مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب نمبر 8

وہ مشکلات اور مایوسیوں کے باوجود ثابت‌قدم رہے

وہ مشکلات اور مایوسیوں کے باوجود ثابت‌قدم رہے

1.‏ شہر سیلا سوگ میں کیوں ڈوبا ہوا تھا؟‏

سموئیل سیلا کے لوگوں کے غم کو محسوس کر سکتے تھے۔‏ ایسا لگ رہا تھا جیسے پورا شہر سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔‏ کتنے ہی گھروں سے عورتوں اور بچوں کے رونے کی صدائیں گُونج رہی تھیں۔‏ کوئی اپنے باپ،‏ کوئی اپنے شوہر،‏ کوئی اپنے بیٹے تو کوئی اپنے بھائی کے مرنے کا ماتم منا رہا تھا۔‏ فلستی پہلے ہی ایک جنگ میں بنی‌اِسرائیل کے 4000 سپاہیوں کو قتل کر چُکے تھے اور اب تقریباً 30 ہزار اَور سپاہی بدترین شکست میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔‏—‏1-‏سمو 4:‏1،‏ 2،‏ 10‏۔‏

2،‏ 3.‏ ایسے کون سے واقعات ہوئے جن سے سیلا کی شان‌وشوکت مٹی میں مل گئی؟‏

2 بنی‌اِسرائیل کی یہ شکست تو اُن مصیبتوں میں سے ایک تھی جو سیلا پر آئی تھیں۔‏ اِسرائیلی قوم کے کچھ آدمی جن میں کاہنِ‌اعظم عیلی کے بیٹے حُفنی اور فینحاس بھی شامل تھے،‏ عہد کے صندوق کو سیلا سے باہر لے گئے۔‏ یہ صندوق عموماً خیمۂ‌اِجتماع کے پاک‌ترین مقام میں رکھا جاتا تھا اور اِس بات کی علامت تھا کہ خدا اپنے بندوں کے ساتھ ہے۔‏ پھر لوگ اِسے میدانِ‌جنگ میں لے گئے۔‏ اُن کا خیال تھا کہ اِس کی موجودگی کی وجہ سے اُنہیں فتح مل جائے گی۔‏ لیکن فلستیوں نے عہد کے صندوق کو قبضے میں لے لیا اور حُفنی اور فینحاس کو قتل کر دیا۔‏—‏1-‏سمو 4:‏3-‏11‏۔‏

3 عہد کا صندوق کئی صدیوں سے سیلا میں خیمۂ‌اِجتماع کی شان تھا۔‏ لیکن اب یہ دُشمن فوج کے قبضے میں جا چُکا تھا۔‏ جب 98 سالہ عیلی کو یہ خبر ملی تو اُنہیں ایسا دھچکا لگا کہ وہ اپنی کُرسی سے گِر کر فوت ہو گئے۔‏ جب اُن کی بہو نے جو کہ حاملہ تھی،‏ یہ سنا کہ اُس کا شوہر اور سُسر مر گیا ہے اور عہد کا صندوق چھن گیا ہے تو وہ بچہ جنتے ہوئے مر گئی۔‏ مرنے سے پہلے اُس نے کہا:‏ ”‏حشمت اِسرائیل سے جاتی رہی۔‏“‏ یہ سچ تھا کیونکہ سیلا کی ساری شان برباد ہو گئی تھی۔‏—‏1-‏سمو 4:‏12-‏22‏۔‏

4.‏ اِس باب میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

4 اِن مایوس‌کُن واقعات کے بارے میں سُن کر سموئیل کا کیا ردِعمل تھا؟‏ کیا اُن کا ایمان اِتنا مضبوط تھا کہ وہ ایسے لوگوں کی مدد کر سکیں جو خدا کی پناہ اور خوشنودی کھو چُکے تھے؟‏ آج ہمیں بھی کبھی کبھار ایسی مشکلات اور مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں ہمارے ایمان کا اِمتحان ہوتا ہے۔‏ لہٰذا آئیں،‏ اِس بات پر غور کریں کہ ہم سموئیل کی مثال سے اَور کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏

اُنہوں نے ”‏نیکی کی“‏

5،‏ 6.‏ ‏(‏الف)‏ سیلا میں آنے والی مصیبتوں کے ذکر کے بعد سموئیل کی کہانی کا رُخ کس طرف مُڑ جاتا ہے؟‏ (‏ب)‏ 20 سال کے عرصے کے دوران سموئیل کی کیا مصروفیات رہیں؟‏

5 اِن سارے واقعات کے ذکر کے بعد کہانی کا رُخ سموئیل سے مُڑ کر عہد کے صندوق کی طرف چلا جاتا ہے۔‏ فلستیوں کو عہد کا صندوق قبضے میں لینے کی وجہ سے کئی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اِسے لوٹانے پر مجبور ہو گئے۔‏ بائبل میں جب دوبارہ سموئیل کا ذکر آتا ہے تو تقریباً 20 سال گزر چُکے ہوتے ہیں۔‏ (‏1-‏سمو 7:‏2‏)‏ اِن سالوں کے دوران سموئیل نے کیا کِیا؟‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ بائبل اِس بات پر کیا روشنی ڈالتی ہے۔‏

جب بنی‌اِسرائیل شدید صدمے اور مایوسی میں ڈوبے ہوئے تھے تو سموئیل نے اُن کی مدد کیسے کی؟‏

6 بائبل میں بتایا گیا ہے کہ 20 سال کا یہ عرصہ شروع ہونے سے پہلے ”‏سموئیلؔ کی بات سب اِسرائیلیوں کے پاس پہنچی۔‏“‏ (‏1-‏سمو 4:‏1‏)‏ اِس عرصے کے ختم ہونے کے بعد سموئیل ہر سال اِسرائیل کے تین شہروں میں جاتے اور وہاں لوگوں کے مسئلے سنتے اور اِنہیں حل کرتے۔‏ پھر وہ اپنے آبائی شہر رامہ واپس آ جاتے۔‏ (‏1-‏سمو 7:‏15-‏17‏)‏ لہٰذا اِس میں کوئی شک نہیں کہ سموئیل ہمیشہ خدا کی خدمت میں مصروف رہے اور 20 سال کے اُس عرصے کے دوران بھی اُنہیں بہت کچھ کرنا تھا۔‏

حالانکہ بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ 20 سال کے عرصے کے دوران سموئیل نے کیا کچھ کِیا لیکن ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اِس عرصے میں بھی وہ خدا کی خدمت میں مصروف رہے۔‏

7،‏ 8.‏ ‏(‏الف)‏ سموئیل نے لوگوں سے کیا کہا؟‏ (‏ب)‏ سموئیل کی بات سُن کر لوگوں نے کیا ردِعمل دِکھایا؟‏

7 عیلی کے بیٹوں کے گُناہوں کی وجہ سے لوگوں کے ایمان پر بہت بُرا اثر پڑا تھا۔‏ ایسا لگتا ہے کہ اُن میں سے بہت سے لوگ بُت‌پرستی میں پڑ گئے تھے۔‏ سموئیل نے 20 سال تک بڑی محنت کی کہ خدا کے ساتھ اُن لوگوں کی دوستی بحال ہو جائے۔‏ پھر سموئیل نے اُن سے کہا:‏ ”‏اگر تُم اپنے سارے دل سے [‏یہوواہ]‏ کی طرف رُجوع لاتے ہو تو اجنبی دیوتاؤں اور عستاؔرات کو اپنے بیچ سے دُور کرو اور [‏یہوواہ]‏ کے لئے اپنے دلوں کو مستعد کر کے فقط اُسی کی عبادت کرو اور وہ فلستیوں کے ہاتھ سے تُم کو رِہائی دے گا۔‏“‏—‏1-‏سمو 7:‏3‏۔‏

8 ”‏فلستیوں کے ہاتھ“‏ بنی‌اِسرائیل پر بھاری تھے۔‏ اِسرائیلی فوج کو بُری طرح شکست دینے کے بعد فلستی سمجھ رہے تھے کہ اب وہ جیسے چاہیں،‏ خدا کے بندوں پر ظلم ڈھا سکتے ہیں۔‏ لیکن سموئیل نے لوگوں کو یقین دِلایا کہ اگر وہ یہوواہ کے پاس لوٹ آئیں گے تو حالات کا پانسا پلٹ جائے گا۔‏ کیا بنی‌اِسرائیل سموئیل کی بات ماننے پر راضی ہو گئے؟‏ سموئیل کو یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی ہوگی کہ وہ لوگ بُتوں کی پوجا چھوڑ کر ”‏فقط [‏یہوواہ]‏ کی عبادت کرنے لگے“‏ ہیں۔‏ پھر سموئیل نے اُن سب لوگوں کو شہر مصفاہ میں اِکٹھا کِیا جو کہ یروشلیم کے شمال کی طرف پہاڑی علاقے میں واقع تھا۔‏ وہاں جمع ہو کر لوگوں نے روزہ رکھا اور اُن سارے گُناہوں سے توبہ کی جو اُنہوں نے جھوٹے معبودوں کی پرستش میں پڑ کر کیے تھے۔‏‏—‏1-‏سموئیل 7:‏4-‏6 کو پڑھیں۔‏

جب خدا کے بندے مصفاہ میں جمع تھے تو فلستیوں نے اِسے اُن لوگوں پر ظلم ڈھانے کا سنہری موقع خیال کِیا۔‏

9.‏ فلستیوں نے کس موقعے کو سنہری خیال کِیا اور جب بنی‌اِسرائیل کو خطرے کا پتہ چلا تو اُنہوں نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟‏

9 فلستیوں کو اِس بات کا پتہ چل گیا کہ بنی‌اِسرائیل مصفاہ میں جمع ہیں۔‏ اُنہوں نے اِسے ایک سنہری موقع خیال کِیا اور اپنی فوج کو مصفاہ بھیجا تاکہ وہ خدا کے اُن بندوں کو مٹا دے۔‏ جب بنی‌اِسرائیل نے فلستیوں کے آنے کی خبر سنی تو وہ خوف‌زدہ ہو گئے اور سموئیل سے کہنے لگے کہ وہ اُن کے لیے دُعا کریں۔‏ سموئیل نے دُعا کی اور یہوواہ کے حضور ایک قربانی چڑھائی۔‏ اِس دوران فلستی مصفاہ پہنچ گئے۔‏ یہوواہ نے سموئیل کی دُعا کا جواب دیا اور فلستیوں کے خلاف اُس کا قہر بھڑک اُٹھا۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ یہوواہ ”‏فلستیوں کے اُوپر اُسی دن بڑی کڑک کے ساتھ گرجا۔‏“‏—‏1-‏سمو 7:‏7-‏10‏۔‏

10،‏ 11.‏ ‏(‏الف)‏ یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ جو گرج فلستیوں نے سنی،‏ وہ کوئی عام گرج نہیں تھی؟‏ (‏ب)‏ مصفاہ میں شروع ہونے والی جنگ کا کیا نتیجہ نکلا؟‏

10 بےشک فلستی چھوٹے بچے نہیں تھے جو بجلی کے گرجنے پر ڈر کر اپنی ماؤں کے ساتھ چمٹ جاتے۔‏ وہ بہت طاقت‌ور اور ماہر جنگجو تھے۔‏ لہٰذا اُس بجلی کا گرجنا ویسا نہیں تھا جیسا عام طور پر بارش کے وقت ہوتا ہے۔‏ کیا اِس گرج کی آواز اِنتہائی بلند تھی؟‏ کیا یہ بجلی صاف آسمان سے اچانک گرجی تھی؟‏ یا کیا اِس کی آواز پہاڑوں سے گُونجتی ہوئی فلستیوں کے کانوں میں پڑی تھی؟‏ چاہے یہ بجلی کیسے بھی گرجی ہو،‏ اِس کی آواز سُن کر فلستیوں کے پیروں تلے زمین نکل گئی اور وہ خوف کے مارے تھرتھر کانپنے لگے۔‏ حالانکہ وہ بنی‌اِسرائیل پر حملہ کرنے آئے تھے لیکن اب وہ اُنہی کا شکار بن گئے۔‏ اِسرائیلی آدمی مصفاہ سے نکلے اور فلستیوں پر غالب آئے۔‏ اُنہوں نے میلوں تک اُن کا پیچھا کِیا اور یروشلیم کے جنوب مغرب میں واقع اُس جگہ تک پہنچ گئے جس کا نام بیت‌کر تھا۔‏—‏1-‏سمو 7:‏11‏۔‏

11 اِس جنگ نے بنی‌اِسرائیل کی تاریخ میں بہت اہم کردار ادا کِیا۔‏ جب تک سموئیل قاضی رہے،‏ فلستیوں نے پھر خدا کے بندوں پر حملہ کرنے کی جُرأت نہ کی۔‏ اِس کے علاوہ جن شہروں پر اُنہوں نے قبضہ جما لیا تھا،‏ وہ ایک ایک کر کے بنی‌اِسرائیل کے قبضے میں واپس آتے گئے۔‏—‏1-‏سمو 7:‏13،‏ 14‏۔‏

12.‏ سموئیل ’‏نیکی کرنے‘‏ کے قابل کیسے ہوئے؟‏

12 کئی سال بعد پولُس رسول نے سموئیل کا ذکر اُن قاضیوں اور نبیوں میں کِیا جنہوں نے ”‏نیکی کی۔‏“‏ (‏عبر 11:‏32،‏ 33‏)‏ واقعی سموئیل نے وہ کام کیے جو خدا کی مرضی کے مطابق تھے اور ایسا کرنے کے لیے دوسروں کی بھی حوصلہ‌افزائی کی۔‏ سموئیل نیکی کرنے کے قابل کیسے ہوئے؟‏ وہ صبر سے اُس وقت تک اِنتظار کرتے رہے جب تک یہوواہ نے کارروائی نہیں کی۔‏ وہ اُس صورت میں بھی وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرتے رہے جب اُنہیں اپنی توقعات پوری نہ ہونے کی وجہ سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔‏ اِس کے علاوہ اُنہوں نے یہوواہ کے کاموں کے لیے شکرگزاری ظاہر کی۔‏ جب بنی‌اِسرائیل نے مصفاہ میں فلستیوں کو شکست دی تو سموئیل نے وہاں ایک پتھر نصب کِیا جو اِس بات کی یادگار تھا کہ یہوواہ نے اپنے بندوں کی مدد کی ہے۔‏—‏1-‏سمو 7:‏12‏۔‏

13.‏ ‏(‏الف)‏ اگر ہم سموئیل کی مثال پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر کون سی خوبیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ کے خیال میں ہمیں کب اپنے اندر سموئیل جیسی خوبیاں پیدا کرنی چاہئیں؟‏

13 کیا آپ کے دل میں ’‏نیکی کرنے‘‏ کی خواہش ہے؟‏ اگر ہاں تو اچھا ہوگا کہ آپ سموئیل کی طرح اپنے اندر صبر،‏ خاکساری اور شکرگزاری کا جذبہ پیدا کریں۔‏ ‏(‏1-‏پطرس 5:‏6 کو پڑھیں۔‏)‏ بِلاشُبہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اندر یہ خوبیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‏ چونکہ سموئیل نے بچپن سے ہی یہ خوبیاں ظاہر کیں اِس لیے وہ بعد میں آنے والی زیادہ سنگین مشکلات اور مایوسیوں کا سامنا کر پائے۔‏

‏”‏تیرے بیٹے تیری راہ پر نہیں چلتے“‏

14،‏ 15.‏ ‏(‏الف)‏ جب سموئیل بوڑھے ہو گئے تو اُنہیں کس مایوسی کا سامنا کرنا پڑا؟‏ (‏ب)‏ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ سموئیل،‏ عیلی کی طرح ایک بُرے باپ نہیں تھے؟‏

14 بائبل میں اِس کے بعد جب سموئیل کا ذکر ملتا ہے تو وہ بوڑھے ہو چُکے تھے۔‏ اُس وقت سموئیل کے دو جوان بیٹے تھے جن کے نام یوئیل اور ابیاہ تھے۔‏ سموئیل نے اُنہیں یہ ذمےداری دی تھی کہ وہ قاضی کے طور پر خدمت کرنے میں اُن کا ہاتھ بٹائیں۔‏ لیکن اُنہوں نے اپنی ذمےداری کو صحیح طرح نہیں نبھایا۔‏ سموئیل تو ایک ایمان‌دار اور نیک شخص تھے لیکن اُن کے بیٹے خودغرض نکلے۔‏ وہ لوگوں کا اِنصاف کرنے کی بجائے اُن سے رشوت لیتے تھے۔‏—‏1-‏سمو 8:‏1-‏3‏۔‏

15 ایک دن اِسرائیلی قوم کے بزرگ،‏ عمررسیدہ سموئیل کے پاس آئے اور اُن سے یہ شکایت کرنے لگے:‏ ”‏تیرے بیٹے تیری راہ پر نہیں چلتے۔‏“‏ (‏1-‏سمو 8:‏4،‏ 5‏)‏ کیا سموئیل کو اپنے بیٹوں کی حرکتوں کی خبر تھی؟‏ بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ سموئیل کو اِس معاملے کا علم تھا۔‏ عیلی تو ایک بُرے باپ ثابت ہوئے لیکن سموئیل کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا۔‏ یہوواہ نے عیلی کو سزا دی کیونکہ اُنہوں نے اپنے بیٹوں کی مناسب اِصلاح نہیں کی اور یہوواہ سے زیادہ اپنے بیٹوں کی عزت کی۔‏ (‏1-‏سمو 2:‏27-‏29‏)‏ لیکن یہوواہ کو اپنے وفادار بندے سموئیل کو ایسی کوئی سزا دینے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔‏

جب سموئیل کے بیٹوں نے اُنہیں مایوس کر دیا تو اُنہوں نے اِس تکلیف کا سامنا کیسے کِیا؟‏

16.‏ ‏(‏الف)‏ جن والدین کے بچے اُن سے بغاوت کر دیتے ہیں،‏ اُنہیں کیسے احساسات سے گزرنا پڑتا ہے؟‏ (‏ب)‏ سموئیل کی مثال پر غور کرنے سے والدین کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟‏

16 بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ جب سموئیل کو اپنے بیٹوں کی بُری حرکتوں کا پتہ چلا تو اُنہیں کتنی شرمندگی،‏ تکلیف اور مایوسی کا سامنا ہوا۔‏ مگر آج‌کل بہت سے والدین یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اُس وقت سموئیل کے کیا احساسات ہوں گے۔‏ اِس بُری دُنیا میں والدین کے خلاف بغاوت اور اِصلاح ملنے پر سرکشی عام بات ہے۔‏ ‏(‏2-‏تیمُتھیُس 3:‏1-‏5 کو پڑھیں۔‏)‏ جن والدین کے بچے نافرمان بن گئے ہیں،‏ وہ سموئیل کی مثال پر غور کرنے سے تسلی پا سکتے ہیں اور اُن سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ حالانکہ اُن کے بیٹوں نے خدا کے حکموں کی خلاف‌ورزی کی لیکن سموئیل نے اپنے ایمان کو ذرا بھی کمزور نہ پڑنے دیا۔‏ والدین!‏ یاد رکھیں کہ اگر آپ کے بچے اِس حد تک آپ کے نافرمان ہو جاتے ہیں کہ آپ کی کسی بات یا اِصلاح کو قبول نہیں کرتے تو بھی آپ کی مثال میں اِتنی طاقت ہے کہ یہ اُن کے دلوں پر گہرا اثر ڈال سکتی ہے۔‏ اور سب سے بڑھ کر یہ کبھی نہ بھولیں کہ آپ سموئیل کی طرح اپنے آسمانی باپ یہوواہ کا سر فخر سے بلند کر سکتے ہیں۔‏

‏”‏تُو کسی کو ہمارا بادشاہ مقرر کر دے“‏

17.‏ بنی‌اِسرائیل کے بزرگوں نے سموئیل سے کیا مطالبہ کِیا اور اِسے سُن کر سموئیل کو کیسا لگا؟‏

17 سموئیل کے بیٹوں کو اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ اُن کے لالچ اور خودغرضی کا کتنا سنگین نتیجہ نکلے گا۔‏ بنی‌اِسرائیل کے بزرگوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے سموئیل سے کہا:‏ ”‏اب تُو کسی کو ہمارا بادشاہ مقرر کر دے جو اَور قوموں کی طرح ہماری عدالت کرے۔‏“‏ لوگ چاہتے تھے کہ دوسری قوموں کی طرح اُن کا بھی کوئی بادشاہ ہو اور سموئیل کی بجائے وہ اُن کے معاملوں کا فیصلہ کِیا کرے۔‏ لیکن سموئیل کئی سال سے اِسرائیل میں یہوواہ کی طرف سے قاضی کے طور پر خدمت کر رہے تھے۔‏ اِس لیے اُن لوگوں کی ”‏یہ بات سموئیلؔ کو بُری لگی۔‏“‏ (‏1-‏سمو 8:‏5،‏ 6‏)‏ سموئیل کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ لوگ اُنہیں اپنے قاضی کے طور پر رد کر رہے ہیں۔‏

18.‏ یہوواہ نے سموئیل کو تسلی دینے کے ساتھ ساتھ یہ کیسے ظاہر کِیا کہ بنی‌اِسرائیل نے بہت سنگین گُناہ کِیا ہے؟‏

18 پھر جب سموئیل نے اِس بات کا ذکر یہوواہ کے سامنے کِیا تو یہوواہ نے کہا:‏ ”‏جو کچھ یہ لوگ تجھ سے کہتے ہیں تُو اُس کو مان کیونکہ اُنہوں نے تیری نہیں بلکہ میری حقارت کی ہے کہ مَیں اُن کا بادشاہ نہ رہوں۔‏“‏ یہ بات کہنے سے یہوواہ نے سموئیل کو تسلی دی لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ظاہر کِیا کہ بنی‌اِسرائیل نے اُس کی کتنی توہین کی ہے۔‏ یہوواہ نے سموئیل سے کہا کہ وہ بنی‌اِسرائیل کو اِس بات سے آگاہ کریں کہ اپنا مطالبہ منوانے کے لیے اُنہیں کتنی بھاری قیمت چُکانی پڑے گی۔‏ جب سموئیل نے یہوواہ کا پیغام اُن لوگوں تک پہنچایا تو اُنہوں نے اِصرار کِیا:‏ ”‏نہیں ہم تو بادشاہ چاہتے ہیں جو ہمارے اُوپر ہو۔‏“‏ سموئیل نے ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی اپنے خدا کا کہنا مانا اور اُس شخص کو بادشاہ کے طور پر مسح کِیا جسے یہوواہ نے چُنا تھا۔‏—‏1-‏سمو 8:‏7-‏19‏۔‏

19،‏ 20.‏ ‏(‏الف)‏ سموئیل نے یہ کیسے ظاہر کِیا کہ اُنہوں نے خوشی سے ساؤل کو مسح کِیا ہے؟‏ (‏ب)‏ کیا ساؤل کو مسح کرنے کے بعد سموئیل نے لوگوں کی مدد کرنی بند کر دی؟‏ وضاحت کریں۔‏

19 کیا سموئیل نے مجبوری اور بےدلی سے خدا کی ہدایت پر عمل کِیا؟‏ کیا اُنہوں نے دل میں ناراضگی پال لی اور مایوس ہو کر بیٹھ گئے؟‏ زیادہ‌تر لوگ ایسی صورتحال میں شاید ایسا ہی ردِعمل دِکھائیں۔‏ لیکن سموئیل ایسے نہیں تھے۔‏ اُنہوں نے ساؤل کو مسح کِیا اور اُنہیں یہ بتایا کہ یہوواہ نے خود اُنہیں چُنا ہے۔‏ پھر اُنہوں نے ساؤل کو چُوما اور اِس طرح یہ ظاہر کِیا کہ وہ اُن کو بادشاہ کے طور پر قبول کرتے ہیں اور اُن کے اِختیار کو تسلیم کرتے ہیں۔‏ اِس کے بعد اُنہوں نے لوگوں سے کہا:‏ ”‏تُم اُسے دیکھتے ہو جسے [‏یہوواہ]‏ نے چُن لیا کہ اُس کی مانند سب لوگوں میں ایک بھی نہیں؟‏“‏—‏1-‏سمو 10:‏1،‏ 24‏۔‏

20 سموئیل نے اُس شخص کی خامیوں پر نہیں بلکہ خوبیوں پر توجہ دی جسے یہوواہ نے چُنا تھا۔‏ جہاں تک اُن کی اپنی بات تھی،‏ وہ ایسے لوگوں کو خوش کرنے کے چکر میں نہیں پڑے جو ہر وقت ڈانوانڈول رہتے تھے۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے اپنا دھیان اِس چیز پر رکھا کہ وہ ساری عمر وفاداری سے خدا کی خدمت کرتے آئے ہیں۔‏ (‏1-‏سمو 12:‏1-‏4‏)‏ اِس کے علاوہ اُنہوں نے ایمان‌داری سے اپنی ذمےداری کو پورا کرتے ہوئے لوگوں کو سمجھایا کہ وہ کن باتوں کی وجہ سے خدا سے دُور ہونے کے خطرے میں ہیں۔‏ ساتھ ہی ساتھ سموئیل نے اُن کی یہ حوصلہ‌افزائی بھی کی کہ وہ یہوواہ کے وفادار رہیں۔‏ سموئیل کی باتوں نے لوگوں کے دلوں پر اثر کِیا اور اُنہوں نے سموئیل سے درخواست کی کہ وہ اُن کے لیے دُعا کریں۔‏ اِس پر سموئیل نے اُن لوگوں کو یہ خوب‌صورت جواب دیا:‏ ”‏خدا نہ کرے کہ [‏مَیں]‏ تمہارے لئے دُعا کرنے سے باز آ کر [‏یہوواہ]‏ کا گہنگار ٹھہروں بلکہ مَیں وہی راہ جو اچھی اور سیدھی ہے تُم کو بتاؤں گا۔‏“‏—‏1-‏سمو 12:‏21-‏24‏۔‏

سموئیل کی مثال سے ہم سیکھتے ہیں کہ ہمیں کبھی بھی اپنے دل میں حسد یا ناراضگی نہیں پالنی چاہیے۔‏

21.‏ آپ اُس وقت سموئیل کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں جب آپ کی بجائے کسی اَور کو کوئی شرف مل جاتا ہے؟‏

21 کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کی بجائے کسی اَور کو کوئی شرف یا ذمےداری مل گئی اور اِس وجہ سے آپ مایوس ہو گئے؟‏ سموئیل کی مثال سے ہم سیکھتے ہیں کہ ہمیں کبھی بھی اپنے دل میں حسد یا ناراضگی نہیں پالنی چاہیے۔‏ ‏(‏امثال 14:‏30 کو پڑھیں۔‏)‏ خدا کے پاس اپنے سب بندوں کے لیے کوئی نہ کوئی ایسا کام ہے جسے کرنے سے وہ خوشی حاصل کر سکتے ہیں۔‏

‏”‏تُو کب تک ساؔؤل کے لئے غم کھاتا رہے گا؟‏“‏

22.‏ ساؤل شروع میں کیسے اِنسان تھے؟‏

22 سموئیل کو ساؤل میں خوبیاں نظر آئیں اور ساؤل واقعی متاثرکُن شخصیت کے مالک تھے۔‏ وہ دلیر تھے،‏ اُن میں بہت سی صلاحیتیں تھیں اور اُن کا قدکاٹھ اچھا خاصا تھا۔‏ اِس کے باوجود وہ بہت خاکسار اور سادہ اِنسان تھے۔‏ (‏1-‏سمو 10:‏22،‏ 23،‏ 27‏)‏ اِن سب باتوں کے ساتھ ساتھ اُن کے پاس ایک ایسی نعمت تھی جو خدا نے سب اِنسانوں کو بخشی ہے۔‏ وہ اپنی مرضی سے فیصلے کر سکتے تھے۔‏ (‏اِست 30:‏19‏)‏ کیا اُنہوں نے اِس نعمت کا صحیح اِستعمال کِیا؟‏

23.‏ ساؤل میں کون سی خوبی نہ رہی اور اُنہوں نے کیسے ظاہر کِیا کہ اُن کے دل میں غرور سما گیا ہے؟‏

23 افسوس کی بات ہے کہ جب لوگوں کو اِختیار ملتا ہے تو اکثر اُن کی ساری خاکساری ختم ہو جاتی ہے اور وہ غرور سے پھول جاتے ہیں۔‏ ساؤل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔‏ جو شخص پہلے فروتنی کی مثال تھا،‏ اب اُس کی آنکھیں ماتھے پر لگ گئی تھیں۔‏ ساؤل نے یہوواہ کے حکموں کی خلاف‌ورزی کی جو اُس نے سموئیل کے ذریعے اُن کو دیے تھے۔‏ ایک مرتبہ تو ساؤل نے اِس حد تک بےصبری ظاہر کی کہ خدا کے حضور وہ قربانی چڑھا دی جو سموئیل نے چڑھانی تھی۔‏ اِس پر سموئیل نے سختی سے اُن کی اِصلاح کی اور اُنہیں بتایا کہ اُن کے خاندان سے حکومت لے لی جائے گی۔‏ سموئیل کی اِصلاح کو قبول کرنے کی بجائے ساؤل ہٹ‌دھرمی سے خدا کی نافرمانی کرتے رہے۔‏—‏1-‏سمو 13:‏8،‏ 9،‏ 13،‏ 14‏۔‏

24.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ نے ساؤل کو جو ہدایات دیں،‏ اُنہوں نے اُن کی نافرمانی کیسے کی؟‏ (‏ب)‏ ساؤل نے اِصلاح ملنے پر کیسا ردِعمل دِکھایا اور یہوواہ نے کیا فیصلہ سنایا؟‏

24 یہوواہ نے سموئیل کے ذریعے ساؤل سے کہا کہ وہ عمالیقیوں سے جنگ کریں۔‏ یہوواہ نے ساؤل کو جو ہدایات دیں،‏ اُن میں یہ شامل تھا کہ وہ عمالیقیوں کے بادشاہ اجاج کو مار ڈالیں۔‏ لیکن ساؤل نے نہ صرف اجاج کی جان بخش دی بلکہ لُوٹ کے اُس مال میں سے بھی اچھی اچھی چیزیں رکھ لیں جسے نیست کرنے کا حکم خدا نے دیا تھا۔‏ جب سموئیل،‏ ساؤل کی اِصلاح کرنے آئے تو اُنہوں نے دیکھا کہ ساؤل کتنا بدل چُکے ہیں۔‏ خاکساری سے اِصلاح کو قبول کرنے کی بجائے اُنہوں نے عُذر پیش کیے،‏ اپنی صفائیاں دینی شروع کر دیں اور سارا اِلزام لوگوں پر ڈال دیا۔‏ ساؤل نے سموئیل سے کہا کہ اُنہوں نے لُوٹ کے مال میں سے کچھ اِس لیے رکھ لیا تھا تاکہ وہ یہوواہ کے حضور اِس کی قربانی چڑھا سکیں۔‏ اِس پر سموئیل نے اُن سے کہا:‏ ”‏دیکھ فرمانبرداری قربانی سے .‏ .‏ .‏ بہتر ہے۔‏“‏ سموئیل نے بڑی دلیری سے ساؤل کو یہوواہ کا یہ فیصلہ سنایا کہ اُنہیں بادشاہ کے عہدے سے ہٹا دیا جائے گا اور اُن کی جگہ اُن سے بہتر شخص کو بادشاہ مقرر کِیا جائے گا۔‏ *‏—‏1-‏سمو 15:‏1-‏33‏۔‏

25،‏ 26.‏ ‏(‏الف)‏ سموئیل،‏ ساؤل کے لیے افسوس کیوں کرتے رہے اور یہوواہ نے سموئیل کی درستی کیسے کی؟‏ (‏ب)‏ جب سموئیل،‏ یسی کے گھر گئے تو یہوواہ نے سموئیل کو کیا بات سمجھائی؟‏

25 ساؤل کی نافرمانی دیکھ کر سموئیل کو دلی صدمہ پہنچا۔‏ اُنہوں نے پوری رات اِس معاملے پر خدا سے دُعا کی اور اپنے دُکھ کو بیان کِیا۔‏ یہاں تک کہ وہ ’‏ساؤل کے لیے غم کھاتے رہے۔‏‘‏ سموئیل کو ساؤل سے بڑی اُمیدیں تھیں لیکن ساؤل نے اُن کی ساری اُمیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔‏ جس ساؤل کو وہ جانتے تھے،‏ وہ اب بدل چُکے تھے۔‏ اُن کے اندر پہلے جیسی خوبیاں نہیں رہی تھیں اور وہ یہوواہ سے مُنہ موڑ چُکے تھے۔‏ سموئیل نے ٹھان لیا کہ وہ پھر کبھی ساؤل کی شکل نہیں دیکھیں گے۔‏ بعد میں خدا نے بڑے پیار سے سموئیل کی درستی کی اور اُن سے کہا:‏ ”‏تُو کب تک ساؔؤل کے لئے غم کھاتا رہے گا جس حال کہ مَیں نے اُسے بنی‌اِسرائیل کا بادشاہ ہونے سے رد کر دیا ہے؟‏ تُو اپنے سینگ میں تیل بھر اور جا۔‏ مَیں تجھے بیت‌لحمی یسیؔ کے پاس بھیجتا ہوں کیونکہ مَیں نے اُس کے بیٹوں میں سے ایک کو اپنی طرف سے بادشاہ چُنا ہے۔‏“‏—‏1-‏سمو 15:‏34،‏ 35؛‏ 16:‏1‏۔‏

26 اگر یہوواہ کا کوئی بندہ اُس کا وفادار نہیں رہتا تو اُس کا مقصد رُک نہیں جاتا۔‏ وہ اپنی مرضی کو پورا کرنے کے لیے کسی اَور شخص کو چُن لیتا ہے۔‏ ساؤل کی نافرمانی پر بھی اُس نے ایسا ہی کِیا۔‏ لہٰذا سموئیل نے ساؤل کے لیے افسوس کرنا چھوڑ دیا اور خدا کی ہدایت کے مطابق بیت‌لحم میں یسی کے گھر گئے۔‏ وہاں وہ یسی کے بیٹوں سے ملے جو لمبے چوڑے اور خوب‌صورت تھے۔‏ لیکن یہوواہ نے شروع میں ہی سموئیل کو سمجھا دیا کہ وہ اُن کی شکل‌وصورت کو دیکھ کر متاثر نہ ہوں۔‏ ‏(‏1-‏سموئیل 16:‏7 کو پڑھیں۔‏)‏ آخرکار سموئیل کی ملاقات یسی کے سب سے چھوٹے بیٹے سے ہوئی جس کا نام داؤد تھا۔‏ داؤد ہی وہ شخص تھے جنہیں خدا نے اگلے بادشاہ کے طور پر چُنا تھا۔‏

سموئیل نے دیکھا کہ خدا کسی بھی ایسی مشکل کو دُور کر سکتا ہے جو ہمیں مایوس کر دیتی ہے،‏ یہاں تک کہ وہ مایوس‌کُن حالات کو خوش‌کُن حالات میں بدل سکتا ہے۔‏

27.‏ ‏(‏الف)‏ سموئیل کا ایمان کیسے مضبوط ہوتا گیا؟‏ (‏ب)‏ سموئیل کی مثال پر غور کرنے سے آپ کو کیا ترغیب ملتی ہے؟‏

27 اپنی زندگی کے آخری سالوں میں سموئیل کو اِس بات کے اَور واضح ثبوت ملے کہ یہوواہ نے ساؤل کی جگہ داؤد کو بادشاہ بنا کر بالکل صحیح فیصلہ کِیا تھا۔‏ ساؤل یہوواہ سے برگشتہ ہو گئے۔‏ اُن کے دل میں داؤد کے لیے اِس حد تک نفرت پیدا ہو گئی کہ وہ بار بار اُنہیں قتل کرنے کی کوشش کرنے لگے۔‏ اِس کے برعکس داؤد نے دلیری،‏ وفاداری اور ایمان جیسی عمدہ خوبیاں ظاہر کیں۔‏ جب سموئیل کی زندگی ختم ہونے والی تھی تو خدا پر اُن کا ایمان اَور بڑھ گیا۔‏ اُنہوں نے دیکھا کہ خدا کسی بھی ایسی مشکل کو دُور کر سکتا ہے جو ہمیں مایوس کر دیتی ہے،‏ یہاں تک کہ وہ مایوس‌کُن حالات کو خوش‌کُن حالات میں بدل سکتا ہے۔‏ پھر سموئیل فوت ہو گئے۔‏ اُس وقت اُن کی عمر 100 سال کے لگ بھگ تھی۔‏ اُن کی موت پر پوری اِسرائیلی قوم نے سوگ منایا۔‏ حالانکہ سموئیل کی وفات کو صدیاں بیت چُکی ہیں لیکن اُنہوں نے ایسی روشن مثال قائم کی ہے جس سے ہم آج بھی رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔‏ لہٰذا ہم سب کو خود سے پوچھنا چاہیے:‏ ”‏کیا مَیں سموئیل جیسا ایمان ظاہر کروں گا؟‏“‏

^ پیراگراف 24 سموئیل نے خود اجاج کو قتل کِیا۔‏ نہ تو اجاج اور نہ ہی اُس کا خاندان رحم کا مستحق تھا۔‏ سینکڑوں سال بعد اجاج کی نسل سے آنے والے ”‏ہاؔمان اجاجی“‏ نے خدا کے بندوں کا نام‌ونشان مٹانے کی کوشش کی۔‏—‏آستر 8:‏3‏؛‏ اِس کتاب کے باب نمبر 15 اور 16 کو دیکھیں۔‏