لُوقا 22‏:1‏-‏71

  • یسوع کو مار ڈالنے کی سازش (‏1-‏6‏)‏

  • آخری عیدِفسح کی تیاری (‏7-‏13‏)‏

  • یسوع کی موت کی یادگاری تقریب رائج ہوتی ہے (‏14-‏20‏)‏

  • ‏”‏میرا پکڑوانے والا میرے ساتھ میز پر بیٹھا ہے“‏ (‏12-‏32‏)‏

  • رسولوں میں گرماگرم بحث (‏24-‏27‏)‏

  • بادشاہت کے سلسلے میں عہد (‏28-‏30‏)‏

  • پطرس، یسوع کو جاننے سے اِنکار کریں گے (‏31-‏34‏)‏

  • تیار رہنے کی اہمیت؛ دو تلواریں (‏35-‏38‏)‏

  • کوہِ‌زیتون پر یسوع کی دُعا (‏39-‏46‏)‏

  • یسوع کو گِرفتار کِیا جاتا ہے (‏47-‏53‏)‏

  • پطرس، یسوع کو جاننے سے اِنکار کرتے ہیں (‏54-‏62‏)‏

  • یسوع کا مذاق اُڑایا جاتا ہے (‏63-‏65‏)‏

  • عدالتِ‌عظمیٰ کے سامنے مُقدمہ (‏66-‏71‏)‏

22  اب بے‌خمیری روٹی کی عید جسے عیدِفسح بھی کہتے ہیں، نزدیک تھی۔ 2  اور اعلیٰ کاہن اور شریعت کے عالم یسوع کو مار ڈالنے کا مناسب موقع ڈھونڈ رہے تھے کیونکہ وہ لوگوں سے ڈرتے تھے۔ 3  پھر شیطان اُس یہوداہ کے دل پر حاوی ہو گیا جسے اِسکریوتی بھی کہتے تھے اور جو 12 رسولوں میں سے ایک تھا۔ 4  یہوداہ نے جا کر اعلیٰ کاہنوں اور ہیکل*‏ کے نگرانوں سے بات کی کہ وہ یسوع کو اُن کے حوالے کیسے کرے گا۔ 5  وہ لوگ بہت خوش ہوئے اور اُسے چاندی کے سِکے دینے پر متفق ہو گئے۔ 6  یہوداہ نے اُن کی پیشکش قبول کر لی اور یسوع کو پکڑوانے کا ایسا موقع ڈھونڈنے لگا جب اُن کے ساتھ لوگ نہ ہوں۔‏ 7  آخر بے‌خمیری روٹی کی عید کا پہلا دن آ گیا جس پر عیدِفسح کے جانور کو قربان کِیا جاتا ہے۔ 8  اِس لیے یسوع نے پطرس اور یوحنا کو یہ کہہ کر بھیجا:‏ ”‏جائیں اور ہمارے لیے عیدِفسح کا کھانا تیار کریں۔“‏ 9  اُنہوں نے یسوع سے پوچھا:‏ ”‏ہم اِسے کہاں تیار کریں؟“‏ 10  یسوع نے جواب دیا:‏ ”‏دیکھیں!‏ جب آپ شہر میں جائیں گے تو آپ کو ایک آدمی ملے گا جس نے پانی کا مٹکا اُٹھایا ہوگا۔ وہ جس گھر میں جائے گا، اُس میں جائیں 11  اور گھر کے مالک سے کہیں:‏ ”‏اُستاد نے کہا ہے کہ ”‏وہ مہمان‌خانہ کہاں ہے جہاں مَیں اپنے شاگردوں کے ساتھ عیدِفسح کا کھانا کھا سکتا ہوں؟“‏ “‏ 12  وہ آپ کو اُوپر ایک بڑے کمرے میں لے جائے گا جسے ہمارے لیے تیار کِیا گیا ہے۔ وہاں کھانا تیار کریں۔“‏ 13  لہٰذا وہ گئے اور سب کچھ ٹھیک اُسی طرح پایا جس طرح یسوع نے کہا تھا اور اُنہوں نے عیدِفسح کی تیاری کی۔‏ 14  جب کھانے کا وقت آ گیا تو یسوع، رسولوں کے ساتھ میز پر بیٹھ گئے۔ 15  پھر اُنہوں نے اُن سے کہا:‏ ”‏میری بڑی خواہش تھی کہ مَیں تکلیف اُٹھانے سے پہلے آپ کے ساتھ عیدِفسح کا یہ کھانا کھاؤں 16  کیونکہ مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ مَیں اِسے دوبارہ نہیں کھاؤں گا جب تک کہ خدا کی بادشاہت میں اِس کے متعلق ساری باتیں پوری نہ ہو جائیں۔“‏ 17  اِس کے بعد یسوع نے ایک پیالہ لیا، اِس پر دُعا کی اور کہا:‏ ”‏یہ لیں اور ایک دوسرے کو دیں 18  کیونکہ مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ اب سے مَیں انگور کی مے نہیں پیوں گا جب تک کہ خدا کی بادشاہت نہ آ جائے۔“‏ 19  پھر یسوع نے ایک روٹی لی، اِس پر دُعا کی اور اِسے توڑ کر اُن کو دیا اور کہا:‏ ”‏یہ میرے جسم کی طرف اِشارہ کرتی ہے جسے آپ کی خاطر قربان کِیا جائے گا۔ میری یاد میں ایسا کِیا کریں۔“‏ 20  جب اُنہوں نے کھانا کھا لیا تو یسوع نے اِسی طرح پیالہ لے کر کہا:‏ ”‏یہ پیالہ نئے عہد کی طرف اِشارہ کرتا ہے جسے میرے خون کے ذریعے قائم کِیا جائے گا جو آپ کی خاطر بہایا جائے گا۔‏ 21  مگر دیکھیں، میرا پکڑوانے والا میرے ساتھ میز پر بیٹھا ہے۔ 22  اِنسان کا بیٹا*‏ آپ سے دُور چلا جائے گا جیسا کہ طے کِیا گیا ہے۔ لیکن اُس شخص پر افسوس جو اُسے پکڑوائے گا!‏“‏ 23  اِس پر رسول آپس میں بات کرنے لگے کہ اُن میں سے کون ایسی حرکت کر سکتا ہے۔‏ 24  پھر اُن میں اِس بات پر گرماگرم بحث چھڑ گئی کہ اُن میں سے کس کو سب سے بڑا سمجھا جاتا ہے۔ 25  لیکن یسوع نے اُن سے کہا:‏ ”‏دُنیا کے حکمران لوگوں پر حکم چلاتے ہیں اور دوسروں پر اِختیار جتانے والے خیرخواہ کہلاتے ہیں۔ 26  لیکن آپ کو ایسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ جو آپ میں سب سے بڑا ہے، وہ سب سے چھوٹا بنے اور جو پیشوائی کرتا ہے، وہ خادم بنے۔ 27  ذرا سوچیں کہ کون بڑا ہے؟ وہ جو کھانا کھانے میز پر بیٹھتا ہے یا وہ جو خدمت کرتا ہے؟ کیا وہ جو میز پر بیٹھتا ہے، بڑا نہیں ہے؟ لیکن مَیں آپ کے درمیان ایک خادم کی طرح ہوں۔‏ 28  آپ نے میری آزمائشوں میں میرا ساتھ دیا ہے۔ 29  لہٰذا جس طرح میرے باپ نے ایک بادشاہت کے سلسلے میں میرے ساتھ عہد باندھا ہے اُسی طرح مَیں آپ کے ساتھ عہد باندھتا ہوں 30  کہ آپ میری بادشاہت میں میری میز پر کھائیں گے اور پئیں گے اور تختوں پر بیٹھ کر اِسرائیل کے 12 قبیلوں کا اِنصاف کریں گے۔‏ 31  شمعون، شمعون، دیکھیں!‏ شیطان نے آپ سب کو مانگا ہے تاکہ آپ کو گندم کی طرح پھٹکے۔ 32  لیکن مَیں نے خدا سے اِلتجا کی ہے کہ آپ کا ایمان کمزور نہ پڑے۔ اور جب آپ واپس آئیں گے تو اپنے بھائیوں کا حوصلہ بڑھائیں۔“‏ 33  پطرس نے کہا:‏ ”‏مالک، مَیں آپ کے ساتھ قید ہونے اور مرنے کو بھی تیار ہوں۔“‏ 34  لیکن یسوع نے کہا:‏ ”‏پطرس، مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ اِس سے پہلے کہ آج مُرغا بانگ دے، آپ تین بار مجھے جاننے سے اِنکار کریں گے۔“‏ 35  یسوع نے رسولوں سے یہ بھی کہا:‏ ”‏جب مَیں نے آپ لوگوں کو پیسوں کی تھیلی، کھانے کے تھیلے اور جُوتوں کے بغیر بھیجا تھا تو کیا آپ کو کسی چیز کی ضرورت پڑی تھی؟“‏ اُنہوں نے جواب دیا:‏ ”‏نہیں۔“‏ 36  پھر یسوع نے کہا:‏ ”‏لیکن اب مَیں کہتا ہوں کہ جس کے پاس پیسوں کی تھیلی اور کھانے کا تھیلا ہے، وہ اِسے لے لے۔ اور جس کے پاس تلوار نہیں ہے، وہ اپنی چادر بیچ کر ایک تلوار خرید لے 37  کیونکہ میرے متعلق لکھا ہے کہ ”‏اُسے مُجرموں میں شمار کِیا جائے گا“‏ اور مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ یہ بات ضرور پوری ہوگی۔ کیونکہ یہ بات مجھ پر پوری ہو رہی ہے۔“‏ 38  پھر رسولوں نے کہا:‏ ”‏مالک، دیکھیں!‏ ہمارے پاس دو تلواریں ہیں۔“‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏یہ کافی ہیں۔“‏ 39  پھر یسوع اپنے معمول کے مطابق کوہِ‌زیتون پر گئے اور شاگرد بھی اُن کے ساتھ گئے۔ 40  وہاں پہنچ کر یسوع نے اُن سے کہا:‏ ”‏دُعا کرتے رہیں تاکہ آزمائش میں نہ پڑیں۔“‏ 41  اِس کے بعد وہ وہاں سے کچھ فاصلے پر گئے اور گھٹنے ٹیک کر دُعا کرنے لگے۔ 42  اُنہوں نے کہا:‏ ”‏باپ، اگر تُو چاہتا ہے تو یہ پیالہ مجھ سے ہٹا دے۔ لیکن میری مرضی نہیں بلکہ تیری مرضی ہو۔“‏ 43  پھر ایک فرشتہ اُن کو دِکھائی دیا جس نے اُن کا حوصلہ بڑھایا۔ 44  لیکن یسوع اِتنے پریشان تھے کہ وہ اَور زیادہ فریاد کرنے لگے اور اُن کا پسینہ خون کی بوندوں کی طرح بن گیا اور زمین پر ٹپکنے لگا۔ 45  جب وہ دُعا کر چکے تو شاگردوں کے پاس گئے اور دیکھا کہ وہ غم سے نڈھال ہو کر سو گئے ہیں۔ 46  اِس پر اُنہوں نے کہا:‏ ”‏آپ کیوں سو رہے ہیں؟ اُٹھیں اور دُعا کرتے رہیں تاکہ آزمائش میں نہ پڑیں۔“‏ 47  ابھی وہ یہ کہہ ہی رہے تھے کہ دیکھو!‏ بہت سے لوگ وہاں آ پہنچے اور یہوداہ جو 12 رسولوں میں سے ایک تھا، اُن کے آگے آگے چل رہا تھا۔ پھر یہوداہ، یسوع کو چُومنے کے لیے اُن کی طرف بڑھا۔ 48  لیکن یسوع نے اُس سے کہا:‏ ”‏یہوداہ، آپ مجھے کیوں چُوم رہے ہیں؟ کیا آپ نے اِنسان کے بیٹے کو پکڑوانے کی یہ نشانی رکھی ہے؟“‏ 49  جب یسوع کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اب کیا ہونے والا ہے تو اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مالک، کیا ہم تلوار اِستعمال کریں؟“‏ 50  اُن میں سے ایک نے تو کاہنِ‌اعظم کے غلام پر تلوار چلا بھی دی اور اُس کا دایاں کان اُڑا دیا۔ 51  لیکن یسوع نے کہا:‏ ”‏بس کریں۔“‏ اور پھر اُنہوں نے غلام کا کان چُھوا اور اُسے ٹھیک کر دیا۔ 52  اِس کے بعد یسوع نے وہاں جمع اعلیٰ کاہنوں، ہیکل کے نگرانوں اور بزرگوں سے کہا:‏ ”‏کیا مَیں کوئی ڈاکو ہوں جو آپ تلواریں اور لاٹھیاں لے کر آئے ہیں؟ 53  مَیں ہر روز ہیکل میں تعلیم دیتا تھا مگر تب تو آپ نے مجھے گِرفتار نہیں کِیا۔ لیکن اب آپ کا وقت ہے اور تاریکی کا راج ہے۔“‏ 54  پھر اُن لوگوں نے یسوع کو گِرفتار کر لیا اور اُنہیں کاہنِ‌اعظم کے گھر لے گئے۔ پطرس کافی فاصلہ رکھ کر اُن کے پیچھے گئے۔ 55  جب لوگ گھر کے صحن میں آگ جلا کر بیٹھ گئے تو پطرس بھی اُن کے ساتھ بیٹھ گئے۔ 56  لیکن ایک نوکرانی نے آگ کی روشنی میں پطرس کو وہاں بیٹھے دیکھ لیا۔ اُس نے اُن کو غور سے دیکھا اور کہا:‏ ”‏یہ آدمی بھی اُس کے ساتھ تھا۔“‏ 57  لیکن پطرس نے اِنکار کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏مَیں اُسے نہیں جانتا، بی‌بی۔“‏ 58  تھوڑی دیر بعد ایک اَور شخص نے پطرس کو دیکھا اور کہا:‏ ”‏تُم بھی اُس کے ساتھی ہو۔“‏ لیکن پطرس نے کہا:‏ ”‏بھئی، مَیں اُس کا ساتھی نہیں ہوں۔“‏ 59  تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ایک اَور آدمی نے بڑے یقین سے کہا:‏ ”‏بے‌شک یہ آدمی اُس کا ساتھی ہے کیونکہ یہ بھی گلیلی ہے۔“‏ 60  لیکن پطرس نے کہا:‏ ”‏تُم کیا اُلٹی سیدھی باتیں کر رہے ہو!‏“‏ وہ یہ کہہ ہی رہے تھے کہ ایک مُرغے نے بانگ دی۔ 61  اِس پر ہمارے مالک نے مُڑ کر پطرس کی طرف دیکھا اور پطرس کو وہ بات یاد آئی جو ہمارے مالک نے اُن سے کہی تھی کہ ”‏اِس سے پہلے کہ آج مُرغا بانگ دے، آپ تین بار مجھے جاننے سے اِنکار کریں گے۔“‏ 62  اور وہ باہر جا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔‏ 63  پھر یسوع کی نگرانی کرنے والے سپاہیوں نے یسوع کا مذاق اُڑایا، اُن کو مارا 64  اور اُن کا چہرہ ڈھانک کر بار بار کہا:‏ ”‏اگر تُو واقعی نبی ہے تو بتا کہ تجھے کس نے مارا ہے۔“‏ 65  اُنہوں نے اُن کے خلاف اَور بھی بہت سے کفر بکے۔‏ 66  آخر جب صبح ہوئی تو بزرگوں کی جماعت یعنی اعلیٰ کاہن اور شریعت کے عالم جمع ہوئے اور یسوع کو عدالت‌گاہ میں لے گئے اور اُن سے کہا:‏ 67  ‏”‏اگر تُم مسیح ہو تو ہمیں صاف صاف بتاؤ!‏“‏ لیکن یسوع نے کہا:‏ ”‏اگر مَیں آپ کو بتا بھی دیتا تو آپ یقین نہ کرتے۔ 68  اور اگر مَیں آپ سے سوال کرتا تو آپ مجھے کوئی جواب نہ دیتے۔ 69  لیکن اب سے اِنسان کا بیٹا قدرت والے خدا کے دائیں طرف بیٹھے گا۔“‏ 70  یہ سُن کر اُن سب نے کہا:‏ ”‏تو پھر کیا تُم خدا کے بیٹے ہو؟“‏ یسوع نے جواب دیا:‏ ”‏آپ نے خود ہی کہہ دیا کہ مَیں ہوں۔“‏ 71  اِس پر اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اب ہمیں گواہوں کی کیا ضرورت ہے؟ ہم نے یہ بات اِس کے اپنے مُنہ سے سُن لی ہے۔“‏

فٹ‌ نوٹس

یعنی خدا کا گھر
‏”‏الفاظ کی وضاحت‏“‏ کو دیکھیں۔‏