مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے کا نسخہ

گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے کا نسخہ

چودھواں باب

گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے کا نسخہ

پاک صحائف میں شوہر کی کیا ذمہ‌داریاں بتائی گئی ہیں؟‏

پاک صحائف میں بیوی کی کیا ذمہ‌داریاں بتائی گئی ہیں؟‏

والدین بچوں کی پرورش کرنے میں کامیاب کیسے ہو سکتے ہیں؟‏

بچے کیا کر سکتے ہیں تاکہ گھر کا ماحول خوشگوار رہے؟‏

۱.‏ آپکا خاندان خوش کیسے رہ سکتا ہے؟‏

یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ آپکا خاندان ہمیشہ خوش رہے۔‏ اُسکے کلام میں ہدایتیں پائی جاتی ہیں جن پر عمل کرنے سے خاندان کا ہر فرد اپنی ذمہ‌داریوں پر کامیابی سے پورا اُتر سکیگا۔‏ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ”‏مبارک وہ ہیں جو خدا کا کلام سنتے اور اُس پر عمل کرتے ہیں۔‏“‏ (‏لوقا ۱۱:‏۲۸‏)‏ جب خاندان کے افراد اپنی اپنی ذمہ‌داریاں نبھاتے ہیں تو خدا اُنکو برکتوں سے نوازتا ہے۔‏

۲.‏ گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے کیلئے ہمیں کس بات کو تسلیم کرنا چاہئے؟‏

۲ یسوع مسیح نے یہوواہ خدا کو ”‏اَے ہمارے باپ“‏ کہہ کر مخاطب کِیا تھا۔‏ (‏متی ۶:‏۹‏)‏ واقعی،‏ ہر ایک خاندان کا وجود یہوواہ خدا ہی کے کرم سے ہے۔‏ (‏افسیوں ۳:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ جب ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں تو ہماری گھریلو زندگی خوشگوار ہو جاتی ہے کیونکہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ گھر کا ماحول پُرسکون اور خوشنما کیسے بنایا جا سکتا ہے۔‏ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ پاک صحائف میں خاندان کے ہر فرد کی ذمہ‌داریوں کے بارے میں کیا بیان کِیا گیا ہے۔‏

خدا خاندان کا بانی ہے

۳.‏ پاک صحائف کے مطابق خاندان کیسے وجود میں آیا اور ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہ بات سچ ہے؟‏

۳ آدم کو خلق کرنے کے بعد یہوواہ خدا نے اُسکے لئے ایک بیوی کو بھی خلق کِیا۔‏ یہوواہ خدا نے اس جوڑے کو ایک خوبصورت باغ یعنی باغِ‌عدن میں بسایا اور اُنکو اولاد پیدا کرنے کا حکم دیا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمورومحکوم کرو۔‏“‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۶-‏۲۸؛‏ ۲:‏۱۸،‏ ۲۱-‏۲۴‏)‏ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ پیدایش کی کتاب میں درج یہ واقعات محض ایک افسانہ ہیں۔‏ لیکن یسوع مسیح نے ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے انکی سچائی کی تصدیق کی۔‏ (‏متی ۱۹:‏۴،‏ ۵‏)‏ آجکل خاندانوں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔‏ لیکن یہوواہ خدا ایسا نہیں چاہتا تھا۔‏ ان مسائل کے باوجود بھی ہم اپنی گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔‏ یہ کیسے ممکن ہے؟‏

۴.‏ (‏ا)‏ گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے کیلئے خاندان کے ہر فرد کو کیا کرنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ اس سلسلے میں یسوع مسیح کی زندگی پر غور کرنا اتنا اہم کیوں ہے؟‏

۴ گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے کیلئے خاندان کے ہر فرد کو اِسطرح سے محبت ظاہر کرنی چاہئے جیسے خدا محبت ظاہر کرتا ہے۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۱،‏ ۲‏)‏ لیکن خدا کو کسی نے نہیں دیکھا ہے۔‏ ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ وہ محبت کیسے ظاہر کرتا ہے؟‏ یہوواہ خدا نے اپنے پہلوٹھے بیٹے یسوع مسیح کو زمین پر بھیجا تاکہ وہ ہمیں اُسکے بارے میں بتا سکے۔‏ (‏یوحنا ۱:‏۱۴،‏ ۱۸‏)‏ یسوع مسیح نے ہر لحاظ سے اپنے آسمانی باپ کی شخصیت کی عکاسی کی۔‏ لہٰذا جب ہم یسوع مسیح کی باتوں اور اُسکے کاموں پر غور کرتے ہیں تو یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ہم یہوواہ خدا کی باتوں اور اُسکے کاموں پر غور کر رہے ہوں۔‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۹‏)‏ اسلئے ہمیں پہلے تو یہ سیکھنا چاہئے کہ یسوع مسیح نے کسطرح سے محبت ظاہر کی اور پھر ہمیں بھی اُسکی طرح محبت ظاہر کرنی چاہئے۔‏ ایسا کرنے سے ہمارا خاندانی ماحول زیادہ خوشگوار بن جائیگا۔‏

شوہروں کے لئے اعلیٰ نمونہ

۵،‏ ۶.‏ (‏ا)‏ کلیسیا کیلئے یسوع مسیح کی محبت سے شوہر کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے قصور معاف کر دئے جائیں تو ہمیں کیا کرنے کو تیار رہنا چاہئے؟‏

۵ پاک صحائف کی تعلیم یہ ہے کہ شوہروں کو اپنی بیویوں سے اسی طرح پیش آنا چاہئے جیسا کہ یسوع مسیح اپنے شاگردوں سے پیش آیا تھا۔‏ اس سلسلے میں ذرا اِس ہدایت پر غور کریں:‏ ”‏اَے شوہرو!‏ اپنی بیویوں سے محبت رکھو جیسے مسیح نے بھی کلیسیا سے محبت کرکے اپنے آپ کو اُسکے واسطے موت کے حوالہ کر دیا۔‏ ‏.‏ .‏ .‏ اِسی طرح شوہروں کو لازم ہے کہ اپنی بیویوں سے اپنے بدن کی مانند محبت رکھیں۔‏ جو اپنی بیوی سے محبت رکھتا ہے وہ اپنے آپ سے محبت رکھتا ہے۔‏ کیونکہ کبھی کسی نے اپنے جسم سے دُشمنی نہیں کی بلکہ اُسکو پالتا اور پرورش کرتا ہے جیسے کہ مسیح کلیسیا کو۔‏‏“‏—‏افسیوں ۵:‏۲۳،‏ ۲۵-‏۲۹‏۔‏

۶ کلیسیا کیلئے یسوع مسیح کی محبت سے شوہر بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ اگرچہ یسوع کے شاگرد اکثر غلطیاں کرتے تھے توبھی یسوع اُن سے ”‏آخر تک محبت رکھتا رہا“‏ اور اُس نے اُنکے لئے اپنی جان تک قربان کر دی۔‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۱؛‏ ۱۵:‏۱۳‏)‏ خدا کے کلام میں یوں تاکید کی گئی ہے:‏ ”‏اَے شوہرو!‏ اپنی بیویوں سے محبت رکھو اور اُن سے تلخ‌مزاجی نہ کرو۔‏“‏ (‏کلسیوں ۳:‏۱۹‏)‏ شوہروں کو اُس وقت بھی اس تاکید پر عمل کرنا چاہئے جب اُنکی بیوی کوئی غلطی کرتی ہے۔‏ اُنکو یاد رکھنا چاہئے کہ اُن سے بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔‏ اگر وہ چاہتے ہیں کہ خدا اُنکی غلطیوں کو معاف کر دے تو اُنہیں بھی دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنا چاہئے۔‏ اسی طرح بیویوں کو بھی چاہئے کہ وہ دوسروں کی غلطیاں معاف کریں۔‏ (‏متی ۶:‏۱۲،‏ ۱۴،‏ ۱۵‏)‏ یہ کتنا سچ ہے کہ ایک کامیاب شادی دو ایسے لوگوں کا بندھن ہے جو ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔‏

۷.‏ یسوع اپنے شاگردوں کا خیال کیسے رکھتا تھا اور اِس سے شوہر کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۷ شوہروں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یسوع مسیح ہمیشہ اپنے شاگردوں کی ضروریات کا خیال رکھتا تھا۔‏ مثال کے طور پر ایک بار جب وہ بہت تھک گئے تھے تو اُس نے اُن سے کہا:‏ ”‏تُم آپ الگ ویران جگہ میں چلے آؤ اور ذرا آرام کرو۔‏“‏ (‏مرقس ۶:‏۳۰-‏۳۲‏)‏ اسی طرح شوہر کو اپنی بیوی کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہئے۔‏ خدا کے کلام میں شوہروں کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ ”‏عورت کو نازک ظرف جان کر اُسکی عزت کرو۔‏“‏ شوہر کو اپنی بیوی کی عزت کرنی چاہئے کیونکہ اُسکی طرح وہ بھی ’‏زندگی کی نعمت کی وارث ہے۔‏‘‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۷‏)‏ جی‌ہاں،‏ شوہروں کو یاد رکھنا چاہئے کہ خدا کے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ آیا ایک شخص مرد ہے یا عورت بلکہ خدا کا ہر وفادار خادم اُسے عزیز ہے۔‏—‏زبور ۱۰۱:‏۶‏۔‏

۸.‏ (‏ا)‏ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک ایسا شوہر ”‏جو اپنی بیوی سے محبت رکھتا ہے وہ اپنے آپ سے محبت رکھتا ہے“‏؟‏ (‏ب)‏ ”‏ایک جسم“‏ ہونے کی وجہ سے شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کیساتھ کیسے پیش آنا چاہئے؟‏

۸ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”‏جو اپنی بیوی سے محبت رکھتا ہے وہ اپنے آپ سے محبت رکھتا ہے۔‏“‏ اسکی وجہ یوں بتائی گئی ہے کہ شادی کرنے پر مرد اور عورت ”‏دو نہیں بلکہ ایک جسم“‏ بن جاتے ہیں۔‏ (‏متی ۱۹:‏۶‏)‏ اسکا مطلب ہے کہ جنسی تعلقات صرف میاں بیوی کے رشتے تک محدود ہیں۔‏ (‏امثال ۵:‏۱۵-‏۲۱؛‏ عبرانیوں ۱۳:‏۴‏)‏ اسکے علاوہ جنسی تسکین حاصل کرنے کے سلسلے میں بھی اُنکو ایک دوسرے کی ضروریات کا لحاظ رکھنا چاہئے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۳-‏۵‏)‏ اس بات پر بھی غور کریں کہ ”‏کبھی کسی نے اپنے جسم سے دُشمنی نہیں کی بلکہ اُسکو پالتا اور پرورش کرتا ہے۔‏“‏ شوہروں کو چاہئے کہ وہ اپنی بیویوں سے اتنی ہی محبت رکھیں جتنی وہ خود سے رکھتے ہیں۔‏ اُنکو یاد رکھنا چاہئے کہ یسوع مسیح ہر مرد کا سر ہے اور جیسا سلوک وہ اپنی بیوی سے کرینگے،‏ اُنہیں اسکے لئے یسوع مسیح کے سامنے جوابدہ ٹھہرایا جائیگا۔‏—‏افسیوں ۵:‏۲۹؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۳‏۔‏

۹.‏ فلپیوں ۱:‏۸ میں یسوع کے بارے میں کیا کہا گیا ہے اور اس سلسلے میں شوہر کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۹ پولس رسول نے اپنے ایک خط میں ”‏مسیح یسوؔع کی سی اُلفت“‏ کا ذکر کِیا۔‏ (‏فلپیوں ۱:‏۸‏)‏ واقعی،‏ یسوع کو اپنے تمام شاگردوں سے اُلفت تھی۔‏ یسوع کی اُلفت اُسکے شاگردوں کو تازہ‌دم کر دیتی تھی۔‏ (‏یوحنا ۲۰:‏۱،‏ ۱۱-‏۱۳،‏ ۱۶‏)‏ ہر بیوی کی بھی یہی خواہش ہے کہ اُسکا شوہر اُس سے پیار سے پیش آئے اور اُس سے اُلفت کرے۔‏

بیویوں کے لئے عمدہ مثال

۱۰.‏ بیویاں یسوع کی مثال سے کیا سیکھ سکتی ہیں؟‏

۱۰ خاندان کا ماحول اسی صورت میں خوشگوار ہوتا ہے جب اسکا ایک پیشوا ہو۔‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ جسطرح ”‏مسیح کا سر خدا ہے“‏ اسی طرح ”‏عورت کا سر مرد“‏ ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۳‏)‏ یسوع اپنے سر یعنی خدا کے تابع رہا۔‏ ایسا کرنے سے اُس نے ہم سب کیلئے عمدہ مثال قائم کی کیونکہ ہم سب کو اپنے اپنے سر یعنی پیشوا کے تابع رہنا چاہئے۔‏

۱۱.‏ ایک بیوی کو کیسا رویہ اختیار کرنا چاہئے اور بیوی کے اچھے چال‌چلن سے اُسکے شوہر پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟‏

۱۱ تمام لوگوں کی طرح شوہروں نے بھی گُناہ کا داغ ورثے میں پایا ہے۔‏ اس لئے خاندان کی پیشوائی کرنے میں اُن سے غلطیاں ہو جاتی ہیں۔‏ اس کے باوجود بھی ایک اچھی بیوی اپنے شوہر کی نکتہ‌چینی نہیں کرے گی اور نہ ہی وہ اپنے شوہر پر اختیار جتانے کی کوشش کرے گی۔‏ بیویوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ خدا اُن سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ نرمی اور عاجزی سے کام لیں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۴‏)‏ ایسا رویہ اختیار کرنے سے ایک بیوی مشکل حالات میں بھی اپنے شوہر کے تابع رہنے میں کامیاب رہے گی۔‏ خدا کے کلام میں بیویوں کو ’‏اپنے شوہر کا ادب کرنے‘‏ کی تاکید کی گئی ہے۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۳۳‏،‏ کیتھولک ترجمہ‏)‏ کبھی‌کبھار ایک شوہر،‏ مسیح کو اپنے سر کے طور پر تسلیم نہیں کرتا۔‏ ایسی صورت میں اُس کی بیوی کو پاک صحائف کی اس ہدایت پر عمل کرنا چاہئے:‏ ”‏اَے بیویو!‏ تُم بھی اپنے اپنے شوہر کے تابع رہو۔‏ اِس لئے کہ اگر بعض اُن میں سے کلام کو نہ مانتے ہوں تو بھی تمہارا پاکیزہ چال‌چلن اور خوف [‏یعنی احترام]‏ کو دیکھ کر بغیر کلام کے اپنی اپنی بیوی کے چال‌چلن سے خدا کی طرف کھنچ جائیں۔‏“‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۱،‏ ۲‏۔‏

۱۲.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ اپنے خیالات کا اظہار کرنا بیویوں کیلئے مناسب ہے؟‏

۱۲ چاہے ایک بیوی کا شوہر اُسکے مذہب سے تعلق رکھتا ہے یا نہیں،‏ بیوی احترام اور نرمی سے کام لیتے ہوئے اپنے خیالات ظاہر کر سکتی ہے۔‏ یہ اُس وقت بھی مناسب ہے جب بیوی اور شوہر کے نظریے ایک دوسرے سے فرق ہوتے ہیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ کسی معاملے کے بارے میں بیوی کا خیال درست ہو اور اس پر عمل کرنے سے پورے خاندان کو فائدہ رہے۔‏ مثال کے طور پر جب خدا کے نبی ابرہام کو اپنی بیوی سارہ کی ایک تجویز بُری لگی تو خدا نے ابرہام سے کہا کہ ”‏جو کچھ ساؔرہ تجھ سے کہتی ہے تُو اُسکی بات مان۔‏“‏ (‏پیدایش ۲۱:‏۹-‏۱۲‏)‏ لیکن جب شوہر ایک معاملے کے بارے میں فیصلہ کر لیتا ہے اور یہ فیصلہ خدا کے حکموں کے خلاف نہیں ہوتا تو بیوی اُسکی بات مان کر اپنے شوہر کا ساتھ دیگی۔‏ ایسا کرنے سے وہ اپنے شوہر کی تابعداری کرتی ہے۔‏—‏اعمال ۵:‏۲۹؛‏ افسیوں ۵:‏۲۴‏۔‏

۱۳.‏ (‏ا)‏ ططس ۲:‏۴،‏ ۵ میں شادی‌شُدہ عورتوں کو کن باتوں کی تاکید کی گئی ہے؟‏ (‏ب)‏ بیاہتا ساتھیوں کے علیٰحدہ ہونے اور طلاق لینے کے بارے میں پاک صحائف کی تعلیم کیا ہے؟‏

۱۳ پاک صحائف میں بیویوں کی بہت سی ذمہ‌داریاں بتائی گئی ہیں۔‏ مثال کے طور پر شادی شُدہ عورتوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ ”‏اپنے شوہروں کو پیار کریں۔‏ بچوں کو پیار کریں۔‏ اور مُتقی اور پاک‌دامن اور گھر کا کاروبار کرنے والی اور مہربان ہوں اور اپنے اپنے شوہر کے تابع رہیں۔‏“‏ (‏ططس ۲:‏۴،‏ ۵‏)‏ جب ایک عورت بیوی اور ماں کے طور پر اپنی ذمہ‌داریوں کو نبھانے کی بھرپور کوشش کرتی ہے تو اُسکا خاندان دل سے اُس سے محبت رکھتا اور اُسکی عزت کرتا ہے۔‏ (‏امثال ۳۱:‏۱۰،‏ ۲۸‏)‏ کبھی‌کبھار میاں بیوی کے درمیان ایسے مسئلے کھڑے ہو جاتے ہیں جنکی وجہ سے شاید وہ ایک دوسرے سے علیٰحدہ ہونے یا طلاق لینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔‏ پاک صحائف میں میاں‌بیوی کو صرف چند ہی حالات میں ایک دوسرے سے علیٰحدہ ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔‏ البتہ میاں‌بیوی کو جلدبازی سے ایسا کرنے کا فیصلہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ خدا کے کلام میں یوں لکھا ہے:‏ ”‏بیوی اپنے شوہر سے جُدا نہ ہو۔‏ .‏ .‏ .‏ نہ شوہر بیوی کو چھوڑے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ طلاق کو پاک صحائف میں صرف اُس صورت میں جائز قرار دیا گیا ہے جب بیاہتا ساتھیوں میں سے ایک حرامکاری کرے یعنی کسی غیر کیساتھ جنسی تعلقات رکھے۔‏—‏متی ۱۹:‏۹‏۔‏

والدین کے لئے عمدہ نمونہ

۱۴.‏ یسوع مسیح بچوں کیساتھ کیسے پیش آتا تھا؟‏ بچوں کی پرورش کرنے میں کونسی بات بہت ہی ضروری ہے؟‏

۱۴ یسوع مسیح جسطرح بچوں سے پیش آتا تھا اس سے والدین بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ جب یسوع کے شاگردوں نے بچوں کو اُس کے پاس آنے سے روکا تو یسوع نے ان سے کہا:‏ ”‏بچوں کو میرے پاس آنے دو۔‏ اُنکو منع نہ کرو۔‏“‏ پھر اُس نے بچوں کو ”‏اپنی گود میں لیا اور اُن پر ہاتھ رکھ کر اُن کو برکت دی۔‏“‏ (‏مرقس ۱۰:‏۱۳-‏۱۶‏)‏ ذرا سوچیں،‏ اگر یسوع مسیح نے بچوں کیلئے وقت نکالا تھا تو والدین کیلئے کتنا ضروری ہے کہ وہ بھی اپنے بچوں کیلئے وقت نکالیں۔‏ اگر آپ اپنے بچوں کی پرورش کرنے میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو آپکو اُنکے ساتھ بہت سارا وقت گزارنا ہوگا۔‏ خدا آپ سے اس بات کی توقع رکھتا ہے کہ آپ اپنے بچوں کو اُسکے حکموں کے بارے میں سکھانے کیلئے بھی وقت نکالیں۔‏—‏استثنا ۶:‏۴-‏۹‏۔‏

۱۵.‏ والدین اپنے بچوں کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۵ آجکل بُرائی میں دن‌بدن اضافہ ہو رہا ہے۔‏ اس بُری فضا میں بہت ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کو ایسے لوگوں سے محفوظ رکھیں جو اُنکو نقصان پہنچانا چاہتے یا جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔‏ یسوع مسیح اپنے پیروکاروں کو پیار سے ”‏اَے بچو!‏“‏ کہہ کر پکارتا تھا۔‏ جب یسوع کے دُشمن اُسے گرفتار کرنے کیلئے آئے تو یسوع نے اپنے شاگردوں کو وہاں سے بھاگ نکلنے کا موقع فراہم کِیا۔‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۳۳؛‏ ۱۸:‏۷-‏۹‏)‏ والدین کے طور پر آپکو بھی ہوشیار رہنا چاہئے تاکہ آپ اپنے بچوں کو شیطان کے ہاتھوں اذیت اُٹھانے سے محفوظ رکھ سکیں۔‏ اس سلسلے میں یہ بہت اہم ہے کہ آپ اپنے بچوں کو شیطان کے طور طریقوں سے آگاہ کریں۔‏ * (‏۱-‏پطرس ۵:‏۸‏)‏ اس بُرے زمانے میں بچوں کو نہ صرف جسمانی خطروں کا سامنا ہے بلکہ شیطان اُنکی سوچ اور خدا پر اُنکے ایمان پر بھی وار کرتا ہے۔‏

۱۶.‏ جسطرح یسوع مسیح اپنے شاگردوں سے پیش آیا اس سے والدین کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۶ یسوع کی موت سے پہلے کی رات اُس کے شاگردوں میں اس بات پر تکرار ہوئی کہ اُن میں سے بڑا کون ہے۔‏ اُن کو ٹوکنے کی بجائے یسوع نے اپنی باتوں اور اپنے کاموں سے اُن کو عاجزی کی اہمیت سمجھائی۔‏ (‏لوقا ۲۲:‏۲۴-‏۲۷؛‏ یوحنا ۱۳:‏۳-‏۸‏)‏ آپ اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں یسوع کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں۔‏ یہ بات سچ ہے کہ بچوں کی اصلاح اور تنبیہ کرنا اہم ہے۔‏ لیکن غصے کے عالم میں اُن کی تنبیہ کرنا ٹھیک نہیں۔‏ یقیناً آپ یہ نہیں چاہتے کہ آپ کی باتیں اُن کے دلوں کو ”‏تلوار کی طرح چھیدتی“‏ جائیں۔‏ آپ کو اپنے بچوں کی ”‏مناسب تنبیہ“‏ کرنی چاہئے نہ حد سے زیادہ اور نہ ہی کم۔‏ (‏امثال ۱۲:‏۱۸؛‏ یرمیاہ ۳۰:‏۱۱‏)‏ اس کے علاوہ آپ کو اپنے بچوں کی اصلاح ایسے انداز میں کرنی چاہئے کہ اُن کو احساس ہو کہ آپ ایسا اُن کے فائدے کے لئے کر رہے ہیں۔‏—‏افسیوں ۶:‏۴؛‏ عبرانیوں ۱۲:‏۹-‏۱۱‏۔‏

بچے یسوع مسیح کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۷.‏ یسوع مسیح نے بچوں کیلئے کونسی مثال قائم کی؟‏

۱۷ بچے یسوع مسیح سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ یسوع مسیح نے بچوں کیلئے فرمانبرداری کی مثال قائم کی تھی۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏جسطرح باپ نے مجھے سکھایا اُسی طرح یہ باتیں کہتا ہوں۔‏“‏ اُس نے یہ بھی کہا کہ ”‏مَیں ہمیشہ وہی کام کرتا ہوں جو اُسے پسند آتے ہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۸:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ جی‌ہاں،‏ یسوع مسیح نے ہمیشہ اپنے آسمانی باپ کا کہنا مانا۔‏ اسی طرح پاک صحائف میں بچوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے فرمانبردار رہیں۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۱-‏۳‏)‏ ذرا سوچیں،‏ خدا کا بیٹا ہونے کی وجہ سے یسوع مسیح بےگُناہ تھا۔‏ البتہ اُسکے والدین نے گُناہ کا داغ ورثے میں پایا تھا۔‏ اسکے باوجود یسوع مسیح اُنکا کہنا مانتا تھا۔‏ یسوع کی فرمانبرداری کی وجہ سے اُنکا خاندانی ماحول یقیناً بہت خوشگوار رہا ہوگا۔‏—‏لوقا ۲:‏۴،‏ ۵،‏ ۵۱،‏ ۵۲‏۔‏

۱۸.‏ یسوع مسیح نے ہمیشہ خدا کا کہنا کیوں مانا؟‏ جب بچے اپنے والدین کا کہنا مانتے ہیں تو کس کو خوشی ہوتی ہے؟‏

۱۸ اَے بچو!‏ کیا آپ جان گئے ہیں کہ آپ یسوع مسیح کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ یہ سچ ہے کہ ماں باپ کا کہنا ماننا بچوں کو کبھی‌کبھار مشکل لگتا ہے لیکن خدا نے بچوں کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔‏ (‏امثال ۱:‏۸؛‏ ۶:‏۲۰‏)‏ یاد رکھیں کہ یسوع مسیح نے اُس وقت بھی خدا کا کہنا مانا جب یہ اُسکے لئے بہت مشکل ثابت ہوا۔‏ ایک بار جب خدا نے اُسکو ایک بہت ہی مشکل کام کرنے کا حکم دیا تو یسوع نے دُعا کی کہ ”‏یہ پیالہ [‏یعنی حکم]‏ مجھ سے ہٹا لے۔‏“‏ لیکن پھر یسوع نے خدا کے حکم پر عمل کِیا کیونکہ اُسے یقین تھا کہ خدا ہی سب سے بہتر جانتا ہے۔‏ (‏لوقا ۲۲:‏۴۲‏)‏ جب بچے اپنے ماں باپ کے فرمانبردار رہتے ہیں تو اُنکے ماں باپ کے علاوہ یہوواہ خدا بھی خوش ہوتا ہے۔‏ *‏—‏امثال ۲۳:‏۲۲-‏۲۵‏۔‏

۱۹.‏ (‏ا)‏ شیطان بچوں کو کیسے آزماتا ہے؟‏ (‏ب)‏ اگر بچے اور نوجوان بُرے کام کرینگے تو اُنکے والدین کیسا محسوس کرینگے؟‏

۱۹ شیطان نے یسوع مسیح کو آزمایا تھا اور وہ بچوں اور نوجوانوں پر بھی طرح طرح کی آزمائشیں لاتا ہے۔‏ (‏متی ۴:‏۱-‏۱۰‏)‏ شیطان اکثر بچوں کے ہم‌عمروں اور دوستوں کے ذریعے اُنکو بُرے کام کرنے پر اُکساتا ہے۔‏ یہ بچوں کیلئے بہت مشکل ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ وہ تو اپنے ہم‌عمروں میں مقبول ہونا چاہتے ہیں۔‏ اسلئے یہ بہت ہی اہم ہے کہ بچے اور نوجوان ایسے ہم‌عمروں سے دوستی نہ کریں جو بُرے کام کرتے ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۳۳‏)‏ خدا کے نبی یعقوب کی بیٹی دینہ نے ایسی لڑکیوں سے دوستی کر لی جو یہوواہ خدا کی عبادت نہیں کرتی تھیں۔‏ یہ دوستی اُسے بہت ہی مہنگی پڑی۔‏ (‏پیدایش ۳۴:‏۱،‏ ۲‏)‏ ذرا سوچیں کہ اگر خاندان کا کوئی فرد بُرے کام کرنے لگتا ہے تو خاندان کے باقی لوگوں کو کتنا دُکھ پہنچتا ہے۔‏—‏امثال ۱۷:‏۲۱،‏ ۲۵‏۔‏

گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے کا نسخہ

۲۰.‏ گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے کیلئے خاندان کا ہر فرد کیا کر سکتا ہے؟‏

۲۰ جب خاندان میں مسائل کھڑے ہوتے ہیں تو پاک صحائف کی تعلیم پر عمل کرنے سے اِن سے نپٹنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے کا نسخہ یہی ہے کہ خاندان کا ہر فرد خدا کے کلام کی ہدایتوں پر عمل کرے۔‏ اگر آپ ایک شوہر ہیں تو اپنی بیوی سے محبت رکھیں اور اُسکے ساتھ ایسے ہی پیش آئیں جیسے یسوع مسیح اپنی کلیسیا سے پیش آتا ہے۔‏ اگر آپ ایک بیوی ہیں تو اپنے شوہر کے تابع رہیں اور اُس سگھڑ بیوی کی طرح بنیں جسکے بارے میں امثال ۳۱:‏۱۰-‏۳۱ میں بتایا گیا ہے۔‏ والدین کے طور پر آپ اپنے بچوں کی تربیت کریں۔‏ (‏امثال ۲۲:‏۶‏)‏ اگر آپ ایک باپ ہیں تو بڑے لگاؤ سے ’‏اپنے گھر کا بندوبست کریں‘‏ یعنی اپنے خاندان کی پیشوائی کریں۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۳:‏۴،‏ ۵؛‏ ۵:‏۸‏)‏ اور اَے بچو!‏ آپ اپنے والدین کا کہنا ضرور مانیں۔‏ (‏کلسیوں ۳:‏۲۰‏)‏ یہ بھی یاد رکھیں کہ تمام لوگوں سے غلطیاں ہو جاتی ہیں۔‏ اسلئے ایک دوسرے سے معافی مانگنے کیلئے تیار رہیں۔‏

۲۱.‏ ہم مستقبل کیلئے کونسی اُمید رکھ سکتے ہیں اور ہمارا خاندان ابھی سے ہی خوش کیسے رہ سکتا ہے؟‏

۲۱ پاک صحائف میں گھریلو زندگی کے بارے میں بہت سی ہدایتیں پائی جاتی ہیں۔‏ اِن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خدا زمین کو ایک فردوس میں تبدیل کرنے والا ہے اور پھر زمین پر صرف وہ لوگ رہینگے جو یہوواہ خدا کی عبادت کرتے ہیں۔‏ (‏مکاشفہ ۲۱:‏۳،‏ ۴‏)‏ یہ مستقبل کیلئے کتنی ہی شاندار اُمید ہے۔‏ خدا کے حکموں پر عمل کرنے سے ہمارا خاندان ابھی سے ہی خوش رہ سکتا ہے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 15 اپنے بچوں کو بتائیں کہ وہ کسی شخص کو اجازت نہ دیں کہ وہ اُنکے جنسی اعضا کو چُھوئیں یا چھیڑیں۔‏ اُنکو ایسے لوگوں اور جگہوں سے بھی خبردار رہنے کو کہیں جو اُنکے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔‏

^ پیراگراف 18 بچوں کو صرف اُس وقت والدین کا کہنا نہیں ماننا چاہئے اگر اُن کے والدین ان کو کوئی ایسی بات کرنے کو کہیں جو خدا کے حکموں کے خلاف ہو۔‏—‏اعمال ۵:‏۲۹‏۔‏

پاک صحائف کی تعلیم یہ ہے

▪ شوہروں کو اپنی بیویوں سے اتنی ہی محبت رکھنی چاہئے جتنی اُن کو اپنے بدن سے ہے۔‏—‏افسیوں ۵:‏۲۵-‏۲۹‏۔‏

▪ بیویوں کو اپنے شوہروں اور بچوں سے پیار کرنا چاہئے اور اپنے اپنے شوہر کے تابع رہنا چاہئے۔‏—‏ططس ۲:‏۴،‏ ۵‏۔‏

▪ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں سے محبت رکھیں اور اُن کی تربیت اور حفاظت بھی کریں۔‏—‏استثنا ۶:‏۴-‏۹‏۔‏

▪ بچوں کو اپنے والدین کے فرمانبردار رہنا چاہئے۔‏—‏افسیوں ۶:‏۱-‏۳‏۔‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۳۹ پر تصویر]‏

سارہ کی مثال سے بیویاں کیا سیکھ سکتی ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۱۴۰ پر تصویریں]‏

جسطرح یسوع مسیح بچوں کیساتھ پیش آیا تھا اس سے والدین کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۱۴۲ پر تصویر]‏

جب نوجوانوں کو بُرے کام کرنے پر اُکسایا جاتا ہے تو اُنہیں کونسی بات یاد رکھنی چاہئے؟‏