مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب نمبر 20

‏”‏مَیں یقین رکھتی ہوں“‏

‏”‏مَیں یقین رکھتی ہوں“‏

1.‏ مارتھا کس صورتحال سے گزر رہی تھیں؟‏

مارتھا کی آنکھوں کے سامنے رہ رہ کر اُس جگہ کی تصویر آ رہی تھی جہاں اُن کے بھائی کی لاش رکھی گئی تھی۔‏ یہ ایک غار تھا جس کا مُنہ ایک بڑے پتھر سے بند کِیا گیا تھا۔‏ البتہ اُس پتھر سے بھی کہیں زیادہ بھاری اُس غم کا بوجھ تھا جو مارتھا اُٹھائے ہوئے تھیں۔‏ اُنہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ اُن کا پیارا بھائی لعزر اب نہیں رہا۔‏ پچھلے چار دنوں سے گھر پر ماتم کی فضا چھائی ہوئی تھی اور بہت سے عزیز رشتےدار افسوس کے لیے آ جا رہے تھے۔‏ اِس ساری صورتحال کی وجہ سے مارتھا جسمانی اور جذباتی طور پر نڈھال ہو چُکی تھیں۔‏

2‏،‏ 3.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع سے ملنے کے بعد مارتھا کو کیسا محسوس ہوا ہوگا؟‏ (‏ب)‏ یوحنا 11:‏27 میں مارتھا نے یسوع سے جو بات کہی،‏ اُس سے اُن کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟‏

2 مارتھا اپنے گاؤں بیت‌عنیاہ کے باہر موجود تھیں جو ایک پہاڑ کے دامن میں واقع تھا۔‏ وہ اُس شخص کے سامنے کھڑی تھیں جو لعزر کا سب سے عزیز دوست تھا۔‏ یہ شخص یسوع مسیح تھے۔‏ یسوع مسیح کو دیکھتے ہی مارتھا کا دل بھر آیا کیونکہ یسوع وہ واحد شخص تھے جو اُن کے بھائی کی زندگی کا دیا بُجھنے سے روک سکتے تھے۔‏ غالباً مارتھا کو یسوع سے یہ گلہ تھا کہ اُنہوں نے آ کر اُن کے بھائی کو کیوں نہیں بچایا۔‏ مگر اِن سوچوں کے باوجود یسوع کی آنکھوں میں ہمدردی اور شفقت کے جذبات دیکھ کر اُن کے دُکھی دل کو بڑی تسلی ملی ہوگی۔‏ یسوع نے اپنی باتوں سے مارتھا کا دھیان مُردوں کے جی اُٹھنے کی اُمید کی طرف دِلایا۔‏ یسوع کے ساتھ بات‌چیت سے مارتھا کو یہ الفاظ کہنے کی ترغیب ملی:‏ ”‏مَیں یقین رکھتی ہوں کہ آپ مسیح اور خدا کے بیٹے ہیں۔‏ آپ وہی ہیں جسے دُنیا میں آنا تھا۔‏“‏—‏یوح 11:‏27‏۔‏

3 مارتھا کے اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مضبوط ایمان کی مالک تھیں۔‏ بائبل میں مارتھا کے بارے میں زیادہ کچھ تو نہیں بتایا گیا مگر جو تھوڑا بہت بتایا گیا ہے،‏ اُس سے بھی ہم اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے حوالے سے نہایت اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔‏ اِس سلسلے میں آئیں،‏ بائبل میں درج اُس واقعے پر غور کریں جس میں پہلی بار مارتھا کا ذکر ملتا ہے۔‏

‏’‏آپ فکرمند اور پریشان کیوں ہیں؟‏‘‏

4.‏ مارتھا کے گھر میں کون کون تھا اور اُن کے خاندان کے یسوع مسیح سے کیسے تعلقات تھے؟‏

4 یہ کچھ مہینے پہلے کی بات ہے۔‏ اُس وقت لعزر زندہ تھے اور بالکل ٹھیک ٹھاک تھے۔‏ اُن کے گھر سب سے خاص مہمان یعنی یسوع مسیح آنے والے تھے۔‏ لعزر،‏ مارتھا اور اُن کی بہن مریم تینوں اِکٹھے رہتے تھے۔‏ چونکہ مارتھا گھر میں میزبانی کے فرائض انجام دیتی تھیں اور عموماً اُن کا نام تینوں بہن بھائیوں میں پہلے آتا ہے اِس لیے کچھ تحقیق‌دانوں کا خیال ہے کہ مارتھا تینوں میں بڑی تھیں۔‏ (‏یوح 11:‏5‏)‏ ہم نہیں جانتے کہ اُن میں سے کسی کی کبھی شادی ہوئی تھی یا نہیں۔‏ بہرحال وہ تینوں یسوع مسیح کے قریبی دوست تھے۔‏ جب یسوع یہودیہ میں مُنادی کرنے جاتے تھے تو وہ بیت‌عنیاہ میں اُن کے گھر ٹھہرتے تھے۔‏ چونکہ یسوع کو یہودیہ میں سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا تھا اِس لیے اُنہیں اپنے اِن عزیز دوستوں کا گھر آرام‌وسکون کا گہوارہ معلوم ہوتا ہوگا۔‏

5‏،‏ 6.‏ ‏(‏الف)‏ جب یسوع،‏ مارتھا کے گھر آئے تو وہ اِتنی مصروف کیوں تھیں؟‏ (‏ب)‏ مریم نے یسوع کی موجودگی سے کیسے فائدہ حاصل کِیا؟‏

5 گھر کے ماحول کو آرام‌دہ بنانے اور مہمانوں کی خاطرتواضع کرنے میں مارتھا کا بڑا ہاتھ ہوتا تھا۔‏ وہ ایک محنتی خاتون تھیں اور اکثر کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتی تھیں۔‏ جب یسوع اور شاید اُن کے کچھ ساتھی مارتھا کے گھر آنے والے تھے تو اِس موقعے پر بھی وہ کھانے پکانے کا خاص اِنتظام کرنے میں لگی ہوئی تھیں۔‏ اُس زمانے میں مہمان‌نوازی کو بڑا اہم خیال کِیا جاتا تھا۔‏ جب کسی کے گھر کوئی مہمان آتا تھا تو اُسے چُوم کر اُس کا اِستقبال کِیا جاتا تھا،‏ اُس کے جُوتے اُتار کر اُس کے پاؤں دھوئے جاتے تھے اور اُس کے سر پر خوشبودار تیل لگایا جاتا تھا۔‏ ‏(‏لُوقا 7:‏44-‏47 کو پڑھیں۔‏)‏ میزبان کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنے مہمان کے آرام اور کھانے پینے کا ہر طرح سے خیال رکھے۔‏

6 مارتھا اور مریم کو اپنے مہمانوں کے لیے بہت ساری تیاریاں کرنی تھیں۔‏ ویسے تو جب مریم کا ذکر کِیا جاتا ہے تو ہمارے ذہن میں ایک ایسی خاتون آتی ہیں جو سیکھنے کی شوقین تھیں لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ گھر کے کاموں میں مارتھا کا ہاتھ نہیں بٹاتی تھیں۔‏ یسوع کے آنے سے پہلے بھی وہ ضرور اپنی بہن کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہوں گی۔‏ لیکن جب یسوع مسیح آئے تو صورتحال بدل گئی۔‏ جیسا کہ یسوع کا دستور تھا،‏ وہ وہاں موجود لوگوں کو تعلیم دینے لگے۔‏ اپنے زمانے کے مذہبی رہنماؤں کے برعکس یسوع عورتوں کی عزت کرتے تھے اور مردوں کے ساتھ ساتھ اُنہیں بھی خدا کی بادشاہت کے بارے میں تعلیم دیتے تھے جو کہ اُن کی مُنادی کا مرکزی موضوع تھا۔‏ مریم نے یسوع سے سیکھنے کے اِس موقعے کو سنہری خیال کِیا۔‏ وہ اُن کے قدموں میں بیٹھ گئیں اور اُن کے ایک ایک لفظ کو دل‌ودماغ میں اُتارنے لگیں۔‏

7‏،‏ 8.‏ مارتھا کس وجہ سے پریشان ہو رہی تھیں اور اُنہوں نے اِس کا اِظہار کیسے کِیا؟‏

7 ذرا سوچیں کہ اُس وقت مارتھا کے ذہن پر کتنے سارے کام سوار ہوں گے۔‏ اُنہیں اپنے مہمانوں کے لیے فرق فرق قسم کے کھانے بنانے تھے اور ہر طرح سے اُن کی خاطرتواضع کرنی تھی۔‏ اِس وجہ سے اُن کا دھیان بٹا ہوا تھا اور اُن کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔‏ مصروفیت کے اِس عالم میں جب وہ مختلف کاموں کی غرض سے اِدھر اُدھر آ جا رہی تھیں تو اُنہیں اپنی بہن فارغ بیٹھی نظر آ رہی تھی۔‏ ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے چہرے سے بیزاری ظاہر کی ہو یا اُکتاہٹ سے آہیں بھری ہوں۔‏ اگر اُنہوں نے ایسا کِیا ہوگا تو یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی کیونکہ وہ اکیلی اِتنا سارا کام نہیں کر سکتی تھیں۔‏

8 آخرکار مارتھا اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکیں اور پھٹ پڑیں۔‏ اُنہوں نے یسوع کی بات کاٹتے ہوئے اُن سے کہا:‏ ”‏مالک،‏ آپ دیکھ رہے ہیں کہ میری بہن میرا ہاتھ نہیں بٹا رہی۔‏ اِس سے کہیں کہ آ کر میری مدد کرے۔‏“‏ (‏لُو 10:‏40‏)‏ مارتھا کے یہ الفاظ بڑے دوٹوک اور سخت تھے۔‏ بائبل کے کچھ ترجموں میں اِن الفاظ کا ترجمہ یوں کِیا گیا ہے:‏ ‏”‏خداوند،‏ کیا آپ کو پروا نہیں کہ .‏ .‏ .‏۔‏“‏ پھر مارتھا نے یسوع سے کہا کہ وہ مریم کو ڈانٹیں اور اُنہیں کاموں میں ہاتھ بٹانے کو کہیں۔‏

9،‏ 10.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع مسیح نے مارتھا کو کیا جواب دیا؟‏ (‏ب)‏ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یسوع،‏ مارتھا کی محنت کی بےقدری نہیں کر رہے تھے؟‏

9 یسوع مسیح نے مارتھا کو جو جواب دیا،‏ اُسے پڑھ کر بہت سے لوگ سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔‏ شاید مارتھا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہو۔‏ یسوع نے نرمی سے مارتھا کو کہا:‏ ”‏مارتھا،‏ مارتھا،‏ آپ بہت سی چیزوں کے بارے میں فکرمند اور پریشان کیوں ہیں؟‏ ہمیں بہت ساری چیزوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ بس ایک ہی کافی ہے۔‏ جہاں تک مریم کا تعلق ہے،‏ اُنہوں نے سب سے اچھی چیز چُنی ہے اور یہ اُن سے لی نہیں جائے گی۔‏“‏ (‏لُو 10:‏41،‏ 42‏)‏ یسوع کی اِس بات کا کیا مطلب تھا؟‏ کیا وہ مارتھا کو ایک ایسی شخص کہہ رہے تھے جس کی نظر میں خدا کی عبادت سے زیادہ دوسرے کام اہمیت رکھتے تھے؟‏ کیا وہ اُس ساری محنت کی بےقدری کر رہے تھے جو مارتھا نے اُن کی خاطر کی تھی؟‏

حالانکہ مارتھا ”‏بہت سی چیزوں کے بارے میں فکرمند اور پریشان“‏ تھیں پھر بھی اُنہوں نے خاکساری سے اِصلاح کو قبول کِیا۔‏

10 جی نہیں۔‏ یسوع مسیح جانتے تھے کہ مارتھا پیار اور خلوص کی بِنا پر یہ سب کچھ کر رہی ہیں۔‏ اِس کے علاوہ یسوع کی نظر میں کسی کی مہمان‌نوازی کرتے وقت بہت سی چیزیں تیار کرنا بذاتِ‌خود غلط نہیں تھا۔‏ کچھ عرصہ پہلے یسوع اُس ”‏بہت بڑی دعوت“‏ میں گئے تھے جس کا اِہتمام متی نے اُن کے لیے کِیا تھا۔‏ (‏لُو 5:‏29‏)‏ لہٰذا بات یہ نہیں تھی کہ مارتھا طرح طرح کے کھانوں کا اِنتظام کر رہی تھیں بلکہ اصل مسئلہ یہ تھا کہ وہ اِس کام میں اِتنی مگن ہو گئی تھیں کہ اُن کا دھیان سب سے اہم چیز سے ہٹ گیا تھا۔‏ وہ چیز کیا تھی؟‏

یسوع مسیح،‏ مارتھا کی مہمان‌نوازی کی قدر کرتے تھے اور وہ جانتے تھے کہ اِس کے پیچھے مارتھا کا پیار اور خلوص چھپا ہے۔‏

11،‏ 12.‏ یسوع نے نرمی سے مارتھا کی اِصلاح کیسے کی؟‏

11 خدا کا اِکلوتا بیٹا مارتھا کے گھر میں تعلیم دینے آیا ہوا تھا۔‏ بھلا ایسی صورت میں مارتھا کے لذیذ کھانے یا کوئی بھی اَور چیز کیسے اہم ہو سکتی تھی؟‏ بِلاشُبہ یسوع کو یہ دیکھ کر افسوس ہوا ہوگا کہ مارتھا اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کا ایک بیش‌قیمت موقع گنوا رہی ہیں۔‏ پھر بھی یسوع نے اِس معاملے میں اُنہیں خود فیصلہ کرنے دیا۔‏ * لیکن یسوع اِس بات کو مناسب نہیں سمجھتے تھے کہ مارتھا اپنی بہن کے لیے یہ فیصلہ کریں کہ اُسے اِس صورتحال میں کیا کرنا چاہیے۔‏

12 اِس لیے یسوع نے نرمی سے مارتھا کی اِصلاح کی۔‏ اُنہوں نے مارتھا کے پریشان دل کو پُرسکون کرنے کے لیے پیار سے دو بار اُن کا نام پکارا اور اُن سے کہا کہ وہ ”‏بہت سی چیزوں کے بارے میں فکرمند اور پریشان“‏ نہ ہوں۔‏ مارتھا کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت تھی کہ ایک یا دو کھانوں سے بھی گزارہ ہو سکتا ہے،‏ خاص طور پر اُس وقت جب زیادہ ضروری چیز یعنی روحانی کھانا کثرت سے دستیاب تھا۔‏ لہٰذا یسوع،‏ مریم سے وہ اچھی چیز ہرگز نہیں لینا چاہتے تھے جو اُنہوں نے چُن لی تھی یعنی وہ اُنہیں یہ نہیں کہنا چاہتے تھے کہ وہ اُن سے تعلیم پانا چھوڑ کر گھر کے کام‌کاج میں لگ جائیں۔‏

13.‏ یسوع مسیح نے مارتھا کو جو نصیحت کی،‏ اُس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

13 اِس چھوٹے سے واقعے میں ہمارے لیے بہت سے سبق پائے جاتے ہیں۔‏ ہمیں کبھی بھی کسی چیز کو اِتنی اہمیت نہیں دینی چاہیے کہ ہم ”‏خدا کی رہنمائی“‏ حاصل کرنے سے محروم رہ جائیں۔‏ (‏متی 5:‏3‏)‏ یہ اچھی بات ہے کہ ہم مارتھا کی طرح فیاضی اور محنت کا جذبہ ظاہر کریں۔‏ لیکن ہمیں مہمانوں کے لیے کھانا تیار کرنے کے چکر میں اِس حد تک ”‏فکرمند اور پریشان“‏ نہیں ہو جانا چاہیے کہ ہم مہمان‌نوازی کا اصل مقصد ہی بھول جائیں۔‏ جب ہم بہن بھائیوں کو اپنے گھر دعوت پر بلاتے ہیں یا جب ہم اُن کے ہاں جاتے ہیں تو ہمارا مقصد عمدہ عمدہ کھانے کھانا یا کھلانا نہیں ہوتا۔‏ اِس کی بجائے ہمارا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی کریں اور ایک دوسرے کے ایمان کو مضبوط کریں۔‏ ‏(‏رومیوں 1:‏11،‏ 12 کو پڑھیں۔‏)‏ اگر ہم سادہ سے کھانے کا اِنتظام بھی کرتے ہیں تو تب بھی ہم ایک دوسرے کے لیے حوصلہ‌افزائی کا باعث بن سکتے ہیں۔‏

لعزر کی وفات اور مارتھا کا ایمان

14.‏ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ مارتھا نے یسوع کی طرف سے ملنے والی اِصلاح کو قبول کِیا؟‏

14 کیا مارتھا نے یسوع کی شفقت بھری اِصلاح کو قبول کِیا؟‏ بےشک۔‏ کچھ مہینے بعد مارتھا کے بھائی لعزر کے ساتھ ایک حیرت‌انگیز واقعہ پیش آیا۔‏ اِس واقعے کے بارے میں بتانے سے پہلے یوحنا رسول نے لکھا:‏ ”‏یسوع کو مارتھا،‏ مریم اور لعزر سے بہت پیار تھا۔‏“‏ (‏یوح 11:‏5‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع کی طرف سے اِصلاح ملنے پر مارتھا نے مُنہ نہیں پُھلایا اور نہ ہی دل میں غصہ پلنے دیا۔‏ اُنہوں نے اِس اِصلاح کی دل سے قدر کی۔‏ اِس معاملے میں بھی اُنہوں نے ہمارے لیے ایک عمدہ مثال قائم کی کیونکہ ہم سب کو کبھی نہ کبھی اِصلاح کی ضرورت پڑتی ہے۔‏

15،‏ 16.‏ ‏(‏الف)‏ لعزر کی بیماری کے دوران مارتھا نے کیا کِیا ہوگا؟‏ (‏ب)‏ مارتھا اور مریم کی اُمید چکناچُور کیوں ہو گئی؟‏

15 مارتھا کے بھائی لعزر اچانک سخت بیمار پڑ گئے۔‏ اِس پر یقیناً مارتھا اُن کی تیمارداری میں جت گئی ہوں گی۔‏ بِلاشُبہ اُنہوں نے جو ممکن تھا،‏ وہ کِیا ہوگا تاکہ اُن کے بھائی کی تکلیف کم ہو جائے اور اُس کی حالت میں سدھار آ جائے۔‏ لیکن اُن کی لاکھ کوششوں کے باوجود لعزر کی طبیعت بگڑتی گئی۔‏ اُن کی بہنیں اُن کی دیکھ‌بھال کے لیے ہر گھڑی اُن کے سرہانے بیٹھی رہتی ہوں گی۔‏ جب جب مارتھا اپنے بھائی کے مُرجھائے ہوئے چہرے کو دیکھتی ہوں گی تو اُنہیں خوشی اور غم کے وہ تمام لمحات یاد آتے ہوں گے جو اُنہوں نے ساتھ میں کاٹے تھے۔‏

16 جب مارتھا اور مریم کو لعزر کے بچنے کی کوئی اُمید نظر نہ آئی تو اُنہوں نے یسوع کو یہ پیغام بھجوایا:‏ ”‏مالک،‏ آپ کا پیارا دوست بیمار ہے۔‏“‏ (‏یوح 11:‏1،‏ 3‏)‏ اُس وقت یسوع ایک گاؤں میں مُنادی کر رہے تھے جو بیت‌عنیاہ سے دو دن کے فاصلے پر تھا۔‏ مارتھا اور مریم جانتی تھیں کہ یسوع اُن کے بھائی سے بہت پیار کرتے ہیں اور اُنہیں پکا یقین تھا کہ وہ اپنے دوست کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔‏ شاید اُنہیں یہ اُمید تھی کہ یسوع وقت رہتے اُن کے پاس پہنچ جائیں گے۔‏ لیکن اُن کی یہ اُمید چکناچُور ہو گئی کیونکہ لعزر نے دم توڑ دیا۔‏

17.‏ مارتھا کی اُلجھن کیوں بڑھتی جا رہی تھی اور یسوع کے آنے کی خبر سُن کر اُنہوں نے کیا کِیا؟‏

17 مارتھا اور مریم اپنے بھائی کی موت پر ماتم کرنے لگیں۔‏ ساتھ ہی اُنہوں نے اُس کے کفن‌دفن کی تیاریاں شروع کر دیں۔‏ جونہی لعزر کی موت کی خبر پھیلی،‏ بیت‌عنیاہ اور اِس کے اِردگِرد کے علاقوں سے لوگ افسوس کے لیے آنے لگے۔‏ لیکن یسوع کی کوئی اِطلاع نہیں ملی۔‏ جوں‌جوں وقت گزر رہا تھا،‏ یہ سوچ سوچ کر مارتھا کی اُلجھن بڑھتی جا رہی تھی کہ آخر یسوع اب تک کیوں نہیں پہنچے۔‏ پھر چار دن بعد مارتھا نے سنا کہ یسوع بیت‌عنیاہ کے قریب پہنچ گئے ہیں۔‏ حالانکہ مارتھا غم سے نڈھال تھیں پھر بھی وہ دیر کیے بغیر اُٹھیں اور مریم کو بتائے بِنا یسوع سے ملنے چلی گئیں۔‏‏—‏یوحنا 11:‏18-‏20 کو پڑھیں۔‏

18،‏ 19.‏ مارتھا نے کس بات پر ایمان کا اِظہار کِیا اور اُن کا ایمان قابلِ‌تعریف کیوں تھا؟‏

18 جونہی مارتھا نے اپنے مالک یسوع کو دیکھا،‏ اُنہوں نے اُس بات کو لفظوں کی شکل دے دی جو کئی دنوں سے اُنہیں اور مریم کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مالک،‏ اگر آپ یہاں ہوتے تو میرا بھائی نہ مرتا۔‏“‏ مارتھا کا بھائی تو مر گیا تھا مگر اُن کی اُمید اور ایمان ابھی زندہ تھا۔‏ لہٰذا اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:‏ ”‏لیکن مجھے ابھی بھی یقین ہے کہ آپ خدا سے جو کچھ بھی مانگیں گے،‏ خدا آپ کو دے گا۔‏“‏ یسوع نے اُن کا ایمان بڑھانے کے لیے فوراً فرمایا:‏ ”‏آپ کا بھائی جی اُٹھے گا۔‏“‏—‏یوح 11:‏21-‏23‏۔‏

19 مارتھا کو لگا کہ یسوع مستقبل میں مُردوں کے زندہ ہونے کی بات کر رہے ہیں۔‏ اِس لیے اُنہوں نے یسوع کو جواب دیا:‏ ”‏مجھے پتہ ہے کہ آخری دن جب مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا تو وہ بھی جی اُٹھے گا۔‏“‏ (‏یوح 11:‏24‏)‏ مُردوں کے جی اُٹھنے پر مارتھا کا ایمان واقعی قابلِ‌تعریف تھا۔‏ اُس زمانے میں بعض یہودی مذہبی رہنما جنہیں صدوقی کہا جاتا تھا،‏ مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان نہیں رکھتے تھے حالانکہ اِس حوالے سے پاک صحیفوں کی تعلیم بالکل واضح تھی۔‏ (‏دان 12:‏13؛‏ مر 12:‏18‏)‏ مارتھا جانتی تھیں کہ یسوع نے مُردوں کے جی اُٹھنے کی تعلیم دی تھی،‏ یہاں تک کہ مُردوں کو زندہ بھی کِیا تھا۔‏ یہ الگ بات تھی کہ یسوع نے اب تک کسی ایسے مُردے کو زندہ نہیں کِیا تھا جسے مرے ہوئے لعزر جتنا وقت ہو گیا ہو۔‏ مارتھا اِس بات سے انجان تھیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔‏

20.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع کی اِس بات کا کیا مطلب تھا:‏ ”‏مَیں وہ ہوں جو زندہ کرتا ہوں اور زندگی دیتا ہوں“‏؟‏ (‏ب)‏ یوحنا 11:‏27 میں درج مارتھا کے بیان کی وضاحت کریں۔‏

20 پھر یسوع نے ایک ایسی بات کہی جو مارتھا کبھی نہیں بھول پائی ہوں گی۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں وہ ہوں جو زندہ کرتا ہوں اور زندگی دیتا ہوں۔‏“‏ اِس طرح یسوع نے واضح کِیا کہ یہوواہ خدا نے اُنہیں یہ اِختیار دیا ہے کہ وہ مستقبل میں بڑے پیمانے پر مُردوں کو زندہ کریں۔‏ پھر یسوع نے مارتھا سے پوچھا:‏ ”‏کیا آپ اِس بات پر یقین رکھتی ہیں؟‏“‏ اِس پر مارتھا نے وہ بات کہی جس کا ذکر اِس باب کے شروع میں کِیا گیا ہے۔‏ وہ یہ ایمان رکھتی تھیں کہ یسوع ہی مسیح ہیں،‏ وہ یہوواہ خدا کے بیٹے ہیں اور وہی وہ شخص ہیں جس کے آنے کے بارے میں نبیوں نے پیش‌گوئیاں کی تھیں۔‏—‏یوح 5:‏28،‏ 29؛‏ یوحنا 11:‏25-‏27 کو پڑھیں۔‏

21،‏ 22.‏ ‏(‏الف)‏ یہ کیسے ظاہر ہوا کہ یسوع اُن لوگوں کی تکلیف کو سمجھتے ہیں جو اپنے عزیزوں کی موت پر ماتم کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ لعزر کے زندہ ہونے کا منظر بیان کریں۔‏

21 بےشک یہوواہ خدا اور یسوع مسیح،‏ مارتھا جیسا مضبوط ایمان رکھنے والوں کی بڑی قدر کرتے ہیں۔‏ اور آگے جو کچھ ہوا،‏ اُس سے اِس بات کا واضح ثبوت ملا۔‏ یسوع سے بات‌چیت کے بعد مارتھا جلدی سے اپنی بہن کو بلا کر لائیں۔‏ پھر اُنہوں نے دیکھا کہ مریم اور ماتم کرنے والے دوسرے لوگوں سے بات کرتے ہوئے یسوع بھی غمگین ہو گئے۔‏ اُنہوں نے اپنے غم کو چھپایا نہیں بلکہ اِسے آنسوؤں کے رستے بہنے دیا۔‏ یہ آنسو اِس بات کا مُنہ بولتا ثبوت تھے کہ یسوع اُس تکلیف کو اچھی طرح سمجھتے ہیں جو اِنسانوں کو اپنے عزیزوں کی موت پر ہوتی ہے۔‏ اِس کے بعد مارتھا نے یسوع کو یہ کہتے سنا کہ لعزر کی قبر کے سامنے سے پتھر ہٹایا جائے۔‏—‏یوح 11:‏28-‏39‏۔‏

22 اِس پر مارتھا نے کہا کہ لعزر کی لاش کو قبر میں رکھے چار دن ہو گئے ہیں اور اب اِس میں سے بُو آ رہی ہوگی۔‏ یسوع نے اُنہیں اپنی بات یاد دِلاتے ہوئے فرمایا:‏ ”‏کیا مَیں نے آپ سے کہا نہیں تھا کہ اگر آپ ایمان رکھیں گی تو آپ خدا کی عظمت دیکھیں گی؟‏“‏ مارتھا،‏ یسوع کی بات پر ایمان بھی رکھتی تھیں اور اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے یہوواہ خدا کی عظمت کو بھی دیکھا۔‏ اُسی وقت خدا نے اپنے بیٹے کو لعزر کو زندہ کرنے کی طاقت بخشی۔‏ ذرا تصور کریں کہ آپ وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں جو آگے ہوا:‏ یسوع نے اُونچی آواز میں یہ حکم دیا کہ ”‏لعزر،‏ باہر آ جائیں!‏“‏ اِس پر غار کے اندر سے ہلچل کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں،‏ لعزر اُٹھے اور پٹیوں میں لپٹے پاؤں گھسیٹتے ہوئے غار کے مُنہ پر آ گئے۔‏ پھر یسوع نے حکم دیا کہ ”‏اِنہیں کھول دیں تاکہ یہ چل سکیں۔‏“‏ لعزر کو دیکھتے ہی مارتھا اور مریم کی خوشی کی اِنتہا نہ رہی اور وہ بھاگ کر اپنے بھائی سے لپٹ گئیں۔‏ بِلاشُبہ یہ سارے لمحات مرتے دم تک مارتھا کے دل‌ودماغ پر نقش رہے ہوں گے۔‏ ‏(‏یوحنا 11:‏40-‏44 کو پڑھیں۔‏)‏ مارتھا کا دل غم کے جس بھاری بوجھ تلے دبا ہوا تھا،‏ وہ اب ہٹ گیا تھا۔‏

مارتھا کو یسوع پر اپنے ایمان کا اجر اُس وقت ملا جب اُن کے بھائی کو زندہ کِیا گیا۔‏

23.‏ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح آپ کے لیے کیا کرنا چاہتے ہیں اور آپ کو کیا کرنے کی ضرورت ہے؟‏

23 اِس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مُردوں کا زندہ ہونا کوئی خواب نہیں ہے۔‏ یہ بائبل کی ایک اہم سچائی ہے جو ہمارے دلوں میں اُمید کا چراغ روشن کرتی ہے اور جس کے حقیقت ہونے کی تاریخ بھی گواہ ہے۔‏ (‏اعما 24:‏15‏)‏ یہوواہ خدا اور اُس کا بیٹا اپنے وفادار لوگوں کو اُن کے ایمان کا اجر دینا چاہتے ہیں جیسے اُنہوں نے مارتھا،‏ مریم اور لعزر کو دیا تھا۔‏ اگر آپ بھی مضبوط ایمان رکھتے ہیں تو ایسے اجر آپ کے بھی منتظر ہیں۔‏

‏”‏مارتھا سب کی خدمت کر رہی تھیں“‏

24.‏ جب بائبل میں آخری بار مارتھا کا ذکر آتا ہے تو وہ کیا کر رہی تھیں؟‏

24 بائبل میں اِس کے بعد صرف ایک اَور بار مارتھا کا ذکر آتا ہے۔‏ یہ یسوع کی موت سے ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے۔‏ یسوع جانتے تھے کہ آنے والے کچھ دنوں میں اُنہیں سخت تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔‏ اِس سے پہلے کہ اُن پر وہ وقت آتا،‏ وہ ایک بار پھر آرام‌وسکون کی خاطر بیت‌عنیاہ میں اپنے دوست کے گھر گئے۔‏ وہاں سے اُنہوں نے 3 کلومیٹر (‏2 میل)‏ پیدل چل کر یروشلیم جانا تھا۔‏ یسوع اور لعزر بیت‌عنیاہ میں شمعون نامی شخص کے گھر جو پہلے کوڑھی تھے،‏ کھانا کھانے کے لیے گئے ہوئے تھے۔‏ اِس موقعے پر آخری بار مارتھا کا ذکر ملتا ہے۔‏ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏مارتھا سب کی خدمت کر رہی تھیں۔‏“‏—‏یوح 12:‏2‏۔‏

25.‏ آج ہماری کلیسیاؤں میں مارتھا جیسی عورتیں کسی برکت سے کم کیوں نہیں ہیں؟‏

25 مارتھا واقعی بڑی محنتی تھیں۔‏ جب ہم بائبل میں پہلی بار مارتھا کے بارے میں پڑھتے ہیں تو وہ کام کر رہی ہوتی ہیں اور جب آخری بار اُن کا ذکر کِیا جاتا ہے تو وہ تب بھی کام میں لگی ہوتی ہیں۔‏ مارتھا ہمیشہ دوسروں کا خیال رکھتی تھیں۔‏ آج ہمارے لیے بڑی برکت ہے کہ ہماری کلیسیاؤں میں مارتھا جیسی باہمت اور فیاض بہنیں ہیں جو ہمیشہ دوسروں کی مدد کے لیے پیش پیش رہتی ہیں اور یوں اپنے ایمان کو کاموں کے ذریعے ظاہر کرتی ہیں۔‏ ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ مارتھا اِس طرح سے اپنے ایمان کا مظاہرہ کرتی رہی ہوں گی۔‏ اِسی ایمان کی بدولت وہ آئندہ آنے والی مشکلات کا سامنا کر پائیں۔‏

26.‏ مارتھا اپنے ایمان کی بدولت کیا کرنے کے قابل ہوئیں؟‏

26 کچھ دن بعد مارتھا کو اپنے مالک یسوع کی اذیت‌ناک موت کا صدمہ جھیلنا پڑا۔‏ یسوع کو قتل کروانے والے لوگ لعزر کی جان کے بھی دُشمن بنے ہوئے تھے کیونکہ اُن کے مُردوں میں سے زندہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ یسوع مسیح پر ایمان لا رہے تھے۔‏ ‏(‏یوحنا 12:‏9-‏11 کو پڑھیں۔‏)‏ اور ظاہری بات ہے کہ ایک وقت آیا ہوگا جب موت کی وجہ سے مارتھا اور اُن کی بہن اور بھائی ایک دوسرے سے جُدا ہو گئے ہوں گے۔‏ ہم یہ تو نہیں جانتے کہ ایسا کب اور کیسے ہوا لیکن ہمیں اِس بات کا یقین ہے کہ مارتھا اپنے پُختہ ایمان کی بدولت آخر تک ثابت‌قدم رہیں۔‏ لہٰذا آئیں،‏ یہ عزم کریں کہ ہم بھی مارتھا جیسا مضبوط ایمان ظاہر کریں گے۔‏

^ پیراگراف 11 پہلی صدی عیسوی میں عورتوں کو عموماً تعلیمی سرگرمیوں سے دُور رکھا جاتا تھا اور صرف گھر کے کام‌کاج کرنے کی تربیت دی جاتی تھی۔‏ لہٰذا مارتھا کو یہ بات شاید عجیب لگ رہی تھی کہ ایک عورت ایک اُستاد کے قدموں میں بیٹھ کر اُس سے تعلیم پا رہی ہے۔‏