یوحنا 18‏:1‏-‏40

  • یہوداہ، یسوع کو پکڑواتا ہے (‏1-‏9‏)‏

  • پطرس تلوار سے کان اُڑاتے ہیں (‏10، 11‏)‏

  • فوجی یسوع کو حنّا کے پاس لاتے ہیں (‏12-‏14‏)‏

  • پطرس پہلی بار اِنکار کرتے ہیں (‏15-‏18‏)‏

  • یسوع، حنّا کے سامنے (‏19-‏24‏)‏

  • پطرس دوسری اور تیسری بار اِنکار کرتے ہیں (‏25-‏27‏)‏

  • یسوع، پیلاطُس کے سامنے (‏28-‏40‏)‏

    • ‏”‏میری بادشاہت کا اِس دُنیا سے کوئی تعلق نہیں“‏ (‏36‏)‏

18  اپنی بات ختم کرنے کے بعد یسوع اپنے شاگردوں کے ساتھ وادیِ‌قدرون کے پار ایک باغ میں گئے۔ 2  یہوداہ بھی جو یسوع کو پکڑوانے والا تھا، اُس جگہ کے بارے میں جانتا تھا کیونکہ یسوع اکثر اپنے شاگردوں کے ساتھ وہاں وقت گزارتے تھے۔ 3  لہٰذا یہوداہ اعلیٰ کاہنوں اور فریسیوں کے کچھ افسروں اور کچھ فوجیوں کو لے کر وہاں آ گیا۔ اُن کے پاس مشعلیں، چراغ اور ہتھیار تھے۔ 4  یسوع کو پتہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے اِس لیے اُنہوں نے آگے بڑھ کر اُن لوگوں سے پوچھا:‏ ”‏آپ کس کو ڈھونڈ رہے ہیں؟“‏ 5  اُنہوں نے جواب دیا:‏ ”‏یسوع ناصری کو۔“‏ یسوع نے کہا:‏ ”‏وہ مَیں ہوں۔“‏ یہوداہ بھی جو اُن کو پکڑوانے والا تھا، اُن لوگوں کے ساتھ کھڑا تھا۔‏ 6  لیکن جب یسوع نے اُن لوگوں سے کہا کہ ”‏وہ مَیں ہوں“‏ تو وہ پیچھے ہٹ گئے اور زمین پر گِر گئے۔ 7  اِس لیے یسوع نے دوبارہ پوچھا کہ ”‏آپ کس کو ڈھونڈ رہے ہیں؟“‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏یسوع ناصری کو۔“‏ 8  یسوع نے کہا:‏ ”‏مَیں آپ کو بتا چُکا ہوں کہ وہ مَیں ہوں۔ اگر آپ مجھے ڈھونڈ رہے ہیں تو اِن آدمیوں کو جانے دیں۔“‏ 9  اُنہوں نے یہ اِس لیے کہا تاکہ اُن کی وہ بات پوری ہو کہ ”‏تُو نے مجھے جو لوگ دیے، مَیں نے اُن میں سے ایک کو بھی نہیں کھویا۔“‏ 10  شمعون پطرس کے پاس ایک تلوار تھی۔ جب اُنہوں نے یہ سب کچھ دیکھا تو اُنہوں نے تلوار نکالی اور کاہنِ‌اعظم کے غلام کا دایاں کان اُڑا دیا۔ اُس غلام کا نام ملخُس تھا۔ 11  لیکن یسوع نے پطرس سے کہا:‏ ”‏اپنی تلوار میان میں رکھ لیں۔ کیا مجھے وہ پیالہ نہیں پینا چاہیے جو باپ نے مجھے دیا ہے؟“‏ 12  پھر وہاں موجود فوجی کمانڈر، فوجیوں اور یہودیوں کے افسروں نے یسوع کو پکڑ کر باندھ لیا۔ 13  وہ یسوع کو پہلے تو حنّا کے پاس لے گئے کیونکہ وہ کائفا کا سُسر تھا جو اُس سال کاہنِ‌اعظم تھا۔ 14  دراصل کائفا ہی وہ آدمی تھا جس نے یہودیوں کو مشورہ دیا تھا کہ اگر سب لوگوں کے لیے ایک آدمی مر جائے تو اُنہی کا فائدہ ہوگا۔‏ 15  اب شمعون پطرس اور ایک اَور شاگرد یسوع کے پیچھے پیچھے گئے۔ اِس شاگرد کی کاہنِ‌اعظم سے واقفیت تھی۔ وہ یسوع کے پیچھے کاہنِ‌اعظم کے صحن تک گیا 16  لیکن پطرس باہر دروازے کے پاس کھڑے رہے۔ اِس لیے اُس شاگرد نے جو کاہنِ‌اعظم کا واقف تھا، باہر جا کر اُس نوکرانی سے بات کی جو گھر کی چوکیداری کر رہی تھی اور پطرس کو اندر لے آیا۔ 17  اُس نوکرانی نے پطرس سے پوچھا:‏ ”‏کہیں تُم بھی تو اُس آدمی کے شاگرد نہیں؟“‏ اُنہوں نے جواب دیا:‏ ”‏نہیں تو۔“‏ 18  اب غلاموں اور افسروں نے ایک انگیٹھی میں آگ جلائی ہوئی تھی کیونکہ بہت سردی تھی اور وہ سب اِس کے اِردگِرد کھڑے آگ سینک رہے تھے۔ پطرس بھی اُن کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے اور آگ سینکنے لگے۔‏ 19  اعلیٰ کاہن، یسوع سے اُن کے شاگردوں اور تعلیمات کے بارے میں پوچھ‌گچھ کرنے لگا۔ 20  یسوع نے اُس سے کہا:‏ ”‏مَیں نے دُنیا سے کُھلے عام بات کی۔ مَیں نے ہمیشہ عبادت‌گاہوں اور ہیکل*‏ میں تعلیم دی جہاں یہودی جمع ہوتے ہیں۔ مَیں نے پوشیدگی میں کچھ نہیں کہا۔ 21  آپ مجھ سے کیوں سوال کر رہے ہیں؟ اُن سے سوال کریں جنہوں نے میری باتیں سنی ہیں۔ دیکھیں، اُن کو پتہ ہے کہ مَیں نے کیا کچھ کہا ہے۔“‏ 22  جب یسوع نے یہ کہا تو پاس کھڑے ایک افسر نے اُن کے مُنہ پر تھپڑ مارا اور کہا:‏ ”‏کیا اعلیٰ کاہن سے اِس طرح بات کرتے ہیں؟“‏ 23  یسوع نے اُسے جواب دیا:‏ ”‏اگر مَیں نے کچھ غلط کہا ہے تو بتائیں*‏ کہ غلط کیا تھا لیکن اگر میری بات صحیح ہے تو آپ نے مجھے کیوں مارا ہے؟“‏ 24  پھر حنّا نے یسوع کے ہاتھ بندھوا کر اُن کو کاہنِ‌اعظم کائفا کے پاس بھیج دیا۔‏ 25  جب شمعون پطرس کھڑے آگ سینک رہے تھے تو کچھ لوگوں نے اُن سے کہا:‏ ”‏کہیں تُم بھی تو اُس آدمی کے شاگرد نہیں؟“‏ اُنہوں نے جواب دیا:‏ ”‏نہیں۔“‏ 26  وہاں کاہنِ‌اعظم کا ایک غلام بھی تھا جو اُس آدمی کا رشتے‌دار تھا جس کا کان پطرس نے اُڑا دیا تھا۔ اُس نے اُن سے کہا:‏ ”‏بے‌شک مَیں نے تمہیں اُس آدمی کے ساتھ باغ میں دیکھا تھا!‏“‏ 27  لیکن پطرس نے پھر سے اِنکار کِیا اور اُسی وقت ایک مُرغے نے بانگ دی۔‏ 28  اب وہ لوگ یسوع کو صبح سویرے کائفا کے گھر سے حاکم کی رہائش‌گاہ لے گئے۔ لیکن وہ خود رہائش‌گاہ میں داخل نہیں ہوئے کیونکہ اُن کو ڈر تھا کہ وہ ناپاک ہو جائیں گے اور عیدِفسح کا کھانا نہیں کھا سکیں گے۔ 29  اِس لیے پیلاطُس نے باہر آ کر اُن سے پوچھا:‏ ”‏تُم اِس آدمی کو یہاں کیوں لائے ہو؟ اِس پر کیا اِلزام ہے؟“‏ 30  اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اگر یہ آدمی مُجرم نہ ہوتا تو ہم اِس کو آپ کے حوالے نہ کرتے۔“‏ 31  پیلاطُس نے اُن سے کہا:‏ ”‏تُم خود اِس کو لے کر جاؤ اور اپنی شریعت کے مطابق اِس کے بارے میں فیصلہ سناؤ۔“‏ لیکن یہودیوں نے کہا:‏ ”‏کسی کو مار ڈالنا ہمارے لیے جائز نہیں ہے۔“‏ 32  یہ اِس لیے ہوا تاکہ وہ بات پوری ہو جو یسوع نے اپنی موت کے طریقے کے بارے میں کہی تھی۔‏ 33  لہٰذا پیلاطُس پھر سے رہائش‌گاہ میں داخل ہوا اور یسوع کو بلوا کر اُن سے پوچھا:‏ ”‏کیا تُم یہودیوں کے بادشاہ ہو؟“‏ 34  یسوع نے جواب دیا:‏ ”‏کیا آپ یہ بات اپنی طرف سے کہہ رہے ہیں یا پھر کسی نے آپ کو میرے بارے میں بتایا ہے؟“‏ 35  پیلاطُس نے کہا:‏ ”‏مَیں تو یہودی نہیں ہوں۔ تمہاری اپنی قوم اور اعلیٰ کاہنوں نے تمہیں میرے حوالے کِیا ہے۔ آخر تُم نے کیا کِیا ہے؟“‏ 36  یسوع نے جواب دیا:‏ ”‏میری بادشاہت کا اِس دُنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر اِس کا دُنیا سے تعلق ہوتا تو میرے خادم لڑتے تاکہ مَیں یہودیوں کے حوالے نہ کِیا جاتا۔ لیکن میری بادشاہت یہاں کی نہیں ہے۔“‏ 37  پیلاطُس نے اُن سے کہا:‏ ”‏تو پھر کیا تُم ایک بادشاہ ہو؟“‏ یسوع نے جواب دیا:‏ ”‏آپ نے خود ہی کہہ دیا کہ مَیں ایک بادشاہ ہوں۔ مَیں اِسی لیے پیدا ہوا اور دُنیا میں آیا تاکہ سچائی کے بارے میں گواہی دوں۔ جو شخص سچائی کی طرف ہے، وہ میری سنتا ہے۔“‏ 38  پیلاطُس نے کہا:‏ ”‏سچائی کیا ہے؟“‏ اِس کے بعد وہ دوبارہ یہودیوں کے پاس باہر گیا اور کہا:‏ ”‏اِس آدمی نے کوئی جُرم نہیں کِیا۔ 39  تمہارا رواج ہے کہ مَیں عیدِفسح کے موقعے پر تمہارے لیے ایک آدمی کو رِہا کروں۔ کیا تُم چاہتے ہو کہ مَیں یہودیوں کے بادشاہ کو رِہا کر دوں؟“‏ 40  وہ لوگ پھر سے چلّائے کہ ”‏اِس آدمی کو نہیں بلکہ برابا کو رِہا کریں!‏“‏ برابا ایک ڈاکو تھا۔‏

فٹ‌ نوٹس

یعنی خدا کا گھر
یا ”‏گواہی دیں“‏