مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اِن جیسا ایمان پیدا کریں | مریم

وہ غم کی تلوار کے گھاؤ کو سہہ پائیں

وہ غم کی تلوار کے گھاؤ کو سہہ پائیں

ذرا اپنے ذہن میں اِس منظر کی تصویر بنائیں۔‏ مریم غم سے نڈھال ہو کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی ہیں۔‏ اُن کا درد بیان سے باہر ہے۔‏ اُن کے کانوں میں اپنے بیٹے کی وہ کراہ گونج رہی ہے جو وہ آخری سانسیں لیتے ہوئے بھر رہا تھا۔‏ حالانکہ دوپہر کا وقت ہے لیکن پھر بھی سارے ملک میں گھپ‌اندھیرا چھا گیا ہے۔‏ اچانک زمین زور سے لرزنے لگی ہے۔‏ (‏متی 27:‏45،‏ 51‏)‏ مریم کو شاید لگ رہا ہے جیسے یہوواہ خدا سب پر ظاہر کر دینا چاہتا ہے کہ وہ یسوع مسیح کی موت پر کتنا دُکھی ہے۔‏

جیسے جیسے گلگتا میں اندھیرا چھٹ رہا ہے،‏ مریم کے دل میں اپنے بیٹے کی موت کا غم بڑھتا جا رہا ہے۔‏ (‏یوحنا 19:‏17،‏ 25‏)‏ شاید اُن کے ذہن میں ساری پُرانی یادیں تازہ ہو رہی ہیں۔‏ شاید اُنہیں وہ واقعہ بھی یاد آ رہا ہے جو 33 سال پہلے ہوا تھا۔‏ اُس وقت وہ اور یوسف ننھے یسوع کو یروشلیم میں ہیکل میں لے کر گئے تھے۔‏ وہاں اُنہیں شمعون نامی ایک عمررسیدہ آدمی ملے تھے جنہوں نے خدا کے اِلہام سے پیش‌گوئی کی تھی کہ یسوع بہت بڑےبڑے کام کریں گے۔‏ ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب مریم کو لگے گا کہ جیسے اُن کی جان تلوار سے چھد گئی ہے۔‏ (‏لوقا 2:‏25-‏35‏)‏ اب وہ گھڑی آ گئی تھی جب مریم بالکل ایسا ہی محسوس کر رہی تھیں۔‏

اپنے بیٹے کی موت پر مریم کا غم سے کلیجا پھٹ گیا۔‏

کہتے ہیں کہ اولاد کی موت سے بڑا غم کوئی نہیں ہوتا۔‏ موت ایک بہت خوف‌ناک دُشمن ہے جو ہم سب کو کسی نے کسی طرح زخم ضرور لگاتا ہے۔‏ (‏رومیوں 5:‏12؛‏ 1-‏کرنتھیوں 15:‏26‏)‏ لیکن کیا اِس زخم کے درد کو سہنا ممکن ہے؟‏ آئیں،‏ اِس سلسلے میں مریم کی زندگی کے اُن واقعات پر غور کریں جو یسوع مسیح کے مُنادی کا کام شروع کرنے سے لے کر اُن کی موت کے بعد تک پیش آئے۔‏ یوں ہمیں پتہ چلے گا کہ مریم کا ایمان کتنا مضبوط تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے بیٹے کی موت کا غم سہہ پائیں۔‏

‏”‏جو کچھ یہ تُم سے کہے وہ کرو“‏

آئیں،‏ دیکھتے ہیں کہ یسوع مسیح کی موت سے ساڑھے تین سال پہلے کیا ہوا۔‏ شہر ناصرت میں ہر طرف لوگ یوحنا بپتسمہ دینے والے اور اُن کے پیغام کے بارے میں بات کر رہے تھے۔‏ اِن باتوں کی وجہ سے مریم کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ایک بہت بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔‏ مریم دیکھ رہی تھیں کہ اُن کے بڑے بیٹے کی نظر میں یہ سب ایک خاص بات کا اِشارہ ہے۔‏ اب وقت آ گیا تھا کہ یسوع خدا کا پیغام پھیلانا شروع کریں۔‏ (‏متی 3:‏1،‏ 13‏)‏ اور اِس کے لیے اُنہیں اپنا گھر چھوڑ کر جانا تھا۔‏ یہ بات مریم اور اُن کے باقی بچوں کے لیے یقیناً بہت پریشانی کا باعث بنی ہوگی۔‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ اِس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔‏

ایسا لگتا ہے کہ اُس وقت تک مریم کے شوہر،‏ یوسف فوت ہو گئے تھے۔‏ اگر ایسا تھا تو مریم جانتی تھیں کہ کسی عزیز کی موت کا درد کیا ہوتا ہے۔‏ * غور کریں کہ لوگ یسوع کو صرف ”‏بڑھئی کا بیٹا“‏ نہیں بلکہ ”‏بڑھئی“‏ بھی کہتے تھے۔‏ اِس وجہ سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شاید یسوع نے اپنے باپ کا کاروبار سنبھال لیا تھا اور اپنے گھرانے کی ضروریات پوری کر رہے تھے جس میں اُن کے کم‌ازکم چھ چھوٹے بہن‌بھائی بھی شامل تھے۔‏ (‏متی 13:‏55،‏ 56؛‏ مرقس 6:‏3‏)‏ یسوع کے بعد شاید یعقوب اپنے بہن‌بھائیوں میں بڑے تھے۔‏ اگر یسوع نے اُن کو بڑھئی کے کام میں تربیت دی بھی تھی تو بھی بڑے بیٹے کا گھر سے چلے جانا باقی گھر والوں کے لیے آسان نہیں تھا۔‏ مریم کے کندھوں پر پہلے ہی کافی ذمےداریاں تھیں۔‏ لیکن کیا وہ اِس بات سے پریشان ہوئیں کہ یسوع کے گھر سے چلے جانے کے بعد کیا ہوگا؟‏ ہو سکتا ہے کہ وہ پریشان ہوئی ہوں۔‏ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ مریم نے اُس وقت کیسا ردِعمل دِکھایا جب یسوع ناصری،‏ مسیح بن گئے؟‏ اِس سلسلے میں آئیں،‏ خدا کے کلام میں درج ایک بیان پر غور کرتے ہیں۔‏—‏یوحنا 2:‏1-‏12‏۔‏

یسوع نے یوحنا سے بپتسمہ لیا اور یوں وہ مسیح بن گئے۔‏ (‏لوقا 3:‏21،‏ 22‏)‏ پھر اُنہوں نے اپنے شاگردوں کو چننا شروع کِیا۔‏ حالانکہ یسوع مسیح بہت مصروف تھے لیکن پھر بھی اُنہوں نے اپنے دوستوں اور گھر والوں کے لیے وقت نکالا۔‏ وہ اپنی ماں،‏ شاگردوں اور بھائیوں کے ساتھ شہر قانا میں ایک شادی میں گئے۔‏ قانا،‏ شہر ناصرت سے 13 کلومیٹر (‏تقریباً 8 میل)‏ دُور پہاڑی کی ایک چوٹی پر واقع تھا۔‏ شادی کی تقریب کے دوران مریم نے دیکھا کہ دُلہا دُلہن کے گھر والے بڑی پریشانی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں۔‏ دراصل ہوا یہ تھا کہ اُن کے پاس مے ختم ہو گئی تھی۔‏ اُن کی ثقافت کے مطابق اگر میزبان مہمان‌نوازی میں کوئی کسر چھوڑ دیتا تو اُسے بہت شرمندگی اُٹھانی پڑتی۔‏ اور شادی کے موقعے پر ایسا ہونا تو میزبان کے لیے بڑی بدنامی کی بات ہوتی تھی۔‏ دُلہا دُلہن کے گھر والوں کو پریشانی کے عالم میں دیکھ کر مریم بھی پریشان ہو گئیں اور وہ جلدی سے یسوع مسیح کے پاس گئیں۔‏

مریم نے اپنے بیٹے سے کہا:‏ ”‏اُن کے پاس مے نہیں رہی۔‏“‏ مریم نے یسوع مسیح سے یہ بات کیوں کہی؟‏ اِس بارے میں ہم صرف اندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔‏ مریم جانتی تھیں کہ اُن کا بیٹا ایک اہم آدمی ہے اور وہ بہت بڑےبڑے کام کرے گا۔‏ شاید وہ چاہتی تھیں کہ یسوع مسیح ابھی سے اِن کاموں کی شروعات کریں۔‏ دیکھا جائے تو ایک طرح سے وہ یسوع مسیح کو کہہ رہی تھیں کہ ”‏بیٹا،‏ اِس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کچھ کرو۔‏“‏ لیکن یسوع مسیح کا جواب سُن کر وہ یقیناً حیران ہو گئی ہوں گی۔‏ یسوع مسیح نے اُن سے کہا:‏ ”‏اَے عورت مجھے تجھ سے کیا کام ہے؟‏“‏ اِن الفاظ کو پڑھ کر شاید کچھ لوگوں کو لگے کہ یسوع مسیح اپنی ماں کے ساتھ بےادبی سے بات کر رہے تھے۔‏ مگر یہ سچ نہیں ہے۔‏ بِلاشُبہ یہ بات کہنے سے یسوع مسیح نے اپنی ماں کی اِصلاح کی تھی لیکن اُنہوں نے بڑے پیار سے ایسا کِیا تھا۔‏ یسوع مسیح مریم کو یاد دِلا رہے تھے کہ اُنہیں یسوع مسیح کو یہ بتانے کا اِختیار نہیں کہ اُنہیں خدا کی خدمت میں کیا کرنا چاہیے بلکہ یہ اِختیار صرف خدا کے پاس ہے۔‏

چونکہ مریم ایک سمجھ‌دار اور خاکسار عورت تھیں اِس لیے اُنہوں نے اپنے بیٹے کی اِصلاح کو قبول کِیا۔‏ مریم یہ بات سمجھ گئی تھیں کہ اب اُن کے پاس اپنے بیٹے کی رہنمائی کرنے کا اِختیار نہیں ہے بلکہ اب اُنہیں اور دوسروں کو اُس کی رہنمائی میں چلنا چاہیے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے خادموں سے کہا:‏ ”‏جو کچھ یہ تُم سے کہے وہ کرو۔‏“‏ اِس کے بعد یسوع مسیح نے جو کِیا،‏ اُس سے ظاہر ہوا کہ اُنہیں بھی اپنی ماں کی طرح دُلہا دُلہن کی صورتحال کا احساس ہے۔‏ اُنہوں نے پانی کو بہت اچھی مے میں بدل دیا۔‏ یہ اُن کا پہلا معجزہ تھا۔‏ اِس معجزے کا دوسروں پر کیا اثر ہوا؟‏ یسوع مسیح کے ’‏شاگرد اُن پر ایمان لے آئے۔‏‘‏ مریم بھی یسوع مسیح پر ایمان لے آئیں۔‏ اب مریم کی نظر میں یسوع صرف اُن کا بیٹا نہیں بلکہ اُن کا مالک اور نجات دِلانے والا بھی تھا۔‏

آج‌کل والدین مریم سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ سچ ہے کہ کسی بھی ماں‌باپ نے ایسے بچے کی پرورش نہیں کی جو یسوع مسیح کی طرح بےعیب ہو۔‏ لیکن چاہے بچہ بےعیب ہو یا عیب‌دار،‏ جب وہ جوان ہو جاتا ہے تو ماں‌باپ کو کچھ ایسی تبدیلیوں کا سامنا ہو سکتا ہے جو اُن کے لیے مشکل کا باعث بن سکتی ہیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ ماں‌باپ اپنے جوان بچے کے ساتھ بھی چھوٹے بچے کی طرح پیش آئیں۔‏ لیکن شاید جوان بچے کے ساتھ اِس طرح پیش آنا مناسب نہ ہو۔‏ (‏1-‏کرنتھیوں 13:‏11‏)‏ تو پھر والدین کو اپنے جوان بچوں سے کیسے پیش آنا چاہیے؟‏ ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں پر ظاہر کریں کہ اُنہیں یقین ہے کہ اُن کے بچے پاک کلام کی تعلیمات پر ہمیشہ عمل کرتے رہیں گے اور یوں یہوواہ خدا کی برکتیں حاصل کریں گے۔‏ جب والدین اپنے بچوں پر اِعتماد ظاہر کرتے ہیں تو اِس کا بچوں پر بہت اچھا اثر پڑ سکتا ہے۔‏ مریم نے آگے چل کر بھی یسوع مسیح کا پورا ساتھ دیا جس کے لیے یسوع مسیح یقیناً اُن کے بہت شکرگزار ہوئے ہوں گے۔‏

‏”‏اُس کے بھائی .‏ .‏ .‏ اُس پر ایمان نہ لائے تھے“‏

اِنجیلوں سے پتہ چلتا ہے کہ یسوع مسیح نے ساڑھے تین سال تک مُنادی کا کام کِیا لیکن اِس عرصے کے دوران مریم نے کیا کِیا،‏ اُس کا اِتنا ذکر نہیں ملتا۔‏ اِس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟‏ یاد رکھیں کہ مریم شاید بیوہ تھیں اور اکیلے اپنے بچوں کی پرورش کر رہی تھیں۔‏ اِس لیے جب یسوع مسیح مُنادی کرنے کے لیے جگہ‌جگہ جاتے تھے تو مریم اُن کے ساتھ نہیں جا سکتی تھیں۔‏ (‏1-‏تیمتھیس 5:‏8‏)‏ لیکن وہ اُن باتوں پر ضرور سوچ‌بچار کرتی ہوں گی جو اُنہوں نے مسیح کے بارے میں سیکھی تھیں۔‏ اِس کے علاوہ وہ مقامی عبادت‌گاہ میں بھی جایا کرتی تھیں جو کہ اُن کے گھرانے کا دستور تھا۔‏—‏لوقا 2:‏19،‏ 51؛‏ 4:‏16‏۔‏

ممکن ہے کہ جب یسوع مسیح ناصرت کی عبادت‌گاہ میں تعلیم دے رہے تھے تو مریم بھی وہاں موجود ہوں۔‏ ذرا سوچیں کہ جب یسوع نے مسیح کے بارے میں ایک پیش‌گوئی پڑھ کر بتایا ہوگا کہ یہ اُن پر پوری ہوتی ہے تو مریم کا دل جوش سے کتنا بھر گیا ہوگا۔‏ لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ دیکھ کر پریشان بھی ہوئی ہوں گی کہ اُن کے شہر کے لوگ اُن کے بیٹے پر ایمان نہیں لائے۔‏ یہاں تک کہ اُنہوں نے یسوع مسیح کو جان سے مارنے کی کوشش بھی کی۔‏—‏لوقا 4:‏17-‏30‏۔‏

وہ یہ دیکھ کر بھی پریشان ہوئی ہوں گی کہ اُن کے اپنے بیٹے بھی یسوع مسیح  پر ایمان نہیں لائے۔‏ پاک کلام میں لکھا ہے کہ ”‏[‏یسوع مسیح]‏ کے بھائی بھی اُس پر ایمان نہ لائے تھے۔‏“‏ (‏یوحنا 7:‏5‏)‏ کیا یسوع مسیح کی بہنیں اُن پر ایمان لائیں؟‏ اِس بارے میں پاک کلام میں کچھ نہیں بتایا گیا۔‏ * مریم کے لیے یہ بات یقیناً بڑی تکلیف‌دہ ہوگی کہ اُن کے گھر والے اُن سے فرق مذہبی نظریہ رکھتے ہیں۔‏ بِلاشُبہ مریم کو خدا کی سچائیوں پر قائم رہنے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے گھر والوں پر دباؤ ڈالے بغیر اُنہیں سچی تعلیم کی طرف مائل کرنے کے لیے بہت کوشش کرنی پڑی ہوگی۔‏

ایک موقعے پر یسوع مسیح کے کچھ رشتےدار اُن کو پکڑنے گئے۔‏ ہو سکتا ہے کہ اِن رشتےداروں میں یسوع مسیح کے بھائی بھی شامل ہوں۔‏ یہ سب یسوع مسیح کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ ”‏وہ دیوانہ ہو گیا ہے۔‏“‏ (‏مرقس 3:‏21،‏ 31‏،‏ کیتھولک ترجمہ‏)‏ مریم بھی اِن کے ساتھ گئی تھیں۔‏ لیکن وہ یہ سوچ کر گئی ہوں گی کہ شاید اُن کے بیٹے کچھ ایسی بات سیکھیں جس سے وہ یسوع مسیح پر ایمان لے آئیں۔‏ کیا وہ ایمان لے آئے؟‏ حالانکہ یسوع مسیح بہت حیرت‌انگیز کام کرتے رہے اور لوگوں کو خدا کے بارے میں سچائیاں سکھاتے رہے لیکن اُن کے بھائی پھر بھی اُن پر ایمان نہ لائے۔‏ کیا مریم بےدل ہو کر یہ سوچنے لگیں کہ ”‏یسوع مسیح پر ایمان لانے کے لیے بھلا اِن کو اَور کیا چاہیے؟‏“‏

کیا آپ کے گھر والے بھی آپ کے ہم‌ایمان نہیں ہیں؟‏ اگر ایسا ہے تو آپ مریم سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ اُنہوں نے یہ سوچ کر ہمت نہیں ہاری کہ اُن کے رشتےدار کبھی یسوع مسیح پر ایمان نہیں لائیں گے۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ وہ اپنے ایمان کی وجہ سے بہت خوش ہیں اور اُنہیں ذہنی سکون حاصل ہے۔‏ لیکن ایسا کرنے کے ساتھ‌ساتھ وہ یسوع مسیح کا ساتھ بھی دیتی رہیں۔‏ کیا اُنہیں یسوع مسیح کی یاد آتی تھی؟‏ کیا کبھی‌کبھار اُنہوں نے یہ چاہا کہ کاش یسوع مسیح اُن کے ساتھ اور اپنے بہن‌بھائیوں کے ساتھ گھر پر ہی رہتے؟‏ اگر اُنہوں نے کبھی ایسا محسوس کِیا بھی تھا تو اُنہوں نے اِن احساسات کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔‏ اُن کی نظر میں یسوع مسیح کا ساتھ دینا بڑے شرف کی بات تھی۔‏ کیا مریم کی طرح آپ بھی اپنے بچوں کی مدد کر سکتے ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی میں خدا کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے رہیں؟‏

‏”‏تیری جان .‏ .‏ .‏ تلوار سے چھد جائے گی“‏

کیا مریم کو یسوع مسیح پر ایمان رکھنے کا اجر ملا؟‏ یہوواہ خدا اُن لوگوں کو اجر ضرور دیتا ہے جو ایمان رکھتے ہیں اور اُس نے مریم کو بھی اجر دیا۔‏ (‏عبرانیوں 11:‏6‏)‏ ذرا سوچیں کہ جب مریم اپنے بیٹے کی تعلیمات سنتی ہوں گی یا کسی اَور کے مُنہ سے اِن کا ذکر سنتی ہوں گی تو وہ کیسا محسوس کرتی ہوں گی؟‏

یسوع مسیح کی بہت سی مثالوں سے اُن کے ماں‌باپ کی تربیت کی جھلک نظر آتی ہے۔‏

جب مریم اُن مثالوں کو سنتی ہوں گی جو اُن کا بیٹا تعلیم دیتے وقت اِستعمال کرتا تھا تو اُن کو محسوس ہوا ہوگا کہ یہ باتیں اُن کے بیٹے نے بچپن میں دیکھی تھیں۔‏ مثال کے طور پر یسوع مسیح نے ایک ایسی عورت کی مثال دی جو اپنے کھوئے ہوئے درہم کو تلاش کرنے کے لیے جھاڑو لگاتی ہے۔‏ اُنہوں نے ایک ایسی عورت کی مثال بھی دی جو چکی پیستی ہے۔‏ اِس کے علاوہ اُنہوں نے ایک ایسے شخص کی مثال دی جو چراغ جلا کر چراغ‌دان میں رکھتا ہے۔‏ یہ مثالیں سُن کر مریم کو یاد آیا ہوگا کہ یسوع مسیح بچپن میں اُن کو یہ سب کام کرتے دیکھتے تھے۔‏ (‏لوقا 11:‏33؛‏ 15:‏8،‏ 9؛‏ 17:‏35‏)‏ جب یسوع مسیح نے کہا کہ ”‏میرا جؤا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا“‏ تو مریم کے ذہن میں وہ سنہری یادیں آئیں ہوں گی جب یوسف،‏ یسوع مسیح کو سکھاتے تھے کہ ہل کیسے بنایا جاتا ہے تاکہ جب جانوروں کو اِس میں جوتا جائے تو اُنہیں تکلیف نہ ہو۔‏ (‏متی 11:‏30‏)‏ یقیناً مریم کو اِس بات سے بڑی خوشی ہوتی ہوگی کہ یہوواہ خدا نے اُنہیں مسیح کی پرورش اور تربیت کرنے کا شرف دیا۔‏ مریم کو یسوع مسیح کی تعلیمات سُن کر بھی بڑی خوشی ہوتی ہوگی کیونکہ یسوع مسیح نے عام سی چیزوں اور روزمرہ کاموں کے ذریعے اہم باتیں سکھائیں۔‏

اِن سب باتوں کے باوجود مریم بہت خاکسار رہیں۔‏ اُن کے بیٹے نے کبھی اُن کو دوسروں سے اعلیٰ نہیں ٹھہرایا اور نہ ہی اُن کی عبادت کرنے کی تعلیم دی۔‏ ایک مرتبہ ایک عورت نے یسوع مسیح سے اُن کی ماں کے بارے میں کہا کہ وہ بہت برکت والی ہیں کہ اُنہوں نے یسوع مسیح کو جنم دیا۔‏ اِس پر یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏زیادہ مبارک [‏یعنی برکت والے]‏ وہ ہیں جو خدا کا کلام سنتے اور اُس پر عمل کرتے ہیں۔‏“‏ (‏لوقا 11:‏27،‏ 28‏)‏ پھر ایک دفعہ بِھیڑ میں سے کسی نے یسوع مسیح کو بتایا کہ اُن کی ماں اور بھائی اُن سے ملنے آئے ہیں۔‏ لیکن یسوع مسیح نے کہا کہ اُن کے بھائی اور ماں وہ لوگ ہیں جو خدا کی مرضی پر چلتے ہیں۔‏ اِس بات پر بُرا منانے کی بجائے مریم یقیناً سمجھ گئی ہوں گی کہ روحانی رشتے خون کے رشتوں سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔‏—‏مرقس 3:‏32-‏35‏۔‏

لیکن ماں ہونے کے ناتے اپنے بیٹے کو سُولی پر دردناک موت مرتا دیکھ کر  مریم جس کرب سے گزر رہی تھیں،‏ اُسے لفظوں میں بیان نہیں کِیا جا سکتا۔‏ اِس موقعے پر یسوع مسیح کے شاگرد یوحنا بھی وہاں موجود تھے۔‏ بعد میں اُنہوں نے اِس واقعے کے بارے میں بتایا کہ جب یسوع مسیح سُولی پر درد میں تڑپ رہے تھے تو مریم سُولی کے پاس ہی کھڑی تھیں۔‏ کوئی بھی چیز اِس ماں کو اپنے بیٹے کی آخری سانس تک اُس کا ساتھ دینے سے روک نہ سکی۔‏ یسوع مسیح کو بھی اپنی ماں کی فکر تھی۔‏ حالانکہ سُولی پر یسوع مسیح کی ایک ایک سانس بہت تکلیف‌دہ تھی اور اُن کے لیے ایک لفظ بھی کہنا درد سے خالی نہیں تھا تو بھی اُنہوں نے یوحنا سے کہا کہ وہ اُن کی ماں کا خیال رکھیں۔‏ چونکہ اُس وقت یسوع مسیح کے بھائی اُن پر ایمان نہیں لائے تھے اِس لیے یسوع مسیح نے اپنی ماں کی دیکھ‌بھال کی ذمےداری اپنے ایک وفادار شاگرد کو دی۔‏ اِس طرح یسوع مسیح نے ظاہر کِیا کہ اپنے گھر والوں کا خیال رکھنا کتنا ضروری ہے خاص طور پر اُن کی روحانی ضروریات کا۔‏—‏یوحنا 19:‏25-‏27‏۔‏

جب یسوع مسیح نے اپنی جان دے دی تو مریم کو لگا جیسے اُن کی جان تلوار سے چھد گئی ہو۔‏ ذرا سوچیں کہ اگر ہمارے لیے مریم کے درد کا اندازہ لگانا مشکل ہے تو ہمارے لیے اُس خوشی کا اندازہ لگانا تو اَور بھی مشکل ہوگا جو اُنہوں نے اُس وقت محسوس کی جب اُن کا بیٹا تین دن بعد زندہ ہو گیا۔‏ اور اُس وقت تو اُن کی خوشی کی اِنتہا ہی نہیں رہی ہوگی جب یسوع مسیح اپنے سوتیلے بھائی یعقوب سے ملے۔‏ (‏1-‏کرنتھیوں 15:‏7‏)‏ اِس ملاقات کا یعقوب اور اُن کے باقی بھائیوں پر بہت گہرا اثر ہوا۔‏ وہ بھی اِس بات پر ایمان لے آئے کہ یسوع ہی مسیح ہیں۔‏ پھر وہ اپنی ماں اور یسوع مسیح کے باقی شاگردوں کے ساتھ مل کر ”‏دُعا میں مشغول“‏ رہنے لگے۔‏ (‏اعمال 1:‏14‏)‏ یسوع مسیح کے بھائی یعقوب اور یہوداہ نے پاک کلام کی ایک ایک کتاب بھی لکھی۔‏

مریم بہت خوش تھیں کہ اُن کے باقی بیٹے یسوع مسیح پر ایمان لے آئے ہیں۔‏

خدا کے کلام میں مریم کا آخری بار ذکر کرتے وقت بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کے ساتھ دُعا کر رہی تھیں۔‏ واقعی مریم نے ہم سب کے لیے بڑی شان‌دار مثال قائم کی۔‏ اپنے ایمان کی وجہ سے وہ غم کی تلوار سے لگا گھاؤ سہہ پائیں اور اُنہیں بہت بڑا اجر بھی ملا۔‏ اگر ہم بھی مریم جیسا ایمان پیدا کریں گے تو ہم ہر اُس گھاؤ کو سہہ پائیں گے جو اِس بُری دُنیا میں ہمیں لگتا ہے اور ہمیں ایسی برکتیں ملیں گی جن کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔‏

^ پیراگراف 8 اِنجیلوں میں یوسف کا آخری بار ذکر اُس وقت ہوا جب یسوع مسیح 12 سال کے تھے۔‏ اِس کے بعد صرف یسوع مسیح کی ماں اور بہن‌بھائیوں کا ذکر ہوا ہے۔‏ ایک مرتبہ یسوع مسیح کو ”‏مریم کا بیٹا“‏ کہا گیا جبکہ یوسف کا حوالہ نہیں دیا گیا۔‏—‏مرقس 6:‏3‏۔‏

^ پیراگراف 16 یسوع مسیح،‏ یوسف سے پیدا نہیں ہوئے تھے۔‏ اِس لیے یوسف اور مریم کے بچے یسوع مسیح کے سوتیلے بہن‌بھائی تھے۔‏—‏متی 1:‏20‏۔‏