مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب نمبر 5

‏”‏تُو نیک‌سیرت عورت ہے“‏

‏”‏تُو نیک‌سیرت عورت ہے“‏

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ رُوت کیا کام کر رہی تھیں؟‏ (‏ب)‏ رُوت کو خدا کی شریعت کے بارے میں کون سی اچھی باتیں پتہ چلی تھیں اور اُنہوں نے خدا کے بندوں میں کون سی خوبیاں دیکھی تھیں؟‏

ذرا اِس منظر کا تصور کریں۔‏ رُوت جَو کی بالوں کے اُس ڈھیر کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھی ہیں جو اُنہوں نے جمع کِیا ہے۔‏ شام ڈھل رہی ہے اور بہت سے مزدور کھیتوں سے نکل کر قریبی پہاڑ پر موجود شہر بیت‌لحم کے پھاٹک کی طرف جا رہے ہیں۔‏ رُوت صبح سے کھیتوں میں بالیں چُن رہی تھیں اِس لیے وہ بہت تھک چُکی ہیں۔‏ لیکن وہ اب بھی کام میں لگی ہوئی ہیں۔‏ وہ ایک لاٹھی سے جَو کی بالوں کو کوٹ رہی ہیں تاکہ اِس میں سے دانے الگ ہو جائیں۔‏ حالانکہ رُوت کو سارا دن کافی محنت‌مشقت کرنی پڑی ہے لیکن اُن کے لیے یہ دن کافی اچھا رہا ہے۔‏

2 کیا اب رُوت کے حالات بہتر ہونے لگے تھے؟‏ ہم نے پچھلے باب میں دیکھا تھا کہ رُوت نے اپنی ساس نعومی کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اُن کے خدا یہوواہ کو اپنا خدا بنا لیا تھا۔‏ یہ دونوں سوگوار عورتیں موآب سے بیت‌لحم آ گئی تھیں۔‏ رُوت کا تعلق موآب سے تھا اور وہ جلد ہی جان گئی تھیں کہ یہوواہ کی شریعت میں بنی‌اِسرائیل میں رہنے والے غریبوں،‏ یہاں تک کہ پردیسوں کے لیے بھی پُرمحبت بندوبست تھے۔‏ رُوت نے یہ بھی دیکھا تھا کہ اِس شریعت پر عمل کرنے والے یہوواہ کے کچھ بندے کتنے مہربان ہیں اور خدا سے کتنی محبت رکھتے ہیں۔‏ اِس بات سے اُن کے دُکھی دل کو بڑا حوصلہ ملا تھا۔‏

3،‏ 4.‏ ‏(‏الف)‏ بوعز نے رُوت کی ہمت کیسے بندھائی؟‏ (‏ب)‏ آج‌کل کے کٹھن معاشی حالات میں رُوت کی مثال پر غور کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟‏

3 جن لوگوں نے رُوت کے لیے مہربانی ظاہر کی،‏ اُن میں سے ایک بوعز تھے۔‏ وہ بہت امیر تھے اور رُوت اُنہی کے کھیتوں سے بالیں چُنتی تھیں۔‏ بوعز کی عمر رُوت سے کافی زیادہ تھی اور وہ ایک باپ کی طرح اُن کے ساتھ شفقت سے پیش آئے تھے۔‏ بوعز نے رُوت کی تعریف کی تھی کہ اُنہوں نے اپنی ساس کا بہت خیال رکھا ہے اور یہوواہ کے پَروں کے نیچے پناہ لے لی ہے۔‏ کام کے دوران جب رُوت کے ذہن میں بوعز کی یہ باتیں آئی ہوں گی تو اُنہیں بہت اچھا محسوس ہوا ہوگا۔‏‏—‏رُوت 2:‏11-‏14 کو پڑھیں۔‏

4 پھر بھی رُوت اپنی آنے والی زندگی کے بارے میں فکرمند تھیں۔‏ وہ غریب اور پردیسی تھیں۔‏ اُن کا شوہر فوت ہو چُکا تھا اور اُن کی کوئی اولاد بھی نہیں تھی۔‏ بےشک وہ سوچتی ہوں گی کہ وہ اپنی اور نعومی کی ضروریات کیسے پوری کریں گی۔‏ کیا صرف بالیں چُن کر وہ اپنا اور اپنی ساس کا پیٹ پال سکیں گی؟‏ اور جب وہ بوڑھی ہو جائیں گی تو تب اُن کا خیال کون رکھے گا؟‏ اگر رُوت اِن باتوں کی وجہ سے پریشان تھیں تو اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔‏ آج کے کٹھن معاشی دَور میں بھی کئی لوگوں کے ذہن میں ایسی ہی پریشانیاں ہوتی ہیں۔‏ لہٰذا آئیں،‏ اِس بات پر غور کریں کہ رُوت اپنے ایمان کی بدولت اِن مشکلات کا سامنا کیسے کر پائیں۔‏ یوں ہم سیکھ پائیں گے کہ ہم رُوت جیسا ایمان کیسے ظاہر کر سکتے ہیں۔‏

رُوت اور نعومی—‏ایک مکمل خاندان

5،‏ 6.‏ ‏(‏الف)‏ جب رُوت پہلی دفعہ بوعز کے کھیتوں سے بالیں چُننے کے لیے گئیں تو اُن کا دن کیسا رہا؟‏ (‏ب)‏ جب نعومی نے رُوت کو دیکھا تو اُن کا کیا ردِعمل تھا؟‏

5 جب رُوت نے بالوں کو کوٹنے کے بعد اناج جمع کِیا تو یہ ایک ایفہ بنا۔‏ ایک ایفہ جَو کا وزن تقریباً 14 کلوگرام تھا۔‏ رُوت نے اِسے غالباً ایک کپڑے میں باندھ کر اپنے سر پر دھرا اور پھر بڑھتے اندھیرے میں بیت‌لحم کی طرف چل پڑیں۔‏—‏رُوت 2:‏17‏۔‏

6 نعومی اپنی بہو کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔‏ شاید اُنہیں یہ دیکھ کر تعجب ہوا ہو کہ رُوت اِتنا زیادہ اناج لے کر آئی ہیں۔‏ اِس کے علاوہ رُوت اُس کھانے میں سے بھی کچھ بچا کر لائی تھیں جو بوعز نے دوپہر کے وقت اپنے مزدوروں کو دیا تھا۔‏ پھر رُوت اور نعومی نے مل کر یہ کھانا کھایا۔‏ نعومی نے رُوت سے پوچھا:‏ ”‏آج تُو نے کہاں بالیں چُنیں اور کہاں کام کِیا؟‏ مبارک ہے وہ آدمی جس نے تجھ پر مہربانی کی۔‏“‏ (‏رُوت 2:‏19‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ یہ دیکھ کر کہ رُوت اِتنا زیادہ اناج اور کھانا بھی لے کر آئی ہیں،‏ نعومی کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ کوئی رُوت کے ساتھ مہربانی سے پیش آیا ہے۔‏

7،‏ 8.‏ ‏(‏الف)‏ نعومی کی نظر میں دراصل کون رُوت کے ساتھ مہربانی سے پیش آیا تھا اور نعومی کو ایسا کیوں لگتا تھا؟‏ (‏ب)‏ رُوت نے اَور کس طرح اپنی ساس کے لیے محبت دِکھائی؟‏

7 اِس کے بعد رُوت اور نعومی باتیں کرنے لگیں۔‏ رُوت نے نعومی کو بتایا کہ بوعز اُن کے ساتھ کتنی مہربانی سے پیش آئے۔‏ یہ جان کر نعومی نے کہا:‏ ”‏وہ [‏یہوواہ]‏ کی طرف سے برکت پائے جس نے زندوں اور مُردوں سے اپنی مہربانی باز نہ رکھی۔‏“‏ (‏رُوت 2:‏20‏)‏ نعومی یہ سمجھتی تھیں کہ دراصل یہوواہ،‏ بوعز کے ذریعے رُوت کے ساتھ مہربانی سے پیش آیا ہے۔‏ یہوواہ ہی اپنے بندوں کو فیاضی سے پیش آنے کی ترغیب دیتا ہے اور اُن سے یہ وعدہ کرتا ہے کہ اگر وہ دوسروں کے لیے مہربانی ظاہر کریں گے تو وہ اُنہیں اِس کا اجر دے گا۔‏ *‏—‏امثال 19:‏17 کو پڑھیں۔‏

8 نعومی نے رُوت سے کہا کہ وہ بوعز کی بات مان کر صرف اُنہی کے کھیتوں سے بالیں چُنا کریں اور اُن کے گھر کی عورتوں کے ساتھ رہا کریں تاکہ مزدور اُنہیں تنگ نہ کریں۔‏ رُوت نے نعومی کی نصیحت کو پلے سے باندھ لیا۔‏ بائبل میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ”‏وہ اپنی ساس کے ساتھ رہتی تھی۔‏“‏ (‏رُوت 2:‏22،‏ 23‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُنہوں نے اپنی ساس کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔‏ یوں اُنہوں نے ایک بار پھر محبت کی خوبی ظاہر کی جس کے لیے وہ مشہور تھیں۔‏ رُوت کی مثال سے ہمیں اپنا جائزہ لینے کی ترغیب ملتی ہے کہ کیا ہم اپنے گھر والوں کے لیے محبت ظاہر کرتے ہیں اور کیا ہم اچھے بُرے وقت میں اُن کا ساتھ نبھاتے ہیں۔‏ یہوواہ اِس بات کی بڑی قدر کرتا ہے کہ ہم رُوت کی طرح اپنے گھر والوں کے لیے محبت اور وفاداری ظاہر کریں۔‏

رُوت اور نعومی کی مثال سے ہم سیکھتے ہیں کہ چاہے ہمارا خاندان چھوٹا ہو یا بڑا،‏ ہمیں آپس میں محبت سے رہنا چاہیے۔‏

9.‏ ہم رُوت اور نعومی کی مثال سے خاندان کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟‏

9 کیا رُوت اور نعومی ایک خاندان سے کم تھے؟‏ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ ایک خاندان تبھی مکمل ہوتا ہے جب اِس میں شوہر،‏ بیوی،‏ بیٹا،‏ بیٹی اور دادا دادی وغیرہ ہوں۔‏ لیکن رُوت اور نعومی کی مثال سے واضح ہوتا ہے کہ اگر ایک گھر میں صرف دو افراد بھی ہوں تو وہ ایک دوسرے کے لیے محبت،‏ اپنائیت اور مہربانی ظاہر کرنے سے ایک مکمل خاندان بن سکتے ہیں۔‏ چاہے آپ کا خاندان چھوٹا ہے یا بڑا،‏ کیا آپ اپنے گھر والوں کی قدر کرتے ہیں؟‏ یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو بتایا کہ کلیسیا اُن لوگوں کے لیے ایک خاندان کی طرح ہے جن کا کوئی خاندان نہیں ہوتا۔‏—‏مر 10:‏29،‏ 30‏۔‏

رُوت اور نعومی نے ایک دوسرے کی مدد اور حوصلہ‌افزائی کی۔‏

‏’‏یہ شخص ہمارے نزدیک کے قرابتیوں میں سے ایک ہے‘‏

10.‏ نعومی،‏ رُوت کے لیے کیا کرنا چاہتی تھیں؟‏

10 رُوت اپریل کے مہینے میں جَو کی کٹائی سے لے کر جون کے مہینے میں گندم کی کٹائی تک بوعز کے کھیتوں سے بالیں چُنتی رہیں۔‏ جیسے جیسے دن گزرے،‏ نعومی نے اِس بارے میں اَور سوچا کہ وہ اپنی بہو کے لیے کیا کر سکتی ہیں۔‏ جب رُوت اور نعومی موآب میں تھیں تو اُن کا خیال تھا کہ وہ رُوت کے لیے جیون‌ساتھی ڈھونڈنے میں اُن کی کوئی مدد نہیں کر سکتیں۔‏ (‏رُوت 1:‏11-‏13‏)‏ لیکن اب اُن کی سوچ بدلنے لگی تھی۔‏ اُنہوں نے رُوت سے کہا:‏ ”‏میری بیٹی کیا مَیں تیرے آرام کی طالب نہ بنوں؟‏“‏ (‏رُوت 3:‏1‏)‏ اُن دنوں میں یہ رواج تھا کہ ماں باپ بچوں کے لیے رشتہ ڈھونڈتے تھے اور رُوت،‏ نعومی کے لیے ایک بیٹی سے کم نہیں تھیں۔‏ نعومی،‏ رُوت کے لیے ”‏آرام کی طالب“‏ تھیں یعنی وہ چاہتی تھیں کہ رُوت کا گھر بس جائے اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ آرام‌وسکون کی زندگی گزار سکیں۔‏ لیکن اِس حوالے سے نعومی کے دماغ میں کیا چل رہا تھا؟‏

11،‏ 12.‏ ‏(‏الف)‏ جب نعومی نے کہا کہ بوعز اُن کے ”‏نزدیک کے قرابتیوں میں سے ایک“‏ ہیں تو وہ شریعت کے کس بندوبست کی بات کر رہی تھیں؟‏ (‏ب)‏ جب نعومی نے رُوت کو بتایا کہ اُنہیں کیا کرنا ہے تو رُوت نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟‏

11 جب رُوت نے پہلی دفعہ بوعز کا ذکر کِیا تھا تو نعومی نے کہا تھا کہ ”‏یہ شخص ہمارے قریبی رشتہ کا ہے اور ہمارے نزدیک کے قرابتیوں میں سے ایک ہے۔‏“‏ (‏رُوت 2:‏20‏)‏ اِس بات کا کیا مطلب تھا؟‏ خدا نے بنی‌اِسرائیل کو جو شریعت دی تھی،‏ اُس میں ایسے خاندانوں کے لیے پُرمحبت بندوبست تھے جن پر غربت یا خاندان کے سربراہ کی موت کی وجہ سے مشکلات آن پڑتی تھیں۔‏ اگر کوئی عورت اولاد پیدا کیے بغیر ہی بیوہ ہو جاتی تو اُس کی تو زندگی ہی اُجڑ جاتی کیونکہ ایسی صورت میں اُس کے شوہر کا نام مٹ سکتا تھا۔‏ خدا کی شریعت کے مطابق وفات پانے والے شخص کے بھائی کو اُس کی بیوہ سے شادی کرنی اور اولاد پیدا کرنی ہوتی تھی تاکہ یہ اولاد اُس کے بھائی کی نسل کو برقرار رکھے اور خاندان کی وراثت کی حفاظت کرے۔‏ *‏—‏اِست 25:‏5-‏7‏۔‏

12 نعومی نے رُوت کو بتایا کہ اُنہیں کیا کرنا ہے۔‏ شاید نعومی کی باتیں سُن کر رُوت سوچ میں پڑ گئی ہوں۔‏ رُوت ابھی بھی موسیٰ کی شریعت کی بہت سی باتوں کو نہیں سمجھتی تھیں اور وہ بنی‌اِسرائیل کے کئی رواجوں سے بھی ناواقف تھیں۔‏ لیکن چونکہ وہ نعومی کا گہرا احترام کرتی تھیں اِس لیے اُنہوں نے اُن کی ہر بات کو توجہ سے سنا۔‏ نعومی نے اُن سے جو کچھ کرنے کو کہا،‏ وہ شاید اُنہیں بہت عجیب لگا ہو یا شاید اُسے کرنے کا سوچ کر اُنہیں شرمندگی محسوس ہو رہی ہو۔‏ لیکن رُوت،‏ نعومی کی بات ماننے پر راضی ہو گئیں۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏جو کچھ تُو مجھ سے کہتی ہے وہ سب مَیں کروں گی۔‏“‏—‏رُوت 3:‏5‏۔‏

13.‏ جب بڑی عمر والے ہمیں کوئی مشورہ دیتے ہیں تو ہم رُوت کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏ (‏ایوب 12:‏12 کو بھی دیکھیں۔‏)‏

13 کبھی کبھار نوجوانوں کو بڑی عمر والوں کے مشوروں پر عمل کرنا مشکل لگتا ہے۔‏ نوجوان اکثر سوچتے ہیں کہ بڑی عمر والے اُن کی مشکلات کو نہیں سمجھتے۔‏ لیکن رُوت کی مثال سے ہم سیکھتے ہیں کہ ایسے تجربہ‌کار لوگوں کی بات پر کان لگانے سے جو ہم سے پیار کرتے ہیں اور ہماری بھلائی چاہتے ہیں،‏ ہمیں بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔‏ ‏(‏زبور 71:‏17،‏ 18 کو پڑھیں۔‏)‏ لیکن نعومی نے رُوت کو کیا کرنے کے لیے کہا اور کیا رُوت کو نعومی کی بات پر عمل کرنے کا فائدہ ہوا؟‏

‏’‏تُو نے آخر میں زیادہ مہربانی کر دِکھائی‘‏

14.‏ کھلیان کیسی جگہ تھی اور وہاں کیا کام کِیا جاتا تھا؟‏

14 اُس شام رُوت کھلیان کے قریب گئیں۔‏ کھلیان ایک ہموار جگہ تھی جہاں کسان بالوں کو کوٹتے اور اناج کو بھوسے سے الگ کرتے تھے۔‏ یہ جگہ کسی پہاڑی یا ڈھلان پر واقع ہوتی تھی جہاں شام کے وقت تیز ہوا چلتی تھی۔‏ اناج کو بھوسے سے الگ کرنے کے لیے مزدور اِنہیں بیلچوں یا بڑے بڑے کانٹوں سے ہوا میں اُچھالتے تھے۔‏ یوں بھوسا ہوا سے اُڑ جاتا تھا جبکہ اناج کے دانے زمین پر گِر جاتے تھے۔‏

15،‏ 16.‏ ‏(‏الف)‏ جب شام کے وقت کھلیان پر کام ختم ہو گیا تو بوعز نے کیا کِیا؟‏ (‏ب)‏ بوعز کو کیسے پتہ چلا کہ کوئی اُن کے پاؤں کے پاس لیٹا ہوا ہے؟‏

15 رُوت دُور سے مزدوروں کو کام کرتے دیکھتی رہیں۔‏ مزدور اناج کو بھوسے سے الگ کر کے اِس کے ڈھیر لگاتے رہے۔‏ بوعز اِس کام کی نگرانی کر رہے تھے۔‏ پھر جب کام ختم ہو گیا تو بوعز نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور وہیں اناج کے ایک ڈھیر کے پاس لیٹ گئے۔‏ غالباً اُس زمانے میں ایسا اِس لیے کِیا جاتا تھا تاکہ چوروں سے اناج کی حفاظت کی جا سکے۔‏ رُوت نے دیکھا کہ بوعز سونے کے لیے لیٹ گئے ہیں۔‏ اب وہ وقت آ گیا تھا کہ رُوت،‏ نعومی کی ہدایت پر عمل کریں۔‏

16 رُوت دبے پاؤں اُس جگہ کی طرف بڑھیں جہاں بوعز لیٹے ہوئے تھے۔‏ گھبراہٹ سے اُن کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو رہے تھے۔‏ جب وہ تھوڑا اَور قریب پہنچیں تو اُنہیں اندازہ ہو گیا کہ بوعز گہری نیند میں جا چُکے ہیں۔‏ لہٰذا نعومی کے کہنے کے مطابق وہ بوعز کے پاؤں کے پاس گئیں اور اُن کے پاؤں سے چادر ہٹا کر وہاں لیٹ گئیں۔‏ پھر وہ بوعز کے جاگنے کا اِنتظار کرنے لگیں۔‏ بےشک اِنتظار کا ایک ایک لمحہ رُوت کے لیے بہت بھاری رہا ہوگا۔‏ آخرکار آدھی رات کو بوعز کی آنکھ کُھلی۔‏ وہ سردی سے کانپ رہے تھے اِس لیے وہ چادر سے اپنے پاؤں ڈھکنے لگے۔‏ لیکن پھر اُنہیں محسوس ہوا کہ کوئی اُن کے پاؤں کے پاس لیٹا ہوا ہے۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏اُس نے کروٹ لی اور دیکھا کہ ایک عورت اُس کے پاؤں کے پاس پڑی ہے۔‏“‏—‏رُوت 3:‏8‏۔‏

17.‏ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رُوت کسی غلط اِرادے سے بوعز سے ملنے گئی تھیں،‏ وہ کن دو حقائق کو نظرانداز کر دیتے ہیں؟‏

17 بوعز نے چونک کر پوچھا:‏ ”‏تُو کون ہے؟‏“‏ رُوت نے غالباً کپکپاتی آواز میں اُنہیں جواب دیا:‏ ”‏مَیں تیری لونڈی رُؔوت ہوں۔‏ سو تُو اپنی لونڈی پر اپنا دامن پھیلا دے کیونکہ تُو نزدیک کا قرابتی ہے۔‏“‏ (‏رُوت 3:‏9‏)‏ جدید دَور کے کچھ عالموں کے مطابق رُوت اپنے کاموں اور باتوں سے بوعز کو اپنے ساتھ ہم‌بستر ہونے پر آمادہ کرنا چاہتی تھیں۔‏ لیکن یہ عالم دو بنیادی حقائق کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔‏ پہلا یہ کہ رُوت اُس زمانے کے رواج کے مطابق عمل کر رہی تھیں جن سے آج‌کل زیادہ‌تر لوگ واقف نہیں ہیں۔‏ لہٰذا رُوت نے جو کچھ کِیا،‏ اُسے اِس زمانے کے گِرے ہوئے اخلاقی معیاروں کے مطابق پرکھنا صحیح نہیں ہوگا۔‏ دوسرا یہ کہ بوعز نے رُوت کو جو جواب دیا،‏ اُس سے پتہ چلتا ہے کہ اُن کی نظر میں رُوت نیک نیت اور پاک اِرادے سے اُن سے ملنے آئی تھیں۔‏

رُوت نیک نیت اور پاک اِرادے سے بوعز سے ملنے گئی تھیں۔‏

18.‏ ‏(‏الف)‏ بوعز نے رُوت سے کیا کہا جس سے اُنہیں حوصلہ ملا؟‏ (‏ب)‏ جب بوعز نے رُوت سے کہا کہ ”‏تُو نے شروع کی نسبت آخر میں زیادہ مہربانی کر دِکھائی“‏ تو اُن کا اِشارہ کن دو باتوں کی طرف تھا؟‏

18 بوعز نے شفقت بھرے لہجے میں رُوت سے بات کی اور بِلاشُبہ اِس سے رُوت کو بہت حوصلہ ملا ہوگا۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏تُو [‏یہوواہ]‏ کی طرف سے مبارک ہو اَے میری بیٹی کیونکہ تُو نے شروع کی نسبت آخر میں زیادہ مہربانی کر دِکھائی اِس لئے کہ تُو نے جوانوں کا خواہ وہ امیر ہوں یا غریب پیچھا نہ کِیا۔‏“‏ (‏رُوت 3:‏10‏)‏ جب بوعز نے ”‏شروع کی نسبت“‏ کہا تو اُن کا اِشارہ اِس بات کی طرف تھا کہ رُوت نے اپنی ساس کے لیے محبت ظاہر کرتے ہوئے اُس کے ساتھ اِسرائیل آنے کا فیصلہ کِیا اور اُس کا بہت خیال رکھا۔‏ اور جب بوعز نے ”‏آخر میں“‏ کہا تو وہ اِس موقعے کی بات کر رہے تھے جب رُوت اُن کے پاس آئی ہوئی تھیں۔‏ بوعز جانتے تھے کہ رُوت ایک جوان عورت ہیں اور اگر وہ چاہیں تو کسی جوان مرد سے پھر چاہے وہ امیر ہو یا غریب،‏ شادی کر سکتی ہیں۔‏ لیکن رُوت نہ صرف نعومی کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتی تھیں بلکہ یہ بھی چاہتی تھیں کہ نعومی کے شوہر کا نام اُس کی قوم میں سے مٹ نہ جائے۔‏ لہٰذا اِس میں حیرانی کی بات نہیں کہ رُوت کی بےغرضی دیکھ کر بوعز بہت متاثر ہوئے۔‏

19،‏ 20.‏ ‏(‏الف)‏ بوعز نے رُوت سے شادی کرنے کا فیصلہ اُسی وقت کیوں نہیں کِیا؟‏ (‏ب)‏ بوعز نے رُوت سے کیا کرنے کو کہا تاکہ اُن کی عزت پر کوئی آنچ نہ آئے اور اُنہوں نے رُوت کے لیے مہربانی کیسے ظاہر کی؟‏

19 بوعز نے رُوت سے مزید کہا:‏ ”‏اور اب اَے بیٹی تُو خوف نہ کر۔‏ مَیں تیرے لیے وہ سب کروں گا جو تُو کہے گی۔‏ میرے شہر کے سب لوگ جانتے ہیں کہ تُو نیک‌سیرت عورت ہے۔‏“‏ (‏رُوت 3:‏11‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ بِلاشُبہ بوعز خوش تھے کہ اُنہیں رُوت سے شادی کرنے کا موقع مل رہا ہے۔‏ اور شاید وہ اِس بات پر زیادہ حیران نہیں تھے کہ رُوت نے اُن سے قرابتی کا حق ادا کرنے کو کہا تھا۔‏ لیکن بوعز ایک نیک‌دل شخص تھے اِس لیے وہ صرف اپنی خوشی کا نہیں سوچ رہے تھے۔‏ اُنہوں نے رُوت کو بتایا کہ ایک اَور شخص بھی ہے جو قرابتی کا حق ادا کر سکتا ہے اور وہ شخص نعومی کے شوہر کا زیادہ قریبی رشتےدار ہے۔‏ بوعز نے کہا کہ وہ پہلے اُس شخص سے بات کریں گے اور اُسے یہ موقع دیں گے کہ وہ رُوت سے شادی کرے۔‏

چونکہ رُوت نے دوسروں کے لیے مہربانی اور احترام ظاہر کِیا اِس لیے وہ ایک نیک‌سیرت عورت کے طور پر مشہور تھیں۔‏

20 پھر بوعز نے رُوت کو کہا کہ وہ دوبارہ لیٹ جائیں۔‏ یوں رُوت کو تھوڑا آرام کرنے کا موقع ملنا تھا اور وہ دن چڑھنے سے پہلے ہی دبے پاؤں وہاں سے جا سکتی تھیں۔‏ بوعز جانتے تھے کہ لوگوں کو یہ تاثر مل سکتا ہے کہ اُن دونوں نے کوئی غلط کام کِیا ہے۔‏ اِس لیے وہ چاہتے تھے کہ نہ تو رُوت کی عزت پر کوئی آنچ آئے اور نہ ہی اُن کے کردار پر کوئی اُنگلی اُٹھانے پائے۔‏ اِس کے بعد رُوت پھر سے بوعز کے پاؤں کے پاس لیٹ گئیں۔‏ اب وہ قدرے پُرسکون تھیں کیونکہ بوعز نے اُن کی درخواست کا بڑے پیار سے جواب دیا تھا۔‏ پھر وہ مُنہ اندھیرے ہی اُٹھ بیٹھیں۔‏ بوعز نے تحفے کے طور پر رُوت کی چادر جَو سے بھر دی جس کے بعد وہ بیت‌لحم کی طرف نکل پڑیں۔‏‏—‏رُوت 3:‏13-‏15 کو پڑھیں۔‏

21.‏ رُوت کن وجوہات کی بِنا پر ایک ”‏نیک‌سیرت عورت“‏ کے طور پر مشہور ہو گئیں اور ہم اُن کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

21 جب رُوت نے بوعز کی اِس بات پر سوچا ہوگا کہ وہ ایک ”‏نیک‌سیرت عورت“‏ کے طور پر مشہور ہیں تو اُنہیں خوشی ہوئی ہوگی۔‏ لیکن رُوت ایک ”‏نیک‌سیرت عورت“‏ کے طور پر مشہور کیوں تھیں؟‏ اِس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ اُنہوں نے یہوواہ کے بارے میں سیکھنے اور اُس کی عبادت کرنے کا فیصلہ کِیا تھا۔‏ اِس کے علاوہ اُنہوں نے نعومی کے لیے مہربانی ظاہر کی تھی۔‏ ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے نعومی کی قوم کے لوگوں کے لیے احترام دِکھایا تھا اور خود کو اُن کے رسم‌ورواج کے مطابق ڈھال لیا تھا جن سے وہ پہلے ناواقف تھیں۔‏ اگر ہم رُوت جیسا ایمان ظاہر کریں گے تو ہم بھی دوسرے لوگوں اور اُن کے رسم‌ورواج کے لیے احترام دِکھائیں گے۔‏ اور جب ہم ایسا کریں گے تو ہم بھی رُوت کی طرح ایک نیک شخص کے طور پر جانے جائیں گے۔‏

رُوت کا گھر بس گیا

22،‏ 23.‏ ‏(‏الف)‏ بوعز نے رُوت کو جو تحفہ دیا،‏ اُس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟‏ (‏فٹ‌نوٹ کو دیکھیں۔‏)‏ (‏ب)‏ نعومی نے رُوت کو کیا نصیحت کی؟‏

22 جب رُوت گھر پہنچیں تو نعومی نے اُن سے پوچھا:‏ ”‏بیٹی!‏ سارا معاملہ کیسا رہا؟‏“‏ (‏رُوت 3:‏16‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ نعومی یہ جاننا چاہتی تھیں کہ بوعز نے رُوت سے شادی کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے یا نہیں۔‏ رُوت نے فوراً اپنی ساس کو سارا قصہ بتا دیا۔‏ اِس کے علاوہ رُوت نے نعومی کو جَو بھی دیا جو کہ بوعز نے اُن کے لیے تحفے کے طور پر بھجوایا تھا۔‏ *‏—‏رُوت 3:‏17‏۔‏

23 نعومی نے سمجھ‌داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے رُوت کو نصیحت کی کہ وہ اُس دن کھیتوں میں بالیں چُننے کے لیے نہ جائیں۔‏ اُنہوں نے رُوت کو یقین دِلاتے ہوئے کہا:‏ ”‏اُس شخص کو چین نہ ملے گا جب تک وہ اِس کام کو آج ہی تمام نہ کر لے۔‏“‏—‏رُوت 3:‏18‏۔‏

24،‏ 25.‏ ‏(‏الف)‏ یہ کیسے ظاہر ہوا کہ بوعز ایک نیک اور بےغرض اِنسان ہیں؟‏ (‏ب)‏ رُوت کو کون سی برکتیں ملیں؟‏

24 نعومی نے بوعز کے بارے میں جو بات کہی،‏ وہ واقعی سچ ثابت ہوئی۔‏ بوعز اُس دن شہر کے پھاٹک پر گئے جہاں قوم کے بزرگ بیٹھتے تھے اور اُس شخص کے گزرنے کا اِنتظار کرنے لگے جو نعومی کے شوہر کا زیادہ قریبی رشتےدار تھا۔‏ جب وہ آدمی وہاں سے گزرا تو بوعز نے گواہوں کے سامنے اُس سے پوچھا کہ کیا وہ رُوت سے شادی کر کے قرابتی کا حق ادا کرے گا۔‏ لیکن اُس آدمی نے یہ کہتے ہوئے اِنکار کر دیا کہ ایسا کرنے سے اُس کی اپنی میراث خراب ہو جائے گی۔‏ پھر بوعز نے گواہوں کے سامنے یہ کہا کہ وہ قرابتی کا حق ادا کرتے ہوئے نعومی کے شوہر الیملک کی جائیداد خریدیں گے اور اُن کے بیٹے محلون کی بیوہ سے شادی کریں گے۔‏ بوعز نے کہا کہ اِس طرح ”‏اُس مُردہ کا نام اُس کی میراث پر قائم“‏ ہوگا۔‏ (‏رُوت 4:‏1-‏10‏)‏ بوعز واقعی ایک نیک اور بےغرض اِنسان تھے۔‏

25 پھر بوعز اور رُوت کی شادی ہو گئی۔‏ اِس کے بعد ”‏[‏یہوواہ]‏ کے فضل سے [‏رُوت]‏ حاملہ ہوئی اور اُس کے بیٹا ہوا۔‏“‏ بیت‌لحم کی عورتوں نے نعومی کو دُعا دی اور رُوت کی تعریف کی کہ وہ نعومی کے لیے سات بیٹوں سے بڑھ کر ثابت ہوئی ہیں۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ رُوت کے بیٹے کی نسل سے بادشاہ داؤد کی پیدائش ہوئی۔‏ (‏رُوت 4:‏11-‏22‏)‏ اور داؤد کی نسل سے یسوع مسیح پیدا ہوئے۔‏—‏متی 1:‏1‏۔‏ *

یہوواہ نے رُوت کو یہ برکت دی کہ اُن کے بیٹے کی نسل سے مسیح پیدا ہوا۔‏

26.‏ رُوت اور نعومی کی زندگی کس بات کا ثبوت ہے؟‏

26 رُوت اور نعومی کو واقعی خدا کی طرف سے بڑی برکت ملی۔‏ نعومی نے رُوت کے بیٹے کی پرورش ایسے کی جیسے وہ اُن کا اپنا بیٹا ہو۔‏ اِن عورتوں کی زندگی اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہوواہ اُن لوگوں کو کبھی فراموش نہیں کرتا جو اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں،‏ معمولی کام کرنے کے لیے بھی تیار رہتے ہیں اور اُس کے بندوں کے ساتھ مل کر وفاداری سے اُس کی خدمت کرتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا بوعز،‏ نعومی اور رُوت جیسے اپنے وفادار بندوں کو اجر ضرور دیتا ہے۔‏

^ پیراگراف 7 جیسا کہ نعومی نے کہا،‏ یہوواہ نہ صرف زندوں بلکہ مُردوں کی خاطر بھی مہربانی کا مظاہرہ کرتا ہے۔‏ نعومی کا شوہر اور دونوں بیٹے فوت ہو چُکے تھے جن میں سے ایک رُوت کا شوہر تھا۔‏ بِلاشُبہ رُوت اور نعومی کو وہ تینوں بہت عزیز تھے۔‏ اگر وہ زندہ ہوتے تو یقیناً اُن کی کوشش ہوتی کہ وہ رُوت اور نعومی کا خیال رکھیں اور اُن کی ساری ضرورتوں کو پورا کریں۔‏ لہٰذا رُوت اور نعومی کے ساتھ مہربانی سے پیش آنا ایسے ہی تھا جیسے اُن تینوں کے لیے مہربانی دِکھائی جا رہی ہو۔‏

^ پیراگراف 11 جب کوئی شخص بےاولاد مر جاتا تھا تو شریعت کے مطابق سب سے پہلے اُس کے بھائیوں میں سے کسی ایک کو اُس کی بیوہ سے شادی کرنی ہوتی تھی۔‏ اور اگر وہ ایسا کرنے سے اِنکار کر دیتے تو سب سے قریبی مرد رشتےدار کو ایسا کرنا ہوتا تھا۔‏ یہ ایسے ہی تھا جیسے کسی شخص کے مرنے پر اُس کی وراثت اُس کے سب سے قریبی رشتےدار کو ملتی تھی۔‏—‏گن 27:‏5-‏11‏۔‏

^ پیراگراف 22 بوعز نے رُوت کو چھ پیمانے جَو دیا۔‏ بائبل میں واضح طور پر نہیں بتایا گیا کہ یہ پیمانے وزن کی کس اِکائی کے تھے۔‏ ہو سکتا ہے کہ رُوت کو چھ پیمانے جَو دینے کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح چھ دن کام کرنے کے بعد سبت یعنی آرام کا دن آتا ہے اُسی طرح رُوت نے بیوہ کے طور پر جو تکلیفیں کاٹی ہیں،‏ اُنہیں اُن سے آرام ملنے والا ہے اور اُن کا گھر بسنے والا ہے۔‏ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چھ پیمانے چھ بیلچے ہوں اور رُوت اِتنا ہی وزن اُٹھا کر لے جا سکتی ہوں۔‏

^ پیراگراف 25 رُوت اُن پانچ عورتوں میں سے ایک ہیں جن کا ذکر بائبل میں مسیح کے نسب‌نامے میں کِیا گیا ہے۔‏ اِن پانچ میں سے ایک اَور عورت راحب ہیں جو بوعز کی ماں تھیں۔‏ (‏متی 1:‏3،‏ 5،‏ 6،‏ 16‏)‏ رُوت کی طرح وہ بھی غیراِسرائیلی تھیں۔‏