مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب نمبر 19

وہ ایک اچھے باپ اور اچھے سربراہ ثابت ہوئے

وہ ایک اچھے باپ اور اچھے سربراہ ثابت ہوئے

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ یوسف اور اُن کے خاندان کو اچانک کون سی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑا؟‏ (‏ب)‏ یوسف نے مریم کو کون سی بُری خبر سنانی تھی؟‏

ذرا اِس منظر کا تصور کریں:‏ بیت‌لحم نے رات کی کالی چادر اوڑھی ہوئی ہے۔‏ یوسف ایک ایک کر کے اپنے گدھے کی پُشت پر سامان لاد رہے ہیں۔‏ سارا سامان رکھنے کے بعد وہ بیت‌لحم کی طرف نظر دوڑاتے ہیں اور گدھے کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے اُس لمبے سفر کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں جس پر وہ نکلنے والے ہیں۔‏ اُن کی منزل ملک مصر ہے۔‏ اُن کے ذہن میں یہ سوال بھی چل رہا ہے کہ اُن کا چھوٹا سا خاندان ایک اجنبی ملک میں کیسے رہے گا جہاں کی زبان اور ثقافت سے وہ بالکل انجان ہیں۔‏

2 اُسی رات فرشتے نے خواب میں یوسف کو خدا کی طرف سے ایک پیغام دیا تھا۔‏ اُس نے اُن سے کہا تھا کہ بادشاہ ہیرودیس اُن کے بیٹے کو قتل کروانا چاہتا ہے اِس لیے اُنہیں فوراً بیت‌لحم سے بھاگنا ہوگا۔‏ ‏(‏متی 2:‏13،‏ 14 کو پڑھیں۔‏)‏ یوسف نے بڑی ہمت جٹا کر یہ بھیانک خبر مریم کو سنائی ہوگی۔‏ اور اِسے سنتے ہی مریم کا دل بیٹھ گیا ہوگا۔‏ مریم اور یوسف کو بالکل سمجھ نہیں آ رہی ہوگی کہ بھلا کوئی اُن کے معصوم بیٹے کی جان کیوں لینا چاہتا ہے۔‏ مگر اُنہوں نے یہوواہ پر بھروسا رکھا اور مصر جانے کی تیاری کرنے لگے۔‏

3.‏ اُس منظر کو بیان کریں جب یوسف اور اُن کا خاندان بیت‌لحم سے نکل رہا تھا۔‏ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔‏)‏

3 جب بیت‌لحم کے لوگ ہیرودیس کے گھٹیا منصوبے سے بےخبر نیند کی وادیوں میں گم تھے تو یوسف،‏ مریم اور یسوع رات کے اندھیرے میں وہاں سے نکل گئے۔‏ یوسف اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ جنوب کی طرف سفر کرنے لگے۔‏ آہستہ آہستہ مشرق سے سورج کی کِرنیں زمین کی سطح کو چُھونے لگیں۔‏ منزل کی جانب بڑھتے ہوئے یوسف کا ذہن غالباً اِس طرح کے سوالوں میں اُلجھا ہوگا:‏ ”‏حالات آگے کیا موڑ اِختیار کریں گے؟‏ مَیں تو ایک غریب سا بڑھئی ہوں،‏ مَیں اِتنے طاقت‌ور دُشمنوں سے اپنے خاندان کی حفاظت کیسے کروں گا؟‏ کیا مَیں اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کر پاؤں گا؟‏ یہوواہ نے مجھے اِس خاص بچے کی پرورش کرنے کی جو بھاری ذمےداری سونپی ہے،‏ کیا مَیں اُسے اچھی طرح نبھا پاؤں گا؟‏“‏ یوسف کے کندھوں پر واقعی بہت سی مشکل ذمےداریاں آن پڑی تھیں۔‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ یوسف نے اِن سب ذمےداریوں کو کیسے سرانجام دیا اور آج‌کل ہم سب،‏ خاص طور پر والد ایمان کے حوالے سے اُن سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔‏

اپنے خاندان کی حفاظت کرنے والا سربراہ

4،‏ 5.‏ ‏(‏الف)‏ یوسف کی زندگی کس طرح ہمیشہ کے لیے بدل گئی؟‏ (‏ب)‏ فرشتے نے ایک بھاری ذمےداری کو قبول کرنے کے لیے یوسف کی ہمت کیسے بڑھائی؟‏

4 یہ کئی مہینے پہلے کی بات ہے۔‏ یوسف کے آبائی شہر ناصرت میں عیلی نامی آدمی کی بیٹی سے اُن کی منگنی ہوئی۔‏ اِس کے بعد کچھ ایسا ہوا کہ اُن کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔‏ یوسف جانتے تھے کہ اُن کی منگیتر مریم پاک‌دامن اور یہوواہ اور اُس کے معیاروں سے محبت رکھنے والی خاتون ہیں۔‏ مگر پھر اُنہیں پتہ چلا کہ وہ حاملہ ہیں۔‏ چونکہ یوسف،‏ مریم کی بدنامی نہیں چاہتے تھے اِس لیے اُنہوں نے اُنہیں چپکے سے طلاق دینے کا فیصلہ کِیا۔‏ * لیکن ایک فرشتے نے خواب میں یوسف کو بتایا کہ مریم پاک روح کے ذریعے حاملہ ہوئی ہیں۔‏ اُس نے یہ بھی کہا کہ مریم سے جو بیٹا پیدا ہوگا،‏ ”‏وہ لوگوں کو گُناہوں سے نجات دِلائے گا۔‏“‏ پھر اُس نے کہا:‏ ”‏آپ اپنی بیوی مریم کو اپنے گھر لانے سے نہ ہچکچائیں۔‏“‏—‏متی 1:‏18-‏21‏۔‏

5 یوسف ایک نیک اور خدا کے فرمانبردار شخص تھے۔‏ لہٰذا اُنہوں نے فرشتے کے کہے کے مطابق عمل کِیا اور اُس بھاری ذمےداری کو قبول کر لیا جو اُنہیں سونپی گئی تھی۔‏ اُنہیں ایک ایسے بچے کی پرورش اور دیکھ‌بھال کرنی تھی جو اُن کا اپنا بیٹا نہیں تھا مگر خدا کو نہایت عزیز تھا۔‏ بعد میں رومی شہنشاہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے یوسف اور اُن کی حاملہ بیوی مردم‌شماری میں اپنے نام لکھوانے کے لیے بیت‌لحم گئے۔‏ وہیں پر اُن کا بچہ پیدا ہوا۔‏

6-‏8.‏ ‏(‏الف)‏ کن واقعات کی وجہ سے یوسف اور اُن کے خاندان کی زندگی میں ایک بار پھر بڑی تبدیلی آ گئی؟‏ (‏ب)‏ ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ نجومیوں کو نظر آنے والا ستارہ شیطان کی طرف سے تھا؟‏ (‏فٹ‌نوٹ کو بھی دیکھیں۔‏)‏

6 یوسف اپنے بیوی بچے کو لے کر واپس ناصرت نہیں گئے بلکہ بیت‌لحم میں ہی رُک گئے جو کہ یروشلیم سے کچھ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔‏ وہ لوگ غریب تھے مگر یوسف مریم اور یسوع کی ضروریات پوری کرنے اور اُنہیں محفوظ رکھنے کے لیے جو کچھ کر سکتے تھے،‏ اُنہوں نے کِیا۔‏ جلد ہی اُنہیں رہنے کے لیے ایک چھوٹا سا گھر مل گیا۔‏ اِس کے بعد جب یسوع کی عمر ایک سال یا شاید اِس سے تھوڑی زیادہ تھی تو ایک بار پھر اِس چھوٹے سے خاندان کی زندگی اچانک سے بدل گئی۔‏

7 ایک دن کچھ آدمی جو کہ نجومی تھے،‏ اُن کے گھر آئے۔‏ وہ مشرق سے آئے تھے اور غالباً اُن کا تعلق بابل سے تھا۔‏ وہ ایک ستارے کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے یوسف اور مریم کے گھر پہنچے تھے اور اُس بچے کو دیکھنے آئے تھے جس کے بارے میں اُنہوں نے سنا تھا کہ وہ یہودیوں کا بادشاہ بنے گا۔‏ دراصل اُن کا مقصد یسوع کی تعظیم کرنا تھا۔‏

8 جانے انجانے میں اُن نجومیوں نے ننھے یسوع کی جان خطرے میں ڈال دی تھی۔‏ جو ستارہ اُنہوں نے دیکھا تھا،‏ وہ اُنہیں سیدھا بیت‌لحم لے جانے کی بجائے پہلے یروشلیم لے گیا۔‏ * وہاں اُنہوں نے بُرے بادشاہ ہیرودیس کو بتایا کہ وہ اُس بچے کو ڈھونڈ رہے ہیں جو یہودیوں کا بادشاہ بنے گا۔‏ یہ خبر سنتے ہی ہیرودیس غصے اور حسد کی آگ میں جلنے لگا۔‏

9-‏11.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع کو ہلاک کرنے کے حوالے سے ہیرودیس اور شیطان کا منصوبہ کیسے ناکام ہو گیا؟‏ (‏ب)‏ یوسف اور اُن کے خاندان کے سفر کے بارے میں افسانوں میں کیا بتایا گیا ہے لیکن حقیقت کیا ہے؟‏

9 خوشی کی بات یہ تھی کہ پردے کے پیچھے ایک ایسی ہستی یسوع کی حفاظت کر رہی تھی جو ہیرودیس اور شیطان سے کہیں زیادہ طاقت‌ور تھی۔‏ ہم کس بِنا پر ایسا کہہ سکتے ہیں؟‏ جب نجومیوں نے یسوع کے گھر پہنچ کر اُنہیں اُن کی ماں کے ساتھ دیکھا تو اُنہوں نے یسوع کو تحفے دیے۔‏ یوسف اور مریم کو یہ سب بہت عجیب لگ رہا ہوگا کہ اچانک وہ ’‏سونے،‏ لوبان اور مُر‘‏ جیسی قیمتی چیزوں کے مالک بن گئے ہیں۔‏ نجومی واپس ہیرودیس کے پاس جانے کا اِرادہ رکھتے تھے تاکہ اُسے یہ بتا سکیں کہ اُنہیں بچہ کہاں ملا ہے۔‏ مگر یہوواہ نے ایسا نہیں ہونے دیا۔‏ اُس نے خواب میں نجومیوں کو ہدایت دی کہ وہ کسی دوسرے راستے سے اپنے وطن لوٹ جائیں۔‏‏—‏متی 2:‏1-‏12 کو پڑھیں۔‏

10 نجومیوں کے جانے کے تھوڑی دیر بعد یہوواہ کے فرشتے نے یوسف کو خبردار کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏اُٹھیں!‏ بچے اور اُس کی ماں کو لے کر مصر بھاگ جائیں اور اُس وقت تک وہاں رہیں جب تک کہ مَیں آپ کو واپس آنے کو نہ کہوں کیونکہ ہیرودیس اِس بچے کو ڈھونڈے گا تاکہ اِسے مروا ڈالے۔‏“‏ (‏متی 2:‏13‏)‏ باب کے شروع میں یہی منظر بیان کِیا گیا تھا جس میں ہم نے دیکھا تھا کہ یوسف نے فوراً اِس ہدایت پر عمل کِیا۔‏ یوسف کے نزدیک اپنے بچے کی حفاظت کرنا سب سے زیادہ اہم تھا۔‏ لہٰذا وہ اپنے خاندان کو لے کر مصر چلے گئے۔‏ چونکہ نجومی،‏ یسوع کے لیے قیمتی تحفے لائے تھے اِس لیے یوسف مصر جانے اور وہاں اپنا گزر بسر کرنے کے اخراجات برداشت کر سکتے تھے۔‏

یوسف اپنے بچے کی حفاظت کی خاطر فوراً اپنا گھربار چھوڑنے کو تیار ہو گئے۔‏

11 مصر تک کے اِس سفر کو دلکش انداز میں پیش کرنے کے لیے بعد میں کئی افسانے گھڑ دیے گئے،‏ مثلاً یہ کہ ننھے یسوع نے معجزانہ طور پر اِس سفر کو مختصر کر دیا،‏ یوسف اور مریم کو ڈاکوؤں سے بچایا اور کھجور کے درختوں کی ٹہنیوں کو جھکا دیا تاکہ اُن کی ماں آسانی سے اِن کا پھل توڑ سکے۔‏ * ایسی باتوں سے یہ تاثر دیا گیا کہ یہ سفر بڑا خوش‌گوار رہا ہوگا۔‏ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ انجان راستے پر ایک لمبا اور دشوار سفر تھا۔‏

12.‏ والدین یوسف کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

12 والدین یوسف کی مثال سے بہت سے اچھے سبق سیکھ سکتے ہیں۔‏ جب یوسف کا خاندان خطرے میں تھا تو وہ اِسے محفوظ رکھنے کے لیے اپنا کام اور گھربار چھوڑنے کو فوراً تیار ہو گئے۔‏ بِلاشُبہ اُن کی نظر میں اُن کا گھرانہ یہوواہ کی طرف سے ایک نعمت تھا۔‏ شیطان کی اِس بُری دُنیا میں والدین کے لیے اپنے بچوں کی پرورش کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔‏ اِس دُنیا کے اثر کی وجہ سے بچے غلط کام کرنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں،‏ مشکلات میں گِھر سکتے ہیں،‏ یہاں تک کہ اُن کی زندگی بھی برباد ہو سکتی ہے۔‏ جس طرح یوسف نے یسوع کو بچانے کے لیے فوراً قدم اُٹھایا اُسی طرح مسیحی والدین اپنے بچوں کو اِس دُنیا کے رنگ میں رنگنے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔‏ ایسے والدین واقعی قابلِ‌تعریف ہیں۔‏

اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرنے والا سربراہ

13،‏ 14.‏ یوسف اور مریم ناصرت میں کیوں رہنے لگے؟‏

13 ایسا لگتا ہے کہ یوسف،‏ مریم اور یسوع زیادہ دیر تک مصر میں نہیں رہے کیونکہ اُن کے وہاں پہنچنے کے تھوڑے عرصے بعد فرشتے نے یوسف کو ہیرودیس کی موت کی خبر سنائی۔‏ اِس لیے یوسف اپنے بیوی بچے کو لے کر واپس اپنے آبائی وطن آ گئے۔‏ صحیفوں میں یہ پیش‌گوئی کی گئی تھی کہ یہوواہ ”‏اپنے بیٹے کو مصر سے“‏ بلائے گا۔‏ (‏متی 2:‏15‏)‏ یوسف نے اِس پیش‌گوئی کی تکمیل میں اہم کردار ادا کِیا۔‏ لیکن مصر سے لوٹ کر یوسف اپنے گھرانے کے ساتھ کہاں رہنے والے تھے؟‏

14 یوسف جانتے تھے کہ ہیرودیس کا جانشین ارخلاؤس اپنے باپ کی طرح ظالم اور قاتل ہے۔‏ اِس لیے وہ یہودیہ جانے سے ہچکچائے۔‏ اور پھر جب خدا نے بھی اُن کی رہنمائی کی تو اُنہوں نے فیصلہ کِیا کہ وہ یروشلیم سے دُور ایسی جگہ چلے جائیں گے جہاں اُن کے بچے کی جان زیادہ محفوظ ہو۔‏ لہٰذا وہ شمال کی طرف گلیل کے شہر ناصرت چلے گئے۔‏ یہ اُن کا آبائی شہر بھی تھا اور یہیں یوسف اور مریم نے یسوع کی پرورش کی۔‏‏—‏متی 2:‏19-‏23 کو پڑھیں۔‏

15،‏ 16.‏ یوسف کے کام میں کیا کچھ شامل تھا اور وہ اِس کے لیے غالباً کون سے اوزار اِستعمال کرتے تھے؟‏

15 یوسف اور مریم کی زندگی بڑی سادہ تھی مگر اِتنی آسان نہیں تھی۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ یوسف بڑھئی تھے۔‏ (‏متی 13:‏55‏)‏ ایک بڑھئی کا کام بڑا محنت‌طلب ہوتا تھا۔‏ وہ درخت کاٹتا،‏ اِنہیں گھسیٹ کر لاتا،‏ لکڑی سُکھاتا اور پھر اِس سے گھر،‏ کشتیاں،‏ چھوٹے پُل،‏ ریڑھیاں،‏ پہیے،‏ جُوئے اور کھیتی‌باڑی کے اوزار بناتا۔‏ اُس زمانے میں بڑھئی اکثر اپنے گھر کی چوکھٹ کے پاس یا گھر کے ساتھ موجود اپنی دُکان میں کام کرتے تھے۔‏

16 یوسف کے پاس طرح طرح کے اوزار تھے جن میں سے کچھ اُنہیں غالباً اُن کے والد سے ملے تھے۔‏ شاید وہ کام کے دوران یہ اوزار اِستعمال کِیا کرتے تھے:‏ پیمائشی آلہ،‏ ساہول،‏ کلہاڑا،‏ آری،‏ بسولہ،‏ ہتھوڑا،‏ ہتھوڑی،‏ چھینی،‏ ہاتھ سے چلنے والی ڈِرل،‏ مختلف قسم کے گوند اور شاید کچھ کیل بھی جو کہ کافی مہنگے ملتے تھے۔‏

17،‏ 18.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع نے اپنے والد سے کیا کچھ سیکھا؟‏ (‏ب)‏ وقت کے ساتھ ساتھ یوسف کو اَور بھی زیادہ محنت سے کام کیوں کرنا پڑتا ہوگا؟‏

17 ذرا تصور کریں کہ جب یسوع چھوٹے تھے تو وہ کتنے غور سے یوسف کو کام کرتے دیکھتے ہوں گے۔‏ وہ یہ دیکھ کر بڑے متاثر ہوتے ہوں گے کہ اُن کے والد کے کندھوں اور بازؤں میں کتنی طاقت ہے،‏ اُن کے ہاتھوں میں کتنی مہارت ہے اور اُن کی آنکھوں میں کتنی تیزی ہے۔‏ جب یسوع ابھی کم‌عمر تھے تو شاید یوسف نے اُنہیں چھوٹے چھوٹے کام کرنے سکھائے ہوں جیسے کہ مچھلی کی سُوکھی کھال سے لکڑی کی کھردری سطح کو ہموار بنانا۔‏ غالباً اُنہوں نے یسوع کو مختلف درختوں،‏ مثلاً اِنجیر،‏ بلوط اور زیتون کی لکڑی میں فرق بھی سمجھایا ہوگا۔‏

یوسف نے اپنے بیٹے کو بڑھئی کا کام سکھایا۔‏

18 یسوع نے یہ بھی دیکھا کہ جن مضبوط ہاتھوں سے اُن کے والد درختوں کو کاٹتے،‏ اِن کے ٹکڑے کرتے اور اِنہیں تراش کر جوڑتے ہیں،‏ اُنہی ہاتھوں کے ذریعے وہ اُنہیں،‏ اُن کے بہن بھائیوں اور اُن کی ماں کو پیارومحبت کا احساس بھی دِلاتے ہیں۔‏ وقت کے ساتھ ساتھ یوسف اور مریم کا خاندان بڑا ہوتا گیا۔‏ یسوع کے علاوہ اُن کے کم سے کم چھ اَور بچے پیدا ہوئے۔‏ (‏متی 13:‏55،‏ 56‏)‏ اُن سب کا پیٹ بھرنے کے لیے یوسف کو اَور بھی سخت محنت کرنی پڑتی ہوگی۔‏

19.‏ یوسف نے یہوواہ کے ساتھ اپنے گھرانے کا رشتہ مضبوط رکھنے کے لیے کیا کِیا؟‏

19 یوسف اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اُن کی سب سے اہم ذمےداری یہ ہے کہ وہ یہوواہ کے ساتھ رشتہ مضبوط رکھنے میں اپنے گھرانے کی مدد کریں۔‏ اِس لیے وہ اپنے بچوں کو یہوواہ اور اُس کے معیاروں کے بارے میں تعلیم دینے کے لیے وقت نکالتے تھے۔‏ وہ دونوں میاں بیوی اپنے بچوں کو باقاعدگی سے مقامی عبادت‌گاہ لے کر جاتے تھے جہاں شریعت کو اُونچی آواز میں پڑھا جاتا تھا اور اِس کی وضاحت کی جاتی تھی۔‏ عبادت‌گاہ سے واپس آنے کے بعد شاید یسوع اُن سے ڈھیروں سوال پوچھتے ہوں اور بےشک یوسف اِن کے جواب دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہوں گے۔‏ یوسف اپنے خاندان کو عیدیں منانے کے لیے یروشلیم بھی لے کر جاتے تھے۔‏ ہر سال عیدِفسح کے موقعے پر وہ 120 کلومیٹر (‏75 میل)‏ کا سفر طے کر کے یروشلیم جاتے،‏ وہاں عید مناتے اور پھر گھر لوٹ آتے۔‏ اِس سب میں اُنہیں تقریباً دو ہفتے لگتے تھے۔‏

یوسف باقاعدگی سے اپنے خاندان کو عبادت کے لیے یروشلیم میں موجود ہیکل میں لے جاتے تھے۔‏

20.‏ مسیحی گھرانوں کے سربراہ یوسف کی مثال پر کیسے عمل کرتے ہیں؟‏

20 مسیحی گھرانوں کے سربراہ یوسف کی مثال پر عمل کرتے ہیں۔‏ وہ اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اَن‌تھک محنت کرتے ہیں مگر اُن کے نزدیک اُنہیں یہوواہ کے متعلق سکھانا سب سے اہم ہوتا ہے۔‏ اُن کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ باقاعدگی سے خاندانی عبادت کرائیں اور اپنے بچوں کو اِجلاسوں اور اِجتماعوں میں لے کر جائیں۔‏ یوسف کی طرح وہ جانتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی بھلائی کے لیے اِس سے بڑا کام اَور کوئی نہیں کر سکتے کہ اُنہیں یہوواہ کے متعلق سکھائیں۔‏

یوسف اور مریم کے لیے ایک بڑا دھچکا

21.‏ ‏(‏الف)‏ یوسف کے خاندان کے لیے عیدِفسح کا موقع کیسا ہوتا تھا؟‏ (‏ب)‏ یوسف اور مریم کو کب پتہ چلا کہ یسوع کھو گئے ہیں؟‏

21 جب یسوع 12 سال کے تھے تو یوسف ہمیشہ کی طرح اپنے خاندان کے ساتھ عیدِفسح منانے یروشلیم گئے۔‏ اِس خوشی کے موقعے پر بڑے بڑے خاندان قافلوں کی صورت میں سفر کرتے تھے۔‏ چونکہ یہ بہار کا موسم ہوا کرتا تھا اِس لیے جن علاقوں سے وہ گزرتے تھے،‏ وہ بڑے سرسبزوشاداب ہوتے تھے۔‏ پھر جوں‌جوں وہ یروشلیم کے نزدیک پہنچتے تھے،‏ ہریالی کم ہوتی جاتی تھی کیونکہ یہ شہر ایک اُونچے مقام پر واقع تھا۔‏ یروشلیم کی چڑھائیاں چڑھتے وقت بہت سے لوگ وہ مشہور زبور گاتے تھے جنہیں بائبل میں ہیکل کی زیارت کے گیت کہا گیا ہے۔‏ (‏زبور 120-‏134‏)‏ ہر سال کی طرح اِس سال بھی یروشلیم لاکھوں لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔‏ عید کے بعد خاندانوں نے اپنے اپنے قافلوں کے ساتھ واپسی کا سفر شروع کِیا۔‏ شاید یوسف اور مریم مختلف کاموں میں مصروف تھے اِس لیے اُنہیں لگا کہ یسوع اُن کے رشتےداروں یا قافلے کے دوسرے لوگوں کے ساتھ ہیں۔‏ لیکن پھر ایک دن کا سفر طے کرنے کے بعد اُنہیں پتہ چلا کہ یسوع قافلے میں نہیں ہیں۔‏ وہ کہیں کھو گئے تھے۔‏—‏لُو 2:‏41-‏44‏۔‏

22،‏ 23.‏ ‏(‏الف)‏ جب یوسف اور مریم کو پتہ چلا کہ یسوع گم ہو گئے ہیں تو اُنہوں نے کیا کِیا؟‏ (‏ب)‏ جب اُنہیں یسوع مل گئے تو مریم نے اُن سے کیا کہا؟‏

22 یوسف اور مریم پریشانی کے عالم میں اُلٹے پاؤں یروشلیم لوٹے۔‏ ذرا تصور کریں کہ شہر کی جن گلیوں میں پہلے اِتنی چہل‌پہل نظر آ رہی تھی،‏ وہ اب اُنہیں کتنی سنسان اور پرائی سی معلوم ہو رہی ہوں گی۔‏ اِن گلیوں میں یہاں وہاں گھومتے ہوئے وہ اُونچی اُونچی اپنے بیٹے کا نام پکار رہے ہوں گے۔‏ آخر یسوع کہاں چلے گئے تھے؟‏ تین دن تک یسوع کی تلاش میں مارے مارے پھرنے کے بعد شاید یوسف یہ سوچنے لگے ہوں کہ وہ اُس ذمےداری کو نبھانے میں بُری طرح ناکام ہو گئے ہیں جو یہوواہ نے اُنہیں سونپی تھی۔‏ پھر آخرکار وہ ہیکل گئے۔‏ ہیکل کے ہر کونے میں ڈھونڈنے کے بعد وہ اُس بڑے کمرے میں آئے جہاں شریعت کے عالم بیٹھے ہوئے تھے۔‏ وہیں اُن آدمیوں کے درمیان اُنہیں یسوع بھی نظر آئے۔‏ اپنے بیٹے کو دیکھ کر یوسف اور مریم کی جان میں جان آ گئی ہوگی۔‏—‏لُو 2:‏45،‏ 46‏۔‏

23 یسوع بڑے دھیان سے شریعت کے عالموں کی باتیں سُن رہے تھے اور اُن سے بہت سارے سوال پوچھ رہے تھے۔‏ وہ آدمی یسوع کی عقل‌مندی اور جوابوں پر حیرت میں گم تھے۔‏ یوسف اور مریم کو اِس بات پر بڑا دھچکا لگا تھا کہ یسوع اُن کے ساتھ جانے کی بجائے یہاں آ گئے تھے۔‏ بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یوسف نے اِس موقعے پر کچھ کہا یا نہیں۔‏ لیکن مریم کے اِن الفاظ سے اُن دونوں کے احساسات ظاہر ہوتے ہیں:‏ ”‏بیٹا،‏ تُم نے ہمارے ساتھ ایسا کیوں کِیا؟‏ دیکھو،‏ مَیں اور تمہارے ابو تمہیں ڈھونڈتے پھر رہے تھے اور اِتنے پریشان تھے۔‏“‏—‏لُو 2:‏47،‏ 48‏۔‏

24.‏ بائبل سے بچوں کی پرورش کے حوالے سے کون سی اہم حقیقت واضح ہوتی ہے؟‏

24 بائبل میں درج اِس واقعے سے یہ اہم حقیقت واضح ہوتی ہے کہ بچوں کی پرورش کرتے وقت والدین کو پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔‏ یوسف اور مریم کے ساتھ ایسا ہوا حالانکہ اُن کا بچہ بےعیب تھا۔‏ آج‌کل اِس بُری دُنیا میں بچوں کی پرورش کرنا اَور بھی زیادہ پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔‏ لیکن والدین اِس بات کو یاد رکھنے سے تسلی پا سکتے ہیں کہ بائبل میں بھی ایسے ماں باپ کا ذکر ہوا ہے جنہیں بچوں کی پرورش کے دوران پریشانیوں کا سامنا ہوا۔‏

25،‏ 26.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع نے اپنے والدین کو کیا جواب دیا؟‏ (‏ب)‏ جب یوسف بعد میں یسوع کی کہی ہوئی بات پر سوچتے ہوں گے تو اُنہیں کیسا محسوس ہوتا ہوگا؟‏

25 بِلاشُبہ یسوع اِس لیے ہیکل میں رُکے کیونکہ یہ وہ جگہ تھی جہاں وہ اپنے آسمانی باپ یہوواہ کے اَور زیادہ قریب محسوس کر سکتے تھے اور اُس کے بارے میں بہت کچھ سیکھ سکتے تھے۔‏ لہٰذا یسوع نے یوسف اور مریم کو جواب دیا:‏ ”‏آپ مجھے کیوں ڈھونڈ رہے تھے؟‏ کیا آپ کو پتہ نہیں تھا کہ مَیں اپنے باپ کے گھر میں ہوں گا؟‏“‏ (‏لُو 2:‏49‏)‏ ایسا نہیں تھا کہ یسوع اپنے والدین کے لیے احترام نہیں دِکھا رہے تھے بلکہ اُنہیں بس یہ توقع تھی کہ اُن کے والدین اِس بات کو سمجھیں گے کہ وہ ہیکل میں کیوں تھے۔‏

26 بعد میں یوسف نے کئی بار یسوع کی کہی ہوئی بات پر سوچا ہوگا اور بےشک اِسے یاد کر کے اُن کا سینہ فخر سے چوڑا ہو جاتا ہوگا۔‏ آخر یوسف یہی تو چاہتے تھے کہ اُن کا بیٹا یہوواہ کو باپ خیال کرے اور اِس کے لیے اُنہوں نے کافی محنت بھی کی تھی۔‏ دراصل یوسف،‏ یسوع کے بچپن سے اُن کے ساتھ بڑی شفقت سے پیش آئے تھے۔‏ اِس لیے لفظ ”‏باپ“‏ سے یسوع کے ذہن میں ایک ایسے شخص کی تصویر آتی ہوگی جو بڑا شفیق اور پیار کرنے والا ہو۔‏

27.‏ ‏(‏الف)‏ ایک باپ کے طور پر آپ کے پاس کون سا اعزاز ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ کو یوسف کی مثال کو کیوں یاد رکھنا چاہیے؟‏

27 جب والد یوسف کی طرح اپنے بچوں کے ساتھ محبت سے پیش آتے ہیں اور اُن کی حفاظت کرتے ہیں تو بچوں کے ذہن میں باپ کے حوالے سے ایک مثبت تصویر بنتی ہے اور یوں اُنہیں اپنے آسمانی باپ یہوواہ کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔‏ یہ والدوں کے لیے کتنے بڑے اعزاز کی بات ہے!‏ اگر آپ کے سوتیلے بچے ہیں یا آپ نے کوئی بچہ گود لیا ہوا ہے تو اُس صورت میں بھی یوسف کی مثال کو یاد رکھیں۔‏ ہر بچے کو خاص سمجھیں اور سب کو ایک جیسا پیار کریں۔‏ اُن کی مدد کریں تاکہ وہ اپنے آسمانی باپ یہوواہ کے قریب جا سکیں۔‏‏—‏اِفسیوں 6:‏4 کو پڑھیں۔‏

مرتے دم تک اپنی ذمےداریاں نبھانے والا سربراہ

28،‏ 29.‏ ‏(‏الف)‏ لُوقا 2:‏51،‏ 52 سے یوسف کے بارے میں کیا کچھ پتہ چلتا ہے؟‏ (‏ب)‏ وقت کے ساتھ ساتھ یسوع کی دانش‌مندی میں جو اِضافہ ہوا،‏ اُس میں یوسف کا کیا کردار تھا؟‏

28 بائبل میں اِس واقعے کے بعد یوسف کی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔‏ لیکن اِس میں جتنا کچھ بتایا گیا ہے،‏ وہ واقعی قابلِ‌غور ہے۔‏ بائبل میں ہم پڑھتے ہیں کہ یسوع اپنے والدین کے ”‏فرمانبردار رہے۔‏“‏ اِس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ”‏یسوع بڑے ہوتے گئے،‏ اُن کی دانش‌مندی میں اِضافہ ہوتا رہا اور اُنہیں خدا اور اِنسان کی پسندیدگی حاصل تھی۔‏“‏ ‏(‏لُوقا 2:‏51،‏ 52 کو پڑھیں۔‏)‏ اِن آیتوں میں جو باتیں لکھی ہیں،‏ اُن سے یوسف کے بارے میں بہت کچھ پتہ چلتا ہے۔‏ مثال کے طور پر یوسف ایک سربراہ کی حیثیت سے اپنی ذمےداریوں کو انجام دیتے رہے۔‏ اِس بات کا ثبوت یہ ہے کہ یسوع جو کہ بےعیب اِنسان تھے،‏ اپنے والد کے اِختیار کے لیے احترام ظاہر کرتے رہے اور اُس کے تابع رہے۔‏

29 اِن آیتوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یسوع کی دانش‌مندی میں اِضافہ ہوتا گیا۔‏ اُس زمانے میں یہودیوں میں ایک کہاوت بڑی مشہور تھی جو آج بھی اُن کی ایک کتاب میں پائی جاتی ہے۔‏ اِس کہاوت کے مطابق صرف امیر لوگ ہی حقیقی معنوں میں دانش‌مند ہو سکتے ہیں جبکہ مزدور طبقہ جیسے کہ بڑھئی،‏ کسان اور لوہار وغیرہ ”‏صحیح اور غلط میں فرق نہیں کر سکتے اور مثلوں کو نہیں سمجھ سکتے۔‏“‏ یسوع نے بڑے ہو کر اِس کہاوت کو جھوٹا ثابت کر دیا۔‏ بِلاشُبہ اِس سلسلے میں یوسف نے بڑا اہم کردار ادا کِیا ہوگا۔‏ وہ ایک غریب بڑھئی تھے لیکن اُنہوں نے یسوع کے بچپن میں اُنہیں بےشمار موقعوں پر ”‏صحیح اور غلط“‏ کے بارے میں یہوواہ کے نظریے کی تعلیم دی ہوگی۔‏

30.‏ یوسف نے خاندان کے سربراہوں کے لیے کیسی مثال قائم کی؟‏

30 لُوقا 2:‏52 میں یہ بھی لکھا ہے کہ ”‏یسوع بڑے ہوتے گئے۔‏“‏ ‏”‏اُردو ریوائزڈ ورشن“‏ کے مطابق اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ’‏یسوع قدوقامت میں ترقی کرتے گئے۔‏‘‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوسف نے یسوع کی صحت‌وتندرستی کا بھی خاص خیال رکھا تھا۔‏ اِسی لیے یسوع بڑے ہو کر ایک طاقت‌ور اور صحت‌مند شخص بنے۔‏ اِس کے علاوہ یوسف نے یسوع کو مہارت سے بڑھئی کا کام کرنا بھی سکھایا۔‏ یہ قابلِ‌غور بات ہے کہ یسوع نہ صرف بڑھئی کے بیٹے بلکہ بڑھئی بھی کہلاتے تھے۔‏ (‏مر 6:‏3‏)‏ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ یوسف نے یسوع کو بڑی اچھی طرح سے بڑھئی کا ہنر سکھایا تھا۔‏ آج‌کل خاندان کے سربراہوں کو یوسف کی مثال پر عمل کرنا چاہیے۔‏ اُنہیں نہ صرف اپنے بچوں کی صحت‌وتندرستی کا خیال رکھنا چاہیے بلکہ اُنہیں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا بھی سکھانا چاہیے۔‏

31.‏ ‏(‏الف)‏ حالات‌وواقعات سے یوسف کی موت کے وقت کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟‏ (‏بکس کو بھی دیکھیں۔‏)‏ (‏ب)‏ یوسف نے ہمارے لیے کیسی مثال چھوڑی ہے؟‏

31 یسوع نے تقریباً 30 سال کی عمر میں بپتسمہ لیا اور اِس کے بعد مُنادی کا کام شروع کِیا۔‏ ایسا لگتا ہے کہ تب تک یوسف وفات پا چُکے تھے۔‏ (‏بکس ”‏یوسف کب فوت ہوئے؟‏‏“‏ کو دیکھیں۔‏)‏ بہرحال یوسف نے والدوں کے لیے بڑی روشن مثال چھوڑی ہے۔‏ اُنہوں نے ہر طرح سے اپنے خاندان کی حفاظت کی،‏ اُن کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دن رات ایک کِیا،‏ یہوواہ کے قریب رہنے میں اُن کی مدد کی اور مرتے دم تک اپنی اِن ذمےداریوں کو نبھایا۔‏ تمام والدوں،‏ خاندان کے سربراہوں غرض سبھی مسیحیوں کو یہ عزم کرنا چاہیے کہ وہ یوسف جیسا ایمان ظاہر کریں گے۔‏

^ پیراگراف 4 اُس زمانے میں منگنی کو بھی شادی کے بندھن کی طرح پکا خیال کِیا جاتا تھا۔‏

^ پیراگراف 8 یہ کوئی اصلی ستارہ نہیں تھا اور نہ ہی اِسے خدا نے بھیجا تھا۔‏ بِلاشُبہ شیطان نے ستارے کی شکل کی کوئی چیز آسمان پر ظاہر کی تھی۔‏ دراصل یہ یسوع کو قتل کروانے کے اُس کے ناپاک منصوبے کا حصہ تھا۔‏

^ پیراگراف 11 بائبل سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ یسوع نے ”‏سب سے پہلا معجزہ“‏ اپنے بپتسمے کے کچھ عرصے بعد کِیا تھا۔‏—‏یوح 2:‏1-‏11‏۔‏