مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب نمبر 17

‏”‏دیکھیں!‏ مَیں یہوواہ کی بندی ہوں“‏

‏”‏دیکھیں!‏ مَیں یہوواہ کی بندی ہوں“‏

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ ایک اجنبی نے مریم کے پاس آ کر اُن سے کیسے سلام دُعا کی؟‏ (‏ب)‏ مریم کی زندگی ایک اہم موڑ پر کیسے آ گئی؟‏

مریم حیرت سے پھٹی آنکھوں کے ساتھ اُس اجنبی کو دیکھ رہی تھیں جو اُن کے گھر میں داخل ہو رہا تھا۔‏ اُس نے اندر آ کر مریم سے اُن کے امی ابو کا نہیں پوچھا۔‏ دراصل وہ اُنہی سے ملنے آیا تھا۔‏ مریم کے چھوٹے سے شہر ناصرت میں زیادہ‌تر لوگ ایک دوسرے سے واقف تھے۔‏ اِس لیے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں تھا کہ فلاں شخص اجنبی ہے۔‏ مگر اِس اجنبی کی صورت ایسی تھی کہ وہ کہیں بھی جاتا،‏ سب سے الگ ہی دِکھائی دیتا۔‏ جس طریقے سے اُس نے مریم کو مخاطب کِیا،‏ اُس کی وجہ سے وہ اَور حیرت میں پڑ گئیں۔‏ اُس اجنبی نے کہا:‏ ”‏سلام!‏ آپ کو بڑی برکت حاصل ہوئی ہے۔‏ یہوواہ آپ کے ساتھ ہے۔‏“‏‏—‏لُوقا 1:‏26-‏28 کو پڑھیں۔‏

2 بائبل میں اِس واقعے سے مریم کا تعارف کروایا گیا ہے۔‏ وہ عیلی نامی شخص کی بیٹی تھیں اور گلیل کے شہر ناصرت میں رہتی تھیں۔‏ اِس واقعے سے مریم کی زندگی ایک اہم موڑ پر آ گئی۔‏ یوسف نامی بڑھئی سے اُن کی منگنی ہو چُکی تھی جو مال‌ودولت کے مالک تو نہیں مگر پُختہ ایمان کے مالک تھے۔‏ ہر لڑکی کی طرح مریم نے بھی سوچا ہوا تھا کہ وہ اپنے منگیتر کے ساتھ گھر بسائیں گی اور سیدھی سادی زندگی بسر کریں گی۔‏ مگر پھر اچانک وہ اجنبی اُن کے گھر آ گیا تھا اور اُن کے لیے خدا کی طرف سے ایک ایسی ذمےداری لایا تھا جو پوری طرح سے اُن کی زندگی کا رُخ بدلنے والی تھی۔‏

3،‏ 4.‏ مریم کی شخصیت سے واقف ہونے کے لیے ہمیں کن باتوں کو نظرانداز کرنا ہوگا اور کس چیز پر دھیان دینا ہوگا؟‏

3 بہت سے لوگوں کو اِس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ بائبل میں مریم کے حوالے سے بہت کم باتیں درج ہیں۔‏ اِس میں مریم کے پس‌منظر کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں بتایا گیا؛‏ اُن کی شخصیت کے حوالے سے بہت کم معلومات دی گئی ہیں اور اِس بات کا تو بالکل بھی ذکر نہیں کِیا گیا کہ وہ کیسی دِکھتی تھیں۔‏ لیکن خدا کے کلام میں مریم کے حوالے سے جتنا کچھ بتایا گیا ہے،‏ اُس سے اُن کے بارے میں اہم باتیں پتہ چلتی ہیں۔‏

4 مریم کی شخصیت سے واقف ہونے کے لیے ہمیں اُن نظریات سے ہٹ کر سوچنا ہوگا جو بہت سے مذاہب نے تحقیق کیے بغیر ہی اُن کے بارے میں قائم کر دیے ہیں۔‏ اِس لیے مریم کی اُن بےشمار تصویروں اور مجسّموں کو ذہن سے نکال دیں جن کے ذریعے لوگ اُن کی تصویرکشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ ساتھ ہی ساتھ اُن مذہبی تعلیمات کو بھی ایک طرف رکھ دیں جن میں خدا کی اِس خاکسار بندی کو بڑے بڑے القاب دیے گئے ہیں جیسے کہ ”‏خدا کی ماں“‏ اور ”‏آسمان کی ملکہ۔‏“‏ اِس سب کی بجائے آئیں،‏ اِس بات کا جائزہ لیں کہ بائبل میں مریم کی کیسی تصویر پیش کی گئی ہے۔‏ اِس میں اُن کے حوالے سے جو واقعات درج ہیں،‏ اُن پر غور کرنے سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ مریم کتنے پُختہ ایمان والی خاتون تھیں اور ہم اُن جیسا ایمان کیسے ظاہر کر سکتے ہیں۔‏

ایک فرشتے کی آمد

5.‏ ‏(‏الف)‏ مریم نے جبرائیل کی بات پر جیسا ردِعمل دِکھایا،‏ اُس سے اُن کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم مریم سے کون سا اہم سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

5 مریم کے گھر جو اجنبی آیا تھا،‏ وہ کوئی اِنسان نہیں بلکہ خدا کا فرشتہ جبرائیل تھا۔‏ جب جبرائیل نے مریم سے کہا کہ ”‏آپ کو بڑی برکت حاصل ہوئی ہے“‏ تو یہ سُن کر وہ ”‏بہت گھبرا گئیں“‏ اور سوچنے لگیں کہ اِس بات کا کیا مطلب ہے۔‏ (‏لُو 1:‏29‏)‏ پھر جبرائیل نے دوبارہ اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ اُنہیں ”‏خدا کی خوشنودی حاصل ہوئی ہے۔‏“‏ (‏لُو 1:‏30‏)‏ بےشک مریم کی نظر میں خدا کی خوشنودی حاصل کرنا بہت اہم بات تھی۔‏ لیکن چونکہ وہ خاکسار اِنسان تھیں اِس لیے وہ پہلے سے یہ سوچ کر نہیں بیٹھی ہوئی تھیں کہ اُنہیں خدا کی خوشنودی حاصل ہے۔‏ مریم کی مثال سے ہم سیکھتے ہیں کہ ہمیں خدا کی خوشنودی پانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے اور غرور میں آ کر یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ خدا تو پہلے ہی ہم سے خوش ہے۔‏ یہوواہ مغروروں کو سخت ناپسند کرتا ہے لیکن خاکساروں سے محبت رکھتا اور اُن کا ساتھ دیتا ہے۔‏—‏یعقو 4:‏6‏۔‏

6.‏ فرشتے نے مریم کو کون سا اعزاز سونپا؟‏

6 مریم کو واقعی بڑی خاکساری کی ضرورت تھی کیونکہ فرشتے نے اُنہیں ایک ایسا اعزاز سونپا جو اُن کے وہم‌وگمان میں بھی نہیں تھا۔‏ اُس نے اُنہیں بتایا کہ وہ ایک ایسے بچے کو جنم دیں گی جو تمام اِنسانوں میں سب سے اہم ہوگا۔‏ فرشتے نے اُس بچے کے بارے میں کہا:‏ ”‏وہ عظیم ہوگا اور خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا اور یہوواہ خدا اُسے اُس کے باپ داؤد کا تخت دے گا۔‏ وہ یعقوب کے گھرانے پر ہمیشہ تک بادشاہ کے طور پر حکمرانی کرے گا اور اُس کی بادشاہت کبھی ختم نہیں ہوگی۔‏“‏ (‏لُو 1:‏32،‏ 33‏)‏ مریم یقیناً خدا کے اُس وعدے سے واقف تھیں جو اُس نے 1000 سال سے زیادہ عرصہ پہلے داؤد سے کِیا تھا۔‏ اُس وعدے کے مطابق داؤد کی نسل سے ایک ایسے شخص نے آنا تھا جس کی حکمرانی کبھی ختم نہیں ہونی تھی۔‏ (‏2-‏سمو 7:‏12،‏ 13‏)‏ بھلا مریم کے لیے اِس سے بڑا اعزاز اَور کیا ہو سکتا تھا کہ اُن کے بیٹے نے ہی مسیح بننا تھا جس کا اِنتظار خدا کے بندے صدیوں سے کر رہے تھے!‏

جبرائیل فرشتے نے یہوواہ کی طرف سے مریم کو ایک ایسا اعزاز سونپا جو اُن کے وہم‌وگمان میں بھی نہیں تھا۔‏

7.‏ ‏(‏الف)‏ مریم نے فرشتے سے جو سوال پوچھا،‏ اُس سے اُن کے بارے میں کیا ظاہر ہوتا ہے؟‏ (‏ب)‏ آج‌کل کے نوجوان،‏ مریم سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

7 ایک اَور بڑی بات یہ تھی کہ مریم سے پیدا ہونے والے بچے نے ”‏خدا تعالیٰ کا بیٹا“‏ کہلانا تھا۔‏ لیکن ایک عورت خدا کے بیٹے کو کیسے پیدا کر سکتی تھی اور وہ بھی ایسی عورت جس کی ابھی صرف منگنی ہی ہوئی تھی،‏ شادی نہیں؟‏ یہی سوال مریم نے فرشتے کے آگے رکھ دیا اور کہا:‏ ”‏یہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ میری تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی؟‏“‏ (‏لُو 1:‏34‏)‏ ایسا کہنے سے مریم فرشتے پر یہ واضح کرنا چاہ رہی تھیں کہ اُنہوں نے کسی مرد سے جنسی تعلق قائم نہیں کِیا۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُنہیں اپنی پاک‌دامنی پر بڑا فخر تھا۔‏ آج‌کل کئی ملکوں میں نوجوان اپنے کنوارپن کے ختم ہونے پر بڑی شیخی بگھارتے ہیں اور ایسے نوجوانوں کا مذاق اُڑاتے ہیں جو اپنے کنوارپن کو برقرار رکھنے کا اِنتخاب کرتے ہیں۔‏ اِس دُنیا کے معیار کتنے بدل گئے ہیں!‏ لیکن یہوواہ خدا نہیں بدلا ہے۔‏ (‏ملا 3:‏6‏)‏ مریم کے زمانے کی طرح آج بھی یہوواہ اُن لوگوں کو بہت عزیز خیال کرتا ہے جو اُس کے معیاروں پر ڈٹے رہتے ہیں۔‏‏—‏عبرانیوں 13:‏4 کو پڑھیں۔‏

8.‏ مریم عیب‌دار ہونے کے باوجود ایک بےعیب اِنسان کو کیسے پیدا کر سکتی تھیں؟‏

8 اِس میں کوئی شک نہیں کہ مریم،‏ خدا کی وفادار بندی تھیں۔‏ لیکن وہ ایک عیب‌دار اِنسان بھی تھیں۔‏ تو پھر وہ خدا کے بےعیب بیٹے کو کیسے پیدا کر سکتی تھیں؟‏ جبرائیل نے اِس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا:‏ ”‏آپ پر پاک روح نازل ہوگی اور خدا تعالیٰ کی قدرت سایہ کرے گی۔‏ اِس وجہ سے وہ بچہ خدا کا بیٹا اور مُقدس کہلائے گا۔‏“‏ (‏لُو 1:‏35‏)‏ مُقدس کا مطلب ”‏پاک“‏ اور ”‏خالص“‏ ہوتا ہے۔‏ ویسے تو تمام عیب‌دار اِنسان اپنے بچوں میں گُناہ اور ناپاکی کا داغ منتقل کرتے ہیں لیکن یسوع کے معاملے میں یہوواہ ایک خاص معجزہ کرنے والا تھا۔‏ اُس نے آسمان سے اپنے بیٹے کی زندگی کو مریم کے رحم میں منتقل کرنا تھا اور پھر مریم پر پاک روح کا ”‏سایہ“‏ رکھنا تھا جس کی بدولت اُن کے پیٹ میں موجود بچے نے گُناہ کے داغ سے محفوظ رہنا تھا۔‏ کیا مریم نے فرشتے کی کہی بات پر یقین کِیا؟‏ کیا اُنہوں نے اُس ذمےداری کو قبول کر لیا جو اُنہیں سونپی گئی تھی؟‏

مریم کا جواب

9.‏ ‏(‏الف)‏ اِس بات پر شک کرنا کیوں بےبنیاد ہے کہ ایک کنواری لڑکی حاملہ ہو سکتی ہے؟‏ (‏ب)‏ جبرائیل نے مریم کے ایمان کو کیسے مضبوط کِیا؟‏

9 بہت سے لوگ،‏ یہاں تک کہ مسیحی فرقوں کے کئی عالم بھی اِس بات پر شک کرتے ہیں کہ ایک کنواری لڑکی بچے کو جنم دے سکتی ہے۔‏ لیکن اِتنا علم رکھنے کے باوجود ایسے لوگ ایک سادہ سی حقیقت کو نہیں سمجھ پاتے۔‏ جبرائیل نے اِس حقیقت کو یوں بیان کِیا:‏ ”‏ممکن نہیں کہ خدا کی کوئی بات پوری نہ ہو۔‏“‏ (‏لُو 1:‏37‏)‏ مریم،‏ جبرائیل کی اِس بات کو سو فیصد سچ مانتی تھیں کیونکہ وہ خدا پر پکا ایمان رکھتی تھیں۔‏ لیکن مریم کا ایمان اندھا نہیں تھا بلکہ ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر قائم تھا۔‏ جبرائیل نے بھی اُنہیں ایک ثبوت دیا جس سے اُن کا ایمان اَور بڑھا ہوگا۔‏ اُنہوں نے مریم کو اُن کی بوڑھی رشتےدار الیشبع کے بارے میں بتایا جنہیں خدا نے اِتنی عمر میں ایک معجزے کے ذریعے حاملہ کِیا تھا حالانکہ وہ بانجھ تھیں۔‏

10.‏ مریم کو جو ذمےداری سونپی گئی تھی،‏ اُس کے حوالے سے اُن کے ذہن میں کون سے خدشے ہوں گے؟‏

10 یہ سب جاننے کے بعد مریم نے کیا کِیا؟‏ فرشتے نے اُنہیں سمجھا دیا تھا کہ خدا نے اُنہیں کون سی ذمےداری سونپی ہے اور ساتھ میں اِس بات کا ثبوت بھی دے دیا تھا کہ خدا وہ سب کچھ کرے گا جو اُن سے کہا گیا ہے۔‏ یہ سچ ہے کہ خدا کے بیٹے کو اپنے رحم میں پالنا کوئی معمولی اعزاز نہیں تھا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اِس حوالے سے مریم کے ذہن میں طرح طرح کے خدشے ہوں گے۔‏ ایک بات جو اُنہیں اندر ہی اندر پریشان کر رہی ہوگی،‏ وہ یہ تھی کہ کیا اُن کے منگیتر یوسف اُن کے حاملہ ہونے کی خبر ملنے کے بعد بھی اُنہیں اپنی بیوی بنانے کے لیے تیار ہوں گے۔‏ ایک اَور بات یہ تھی کہ مریم کو کوئی چھوٹی موٹی ذمےداری نہیں دی گئی تھی۔‏ آخر اُنہیں خدا کی سب سے عزیز مخلوق یعنی اُس کے پیارے بیٹے کو اپنے پیٹ میں پالنا تھا!‏ پھر اُنہیں پیدائش کے بعد اُس کی دیکھ‌بھال کرنی تھی اور اُسے بُری دُنیا سے محفوظ رکھنا تھا۔‏ بےشک یہ بہت بھاری ذمےداری تھی!‏

11،‏ 12.‏ ‏(‏الف)‏ کچھ ایسے مردوں کے بارے میں بتائیں جو خدا کی طرف سے ملنے والی مشکل ذمےداریوں کو پورا کرنے سے ہچکچائے۔‏ (‏ب)‏ مریم نے جبرائیل کو جو جواب دیا،‏ اُس سے اُن کے بارے میں کیا ظاہر ہوا؟‏

11 اگر مریم اپنی ذمےداری کی وجہ سے گھبرا رہی تھیں تو یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔‏ بائبل میں تو کچھ ایسے مردوں کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے جو مضبوط اور خدا کے وفادار ہونے کے باوجود مشکل ذمےداریوں کو نبھانے سے ہچکچائے۔‏ مثال کے طور پر موسیٰ نے اِصرار کِیا کہ وہ خدا کے ترجمان کے طور پر کام کرنے کے قابل نہیں ہیں کیونکہ وہ روانی سے بول نہیں سکتے۔‏ (‏خر 4:‏10‏)‏ یرمیاہ نے یہ دلیل دی کہ وہ بچے ہیں اور اِس لیے اُس کام کو انجام نہیں دے سکتے جو خدا نے اُنہیں سونپا ہے۔‏ (‏یرم 1:‏6‏)‏ اور یُوناہ تو خدا کی طرف سے ذمےداری ملنے پر بھاگ ہی گئے۔‏ (‏یُوناہ 1:‏3‏)‏ البتہ مریم نے کیا کِیا؟‏

12 مریم نے جبرائیل کو جو جواب دیا،‏ وہ اُن کی خاکساری اور فرمانبرداری کا مُنہ بولتا ثبوت ہے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏دیکھیں!‏ مَیں یہوواہ کی بندی ہوں۔‏ جیسا آپ نے کہا،‏ ویسا ہی ہو۔‏“‏ (‏لُو 1:‏38‏)‏ جب مریم نے خود کو ”‏بندی“‏ کہا تو اُنہوں نے ایک ایسا لفظ اِستعمال کِیا جو سب سے کم‌تر غلام کے لیے اِستعمال کِیا جاتا تھا۔‏ ایک ایسے غلام کی زندگی پوری طرح سے اپنے مالک کے ہاتھوں میں ہوتی تھی۔‏ مریم بھی یہوواہ کی بندی کے طور پر ایسا ہی محسوس کرتی تھیں۔‏ وہ جانتی تھیں کہ اُن کا مالک ایک ایسی ہستی ہے جس کے ہاتھوں میں وہ محفوظ ہیں اور جو ”‏وفادار کے ساتھ“‏ وفاداری کرتا ہے۔‏ (‏زبور 18:‏25‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ مریم کو اِس بات کا بھی یقین تھا کہ اگر وہ اُس مشکل ذمےداری کو جی جان سے پورا کرنے کی کوشش کریں گی جو یہوواہ نے اُنہیں بخشی ہے تو وہ اِس سلسلے میں اُن کی مدد کرے گا۔‏

13.‏ اگر ہمیں وہ کام کرنا مشکل یا ناممکن لگتا ہے جو خدا نے ہمیں دیا ہے تو مریم کی مثال پر غور کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟‏

13 کبھی کبھار خدا ہمیں بھی ایسے کام کرنے کے لیے کہتا ہے جو ہمیں مشکل یا شاید ناممکن لگیں۔‏ لیکن خدا کے کلام میں ایسی بےشمار وجوہات فراہم کی گئی ہیں جن کی بِنا پر ہم مریم کی طرح یہوواہ پر بھروسا رکھ سکتے ہیں اور خود کو اُس کے ہاتھوں میں چھوڑ سکتے ہیں۔‏ (‏امثا 3:‏5،‏ 6‏)‏ اگر ہم ایسا کریں گے تو یہوواہ ہمیں اِس کا اجر دے گا اور یوں ہمارا ایمان اَور مضبوط ہو جائے گا۔‏

مریم،‏ الیشبع کے گھر میں

14،‏ 15.‏ ‏(‏الف)‏ جب مریم الیشبع اور زکریاہ کے گھر گئیں تو یہوواہ نے اُنہیں کون سی برکت بخشی؟‏ (‏ب)‏ لُوقا 1:‏46-‏55 میں درج مریم کے بیان سے اُن کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟‏

14 جبرائیل نے مریم کو الیشبع کے بارے میں جو بات بتائی تھی،‏ اُس سے اُن کا بہت حوصلہ بڑھا تھا۔‏ بھلا الیشبع سے بہتر اُن کی صورتحال کو کون سمجھ سکتا تھا جو کہ اُنہی کی طرح معجزانہ طور پر حاملہ ہوئی تھیں۔‏ لہٰذا مریم نے یہوداہ کے پہاڑی ملک کی راہ لی اور تقریباً تین سے چار دن کا سفر کر کے الیشبع اور زکریاہ کاہن کے گھر پہنچیں۔‏ جب مریم اُن کے گھر میں داخل ہوئیں تو یہوواہ نے اُنہیں ایک اَور ٹھوس ثبوت دِکھایا جس سے اُن کا ایمان مزید بڑھ گیا ہوگا۔‏ جیسے ہی مریم نے الیشبع کو سلام کِیا،‏ الیشبع کے پیٹ میں موجود بچہ خوشی کے مارے اُچھل پڑا۔‏ وہ پاک روح سے معمور ہو گئیں اور مریم کو ”‏میرے مالک کی ماں“‏ کہنے لگیں۔‏ خدا نے الیشبع پر یہ ظاہر کر دیا تھا کہ مریم کا بیٹا اُن کا مالک اور مسیح ہوگا۔‏ اِس کے علاوہ خدا نے اُنہیں یہ اِلہام بھی بخشا کہ وہ مریم کی وفاداری اور فرمانبرداری کی تعریف کریں۔‏ اِسی لیے الیشبع نے کہا:‏ ”‏اُس عورت کو خوشیاں ملیں جس نے اُن باتوں پر یقین کِیا جو اُس سے کہی گئی تھیں۔‏“‏ (‏لُو 1:‏39-‏45‏)‏ اور واقعی اِس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ یہوواہ،‏ مریم کے لیے وہ سب کچھ کرنے والا تھا جس کا اُس نے اُن سے وعدہ کِیا تھا۔‏

مریم اور الیشبع کی دوستی اُن دونوں کے لیے ایک بڑی برکت تھی۔‏

15 جب الیشبع کی بات ختم ہوئی تو مریم نے بولنا شروع کِیا۔‏ اُن کی اِن باتوں کو خدا کے کلام میں محفوظ کِیا گیا ہے۔‏ ‏(‏لُوقا 1:‏46-‏55 کو پڑھیں۔‏)‏ دراصل یہ بائبل میں درج مریم کا سب سے لمبا بیان ہے اور اِس سے اُن کے بارے میں کافی کچھ پتہ چلتا ہے۔‏ اُن کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اِس بات کے لیے یہوواہ کی بڑی شکرگزار تھیں کہ اُس نے اُنہیں مسیح کی ماں بننے کا اعزاز دیا ہے۔‏ اُن کے بیان سے اُن کے ایمان کی گہرائی بھی پتہ چلتی ہے کیونکہ اُنہوں نے پورے اِعتماد سے کہا کہ یہوواہ مغروروں اور اِختیار والوں کا غرور توڑتا ہے اور ایسے ادنیٰ اور غریب لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اُس کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔‏ اُن کی باتوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاک صحیفوں سے اچھی طرح واقف تھیں۔‏ ایک اندازے کے مطابق اُنہوں نے اپنے بیان میں 20 سے زیادہ بار عبرانی صحیفوں کے حوالے دیے۔‏ *

16،‏ 17.‏ ‏(‏الف)‏ مریم اور اُن کے بیٹے نے کیسا جذبہ ظاہر کِیا جو ہمیں بھی دِکھانا چاہیے؟‏ (‏ب)‏ مریم اور الیشبع کی مثال سے ہمیں کیا سمجھنے میں مدد ملتی ہے؟‏

16 مریم واقعی خدا کے کلام پر خوب سوچ بچار کرتی تھیں اور اِس کا گہرا علم رکھتی تھیں۔‏ اگر وہ چاہتیں تو اِس علم کو بنیاد بنا کر اپنے خیالات بیان کر سکتی تھیں۔‏ لیکن اُنہوں نے خاکساری ظاہر کی اور سیدھا سیدھا خدا کے کلام سے حوالے دیے۔‏ اُن کے بیٹے نے جو اُس وقت اُن کے رحم میں پَل رہا تھا،‏ بعد میں ایسی ہی خاکساری ظاہر کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏مَیں جو تعلیم دیتا ہوں،‏ وہ میری نہیں بلکہ اُس کی ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔‏“‏ (‏یوح 7:‏16‏)‏ ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے:‏ ”‏کیا مَیں بھی خدا کے کلام کے لیے ایسا ہی احترام ظاہر کرتا ہوں؟‏ یا کیا مَیں اپنے نظریات اور خیالات کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں؟‏“‏ اگر مریم کی بات کی جائے تو یہ صاف ظاہر ہے کہ اِس معاملے کے بارے میں اُن کی کیا سوچ تھی۔‏

17 مریم تقریباً تین مہینے الیشبع کے ہاں رہیں۔‏ بِلاشُبہ اِس دوران اُن دونوں نے ایک دوسرے سے بہت حوصلہ‌افزائی حاصل کی ہوگی۔‏ (‏لُو 1:‏56‏)‏ اِس بات پر غور کرنے سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ سچی دوستی کتنی بڑی برکت ثابت ہو سکتی ہے۔‏ اگر ہم ایسے لوگوں کو اپنے دوست بنائیں گے جو یہوواہ سے پیار کرتے ہیں تو ہم اپنے آسمانی باپ کے اَور قریب ہو جائیں گے۔‏ (‏امثا 13:‏20‏)‏ تین مہینے گزرنے کے بعد اب مریم کے لوٹنے کا وقت آ گیا تھا۔‏ بِلاشُبہ اُن کے ذہن میں یہی سوال گھوم رہا ہوگا کہ ”‏میری حالت کے بارے میں جان کر یوسف کا کیا ردِعمل ہوگا؟‏“‏

ایک مثالی جوڑا

18.‏ مریم نے یوسف کو کون سی حقیقت سے آگاہ کِیا اور اِس پر یوسف کا کیا ردِعمل تھا؟‏

18 اِس سے پہلے کہ لوگوں کو نظر آنے لگتا کہ مریم حاملہ ہیں،‏ وہ یوسف کو خود ساری صورتحال سے آگاہ کرنا چاہتی تھیں۔‏ اُنہیں اِس بات کی فکر تو ستا رہی تھی کہ پتہ نہیں یہ سب کچھ جاننے کے بعد خدا کے اِس نیک بندے کو کیسا لگے گا لیکن پھر بھی اُنہوں نے یوسف کے پاس جا کر اُن سے سارا قصہ بیان کر دیا۔‏ مریم کی باتیں سننے کے بعد یوسف سخت کشمکش میں پڑ گئے ہوں گے۔‏ وہ اپنی پیاری منگیتر کی بات پر یقین تو کرنا چاہتے تھے لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ اُس نے اُن سے بےوفائی کی ہے۔‏ بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اُس وقت یوسف کے ذہن میں کون سی سوچیں گردش کر رہی تھیں۔‏ مگر اِس میں یہ لکھا ہے کہ یوسف نے مریم کو طلاق دینے کا فیصلہ کِیا کیونکہ اُس زمانے میں جن لوگوں کی منگنی ہو جاتی تھی،‏ اُنہیں شادی‌شُدہ ہی سمجھا جاتا تھا۔‏ لیکن چونکہ یوسف یہ نہیں چاہتے تھے کہ لوگ مریم کے کردار پر کیچڑ اُچھالیں اِس لیے اُنہوں نے اُنہیں چپکے سے طلاق دینے کا سوچا۔‏ (‏متی 1:‏18،‏ 19‏)‏ بےشک مریم کو اِس بات پر بڑا دُکھ ہو رہا ہوگا کہ یوسف جیسے نیک دل شخص کو اِس صورتحال کی وجہ سے اِتنی ذہنی اذیت اُٹھانی پڑ رہی ہے۔‏ بہرحال مریم نے یہ سوچ کر اپنے دل میں یوسف کے لیے تلخی نہیں بھری کہ اُنہوں نے اُن کی بات پر یقین نہیں کِیا۔‏

19.‏ یہوواہ نے صحیح فیصلہ کرنے میں یوسف کی مدد کیسے کی؟‏

19 یہوواہ نے یوسف کی مدد کی تاکہ وہ اِس معاملے میں صحیح فیصلہ کر سکیں۔‏ ایک خواب میں خدا کے فرشتے نے یوسف کو بتایا کہ مریم معجزانہ طور پر حاملہ ہوئی ہیں۔‏ یہ جان کر یوسف کے ذہن سے کتنا بڑا بوجھ ہٹ گیا ہوگا!‏ اِس کے بعد یوسف نے یہوواہ کی ہدایت کے مطابق عمل کِیا جیسے مریم شروع سے کرتی آ رہی تھیں۔‏ اُنہوں نے مریم کو اپنی بیوی بنا لیا اور خدا کے بیٹے کو پالنے پوسنے کی خاص ذمےداری نبھانے کے لیے تیار ہو گئے۔‏—‏متی 1:‏20-‏24‏۔‏

20،‏ 21.‏ جو لوگ شادی‌شُدہ ہیں اور جو شادی کرنے کا سوچ رہے ہیں،‏ وہ یوسف اور مریم سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

20 تقریباً 2000 سال پہلے زمین پر رہنے والے اِس جوان جوڑے نے اُن لوگوں کے لیے بڑی عمدہ مثال قائم کی جو شادی کر چُکے ہیں یا کرنے کا سوچ رہے ہیں۔‏ جب یوسف یہ دیکھتے ہوں گے کہ مریم ایک ماں کے طور پر اپنے فرض کو کتنی خوب‌صورتی سے نبھا رہی ہیں تو اُنہیں اِس بات کی بڑی خوشی ہوتی ہوگی کہ اُنہوں نے فرشتے کی ہدایت پر عمل کِیا۔‏ بےشک یوسف یہ سمجھ گئے ہوں گے کہ فیصلے کرتے وقت یہوواہ پر بھروسا کرنا کتنا ضروری ہے۔‏ (‏زبور 37:‏5؛‏ امثا 18:‏13‏)‏ اور یقیناً اُنہوں نے بعد میں بھی خاندان کے سربراہ کے طور پر سوچ سمجھ کر فیصلے کیے ہوں گے۔‏

21 مریم کی اچھی بات یہ تھی کہ وہ یوسف سے خفا ہونے کی بجائے اُن سے شادی کرنے پر رضامند ہو گئیں۔‏ حالانکہ یوسف کے لیے شروع میں مریم کی بات پر یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا مگر مریم نے صبر سے یوسف کے فیصلے کا اِنتظار کِیا۔‏ دراصل وہ جانتی تھیں کہ اگر اُن کی شادی ہوئی تو آگے چل کر یوسف ہی خاندان کے سربراہ کے طور پر فیصلے کریں گے۔‏ اِس بات کو ذہن میں رکھنے سے اُنہیں اپنی آنے والی زندگی میں بھی بہت فائدہ ہوا ہوگا۔‏ مریم کی اِس مثال میں مسیحی عورتوں کے لیے بڑا عمدہ سبق پایا جاتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ اِن سب واقعات کے ذریعے مریم اور یوسف دونوں کو یہ سمجھنے میں مدد ملی ہوگی کہ اُنہیں کُھل کر آپس میں بات کرنی چاہیے اور ایک دوسرے سے کچھ نہیں چھپانا چاہیے۔‏‏—‏امثال 15:‏22 کو پڑھیں۔‏

22.‏ یوسف اور مریم نے اپنی شادی کی کیسی بنیاد رکھی تھی اور اُنہیں کون سی ذمےداری نبھانی تھی؟‏

22 یوسف اور مریم نے اپنی شادی کی بہت پائیدار بنیاد ڈالی تھی۔‏ اُن دونوں کے دلوں میں یہوواہ کے لیے محبت بھری ہوئی تھی۔‏ وہ چاہتے تھے کہ ماں باپ کے طور پر اپنے فرض کو اچھی طرح انجام دیں اور یوں یہوواہ کو خوش کریں۔‏ یہ سچ ہے کہ اُنہیں بڑی بڑی برکتیں ملنے والی تھیں لیکن اُن کے راستے میں بڑی بڑی مشکلات بھی اُن کا اِنتظار کر رہی تھیں۔‏ اُنہیں یسوع کی پرورش کرنی تھی جنہوں نے دُنیا میں آنے والا سب سے عظیم اِنسان ہونا تھا۔‏

^ پیراگراف 15 ایسا لگتا ہے کہ اِن میں سے کچھ حوالوں میں مریم نے ویسے ہی اِظہارات اِستعمال کیے جیسے حنّہ نے اپنی دُعاؤں میں کیے تھے۔‏ دراصل حنّہ بانجھ تھیں اور مریم کی طرح اُنہیں بھی یہوواہ خدا نے ہی بیٹے کی نعمت سے نوازا تھا۔‏—‏باب نمبر 6 میں بکس ”‏دو خوب‌صورت دُعائیں‏“‏ کو دیکھیں۔‏