جانیں بچا سکتے تھے؟‏ اِس لیے اُنہوں نے اُن آدمیوں سے کہا:‏ ”‏مجھ کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دو تو تمہارے لئے سمندر ساکن ہو جائے گا کیونکہ مَیں جانتا ہوں کہ یہ بڑا طوفان تُم پر میرے ہی سبب سے آیا ہے۔‏“‏—‏یُوناہ 1:‏12‏۔‏

14،‏ 15.‏ ‏(‏الف)‏ ہم یُوناہ جیسا ایمان کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ جب یُوناہ نے ملاحوں سے کہا کہ وہ اُنہیں سمندر میں پھینک دیں تو ملاحوں نے کیا کِیا؟‏

14 آپ کے خیال میں اگر یُوناہ بزدل ہوتے تو کیا وہ ملاحوں سے یہ بات کہتے؟‏ بِلاشُبہ یہ دیکھ کر یہوواہ کا دل خوش ہوا ہوگا کہ یُوناہ نے مصیبت کی اِس گھڑی میں دلیری اور قربانی کے جذبے کا مظاہرہ کِیا۔‏ اِس سے یُوناہ کے مضبوط ایمان کا ثبوت ملتا ہے۔‏ ہم بھی یُوناہ جیسا ایمان ظاہر کرتے ہوئے دوسروں کے فائدے کو اپنے فائدے سے زیادہ اہمیت دے سکتے ہیں۔‏ (‏یوح 13:‏34،‏ 35‏)‏ کیا آپ ایسے لوگوں کی مدد کرنے کے لیے قربانیاں دینے کو تیار رہتے ہیں جن کے پاس ضروریاتِ‌زندگی کی چیزیں نہیں ہیں؛‏ جو افسردگی کا شکار ہیں یا جنہیں یہوواہ کے قریب رہنے کے لیے حوصلہ‌افزائی کی ضرورت ہے؟‏ یقین رکھیں کہ جب آپ ایسا کرتے ہیں تو یہوواہ کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔‏

15 ایسا لگتا ہے کہ ملاح بھی یُوناہ کی صاف‌گوئی اور دلیری سے متاثر ہوئے تھے۔‏ شاید اِسی لیے اُنہوں نے شروع میں یُوناہ کو سمندر میں پھینکنے سے اِنکار کر دیا۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے اپنی طرف سے کوشش کی تاکہ وہ کسی طرح طوفان میں جہاز کو ٹکائے رکھیں۔‏ لیکن اُن کی ساری کوششوں پر پانی پھر گیا۔‏ طوفان کی شدت میں اِضافہ ہوتا گیا۔‏ آخرکار وہ سمجھ گئے کہ اُن کے پاس کوئی اَور چارہ نہیں ہے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے یُوناہ کے خدا یہوواہ کو پکارتے ہوئے اُس سے رحم کی فریاد کی اور پھر یُوناہ کو اُٹھا کر کشتی کی ایک طرف سے سمندر میں پھینک دیا۔‏—‏یُوناہ 1:‏13-‏15‏۔‏

یُوناہ کے کہنے پر ملاحوں نے اُنہیں سمندر میں پھینک دیا۔‏

یہوواہ کا رحم یُوناہ کے لیے باعثِ‌نجات

16،‏ 17.‏ اُس منظر کو بیان کریں جب یُوناہ کو سمندر میں پھینک دیا گیا۔‏ (‏تصویروں کو بھی دیکھیں۔‏)‏

16 یُوناہ بپھری ہوئی موجوں میں جا گِرے۔‏ شاید اُنہوں نے جھاگ اُڑاتی لہروں میں ڈوبنے سے بچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے ہوں اور جہاز کو بڑی تیزی سے دُور جاتے دیکھا ہو۔‏ پھر کچھ ہی دیر میں طاقت‌ور لہروں نے اُنہیں دبوچ کر سمندر کی گہرائیوں کی طرف دھکیل دیا اور یہ احساس دِلایا کہ اب اُمید کی کوئی کِرن باقی نہیں رہی۔‏

17 یُوناہ نے بعد میں بتایا کہ اُس وقت اُن کے کیا احساسات تھے۔‏ اُنہیں ڈر تھا کہ اپنی نافرمانی کی وجہ سے وہ خدا کی خوشنودی سے محروم ہو جائیں گے۔‏ وہ یہ محسوس کر رہے تھے کہ وہ سمندر کی گہرائیوں میں بلکہ پہاڑوں کی تہہ تک ڈوب گئے ہیں اور سمندری پودوں نے اُنہیں جکڑ لیا ہے۔‏ اُنہیں لگ رہا تھا کہ یہی اُن کی قبر ہے۔‏‏—‏یُوناہ 2:‏2-‏6 کو پڑھیں۔‏ *

18،‏ 19.‏ ‏(‏الف)‏ سمندر کی گہرائیوں میں یُوناہ کے ساتھ کیا ہوا؟‏ (‏ب)‏ کس قسم کی مخلوق یُوناہ کے پاس آئی؟‏ (‏فٹ‌نوٹ کو بھی دیکھیں۔‏)‏ (‏ج)‏ اِس سب کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا؟‏

18 لیکن جب یُوناہ سمندر کی تہہ میں تھے تو اُنہیں کچھ نظر آیا۔‏ اُن کے قریب ایک بہت بڑی مخلوق تیر رہی تھی۔‏ اچانک یہ مخلوق تیزی سے اُن کی طرف آنے لگی۔‏ اُس نے اپنا بڑا سا مُنہ کھولا اور یُوناہ کو نگل لیا۔‏

‏”‏[‏یہوواہ]‏ نے ایک بڑی مچھلی مقرر کر رکھی تھی کہ یُوناؔہ کو نگل جائے۔‏“‏

19 یُوناہ کو لگا ہوگا کہ اب تو اُن کی موت پکی ہے۔‏ لیکن پھر اُنہیں یہ احساس ہوا کہ توقع کے بالکل برعکس وہ اب بھی زندہ ہیں۔‏ نہ تو مچھلی نے یُوناہ کو دبوچا تھا اور نہ ہی اُنہیں اپنا دم گھٹتا محسوس ہو رہا تھا۔‏ اُن کی سانسیں اب تک چل رہی تھیں حالانکہ وہ ایک ایسی جگہ پر موجود تھے جہاں اِنسان کے زندہ رہنے کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی۔‏ جیسے جیسے یُوناہ کو اِن باتوں کا احساس ہوتا گیا،‏ وہ حیرت میں ڈوبتے گئے۔‏ وہ سمجھ گئے کہ اُن کے خدا ”‏[‏یہوواہ]‏ نے ایک بڑی مچھلی مقرر کر رکھی تھی کہ [‏اُنہیں]‏ نگل جائے۔‏“‏ *‏—‏یُوناہ 1:‏17‏۔‏

20.‏ یُوناہ نے مچھلی کے پیٹ میں جو دُعا کی،‏ اُس سے ہمیں اُن کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟‏

20 مچھلی کے پیٹ میں یُوناہ کا وقت آہستہ آہستہ گزرنے لگا۔‏ وہاں گھپ اندھیرے میں اُنہیں سوچ بچار کرنے اور یہوواہ سے دُعا کرنے کا موقع ملا۔‏ اُن کی پوری دُعا یُوناہ کی کتاب کے دوسرے باب میں درج ہے اور اِس سے ہمیں اُن کے بارے میں کافی کچھ پتہ چلتا ہے۔‏ مثال کے طور پر اِس دُعا سے ظاہر ہوتا ہے کہ یُوناہ صحیفوں کا گہرا علم رکھتے تھے کیونکہ اُنہوں نے بار بار زبور کی کتاب سے حوالے دیے۔‏ اِس دُعا سے یُوناہ کی ایک خاص خوبی بھی پتہ چلتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اُن کا دل یہوواہ کے لیے شکرگزاری سے بھرا ہوا تھا۔‏ اپنی دُعا کے آخر میں اُنہوں نے یہوواہ سے کہا:‏ ”‏مَیں شکرگزاری کے گیت گاتے ہوئے تجھے قربانی پیش کروں گا۔‏ جو منت مَیں نے مانی اُسے پورا کروں گا۔‏ رب ہی نجات دیتا ہے۔‏“‏—‏یُوناہ 2:‏9‏،‏ اُردو جیو ورشن۔‏

21.‏ یُوناہ کون سی بات سمجھ گئے تھے اور ہمیں کیا یاد رکھنا چاہیے؟‏

21 یُوناہ یہ سمجھ گئے تھے کہ اگر یہوواہ ”‏مچھلی کے پیٹ میں“‏ اُنہیں بچا سکتا ہے تو وہ اپنے کسی بھی بندے کو کسی بھی جگہ اور کسی بھی صورتحال میں بچا سکتا ہے۔‏ (‏یُوناہ 1:‏17‏)‏ واقعی یہ صرف یہوواہ ہی تھا جو ایک اِنسان کو تین دن اور تین راتیں مچھلی کے پیٹ میں صحیح سلامت رکھ سکتا تھا۔‏ ہمیں بھی یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہوواہ ہی وہ خدا ہے ”‏جس کے ہاتھ میں [‏ہمارا]‏ دم ہے۔‏“‏ (‏دان 5:‏23‏)‏ ہماری ہر سانس اُس کی امانت ہے اور یہ اُس کا احسان ہے کہ ہم زندہ ہیں۔‏ یہ جان کر کیا آپ کا دل یہوواہ کے لیے شکرگزاری سے بھر نہیں جاتا اور کیا آپ کو یہ ترغیب نہیں ملتی کہ آپ ہمیشہ اُس کی فرمانبرداری کریں؟‏

22،‏ 23.‏ ‏(‏الف)‏ یُوناہ کو یہ ظاہر کرنے کا موقع کیسے ملا کہ وہ واقعی خدا کے شکرگزار ہیں؟‏ (‏ب)‏ جب ہم سے غلطیاں ہو جاتی ہیں تو ہم یُوناہ کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

22 کیا یُوناہ نے بھی یہوواہ کی فرمانبرداری کرنے سے اُس کے لیے شکرگزاری ظاہر کی؟‏ تین دنوں اور تین راتوں کے بعد مچھلی اُنہیں ساحل پر لے آئی اور ”‏اُس نے یُوناؔہ کو خشکی پر اُگل دیا۔‏“‏ (‏یُوناہ 2:‏10‏)‏ ذرا سوچیں کہ یہوواہ نے نہ صرف یُوناہ کو بچایا بلکہ اُن کے لیے یہ بندوبست بھی کِیا کہ مچھلی اُنہیں خشکی پر اُگل دے تاکہ اُنہیں تیر کر ساحل تک نہ جانا پڑے۔‏ لیکن یُوناہ کو ساحل سے آگے اپنا راستہ خود تلاش کرنا تھا۔‏ دراصل کچھ ہی دیر بعد یُوناہ کو یہ ظاہر کرنے کا موقع ملا کہ وہ واقعی یہوواہ کے شکرگزار ہیں۔‏ یُوناہ 3:‏1،‏ 2 میں لکھا ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کا کلام دوسری بار یُوناؔہ پر نازل ہوا کہ اُٹھ اُس بڑے شہر نینوؔہ کو جا اور وہاں اِس بات کی مُنادی کر جس کا مَیں تجھے حکم دیتا ہوں۔‏“‏ یُوناہ نے کیا کِیا؟‏

23 اب کی بار یُوناہ گھبرائے نہیں۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏تب یُوناؔہ [‏یہوواہ]‏ کے کلام کے مطابق اُٹھ کر نینوؔہ کو گیا۔‏“‏ (‏یُوناہ 3:‏3‏)‏ یوں یُوناہ نے خدا کی فرمانبرداری کی۔‏ بِلاشُبہ اُنہوں نے اپنی غلطیوں سے سیکھ لیا تھا۔‏ اِس معاملے میں بھی ہمیں یُوناہ جیسا ایمان ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔‏ ہم سب گُناہ اور غلطیاں کرتے ہیں۔‏ (‏روم 3:‏23‏)‏ لیکن ہمیں اِس وجہ سے مایوس ہو کر خدا کی خدمت نہیں چھوڑنی چاہیے۔‏ اِس کی بجائے ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے اور آئندہ خدا کے فرمانبردار رہنے کا عزم کرنا چاہیے۔‏

24،‏ 25.‏ ‏(‏الف)‏ جب یُوناہ زندہ تھے تو اُنہیں کیا اجر ملا؟‏ (‏ب)‏ یُوناہ کو مستقبل میں کون سے اجر ملیں گے؟‏

24 کیا یہوواہ نے یُوناہ کو اُن کی فرمانبرداری کا اجر دیا؟‏ بےشک۔‏ ایسا لگتا ہے کہ یُوناہ کو بعد میں پتہ چلا کہ اُن ملاحوں کی جانیں بچ گئی تھیں اور یہ جاننا یُوناہ کے لیے واقعی ایک اجر تھا۔‏ جب یُوناہ نے بےغرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملاحوں سے کہا کہ وہ اُنہیں سمندر میں پھینک دیں اور ملاحوں نے ایسا کِیا تو اِس کے فوراً بعد طوفان تھم گیا۔‏ اِس پر ملاح ”‏[‏یہوواہ]‏ سے بہت ڈر گئے“‏ اور اُنہوں نے اپنے جھوٹے دیوتاؤں کی بجائے یہوواہ کے حضور قربانی چڑھائی۔‏—‏یُوناہ 1:‏15،‏ 16‏۔‏

25 مستقبل میں یُوناہ کو اِس سے بھی بڑے اجر ملیں گے۔‏ ایک موقعے پر یسوع مسیح نے کہا کہ یُوناہ نے مچھلی کے پیٹ میں جو وقت گزارا،‏ وہ اُس وقت کا عکس ہوگا جو اُنہوں نے قبر میں گزارنا تھا۔‏ ‏(‏متی 12:‏38-‏40 کو پڑھیں۔‏)‏ جب یُوناہ زمین پر زندہ ہوں گے اور اُنہیں یسوع کی اِس بات کے بارے میں بتایا جائے گا تو یقیناً وہ بہت خوش ہوں گے۔‏ (‏یوح 5:‏28،‏ 29‏)‏ یہوواہ آپ کو بھی برکتوں سے نوازنا چاہتا ہے۔‏ کیا آپ یُوناہ کی طرح اپنی غلطیوں سے سیکھیں گے،‏ یہوواہ کی فرمانبرداری کریں گے اور قربانی کا جذبہ دِکھائیں گے؟‏

^ پیراگراف 4 یہ بات قابلِ‌غور ہے کہ یُوناہ گلیل کے ایک شہر سے تعلق رکھتے تھے۔‏ ایک مرتبہ جب فریسی،‏ یسوع کے بارے میں بات کر رہے تھے تو اُنہوں نے بڑی گستاخی سے کہا:‏ ”‏ذرا صحیفوں کو کھول کر دیکھو تو تمہیں پتہ چلے گا کہ گلیل سے کوئی نبی نہیں آنے والا۔‏“‏ (‏یوح 7:‏52‏)‏ بہت سے ترجمہ‌نگاروں اور تحقیق‌دانوں کا خیال ہے کہ فریسیوں کی بات کا مطلب یہ تھا کہ گلیل جیسے معمولی علاقے سے نہ تو آج تک کوئی نبی آیا ہے اور نہ ہی کبھی آ سکتا ہے۔‏ اگر ایسی بات تھی تو فریسی نہ صرف مسیح کے بارے میں کی گئی پیش‌گوئی کو بلکہ تاریخ کو بھی نظرانداز کر رہے تھے۔‏—‏یسع 9:‏1،‏ 2‏۔‏

^ پیراگراف 12 ‏”‏سپتواجنتا“‏ میں بتایا گیا ہے کہ یُوناہ اِس حد تک نیند کی آغوش میں چلے گئے کہ خراٹے لینے لگے۔‏ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ یُوناہ اِس وجہ سے سو رہے تھے کیونکہ اُنہیں اپنی اور دوسروں کی جان کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔‏ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی کبھار جب کوئی شخص بہت افسردہ ہوتا ہے تو اُس کا دل چاہتا ہے کہ وہ بس سو جائے۔‏ مثال کے طور پر جب یسوع گتسمنی باغ میں اِنتہائی کرب سے گزر رہے تھے تو پطرس،‏ یعقوب اور یوحنا ”‏غم سے نڈھال ہو کر سو“‏ رہے تھے۔‏—‏لُو 22:‏45‏۔‏

^ پیراگراف 17 یُوناہ 2:‏2 اور 6 میں جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”‏پاتال“‏ کِیا گیا ہے،‏ اُس کا مطلب ”‏قبر“‏ ہے۔‏

^ پیراگراف 19 عبرانی زبان میں ”‏مچھلی“‏ کے لیے جو لفظ اِستعمال ہوا ہے،‏ ‏”‏سپتواجنتا“‏ میں اُس کا یونانی ترجمہ ”‏بڑی مچھلی“‏ یا ”‏بہت بڑی سمندری مخلوق“‏ کِیا گیا ہے۔‏ ہم یقین سے تو نہیں کہہ سکتے کہ کس قسم کی مخلوق نے یُوناہ کو نگلا تھا لیکن بحیرۂروم میں ایسی شارک مچھلیاں دیکھی گئی ہیں جو اِتنی بڑی ہیں کہ پورے کے پورے آدمی کو نگل سکتی ہیں۔‏ دوسرے سمندروں میں اِس سے بھی بڑی شارک مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔‏ اِن میں سے ایک وھیل شارک ہے جس کی لمبائی 15 میٹر (‏45 فٹ)‏ سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔‏