مواد فوراً دِکھائیں

پاک کلام میں قدرتی آفتوں کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے؟‏

پاک کلام میں قدرتی آفتوں کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے؟‏

پاک کلام کا جواب

 آج‌کل جو قدرتی آفتیں آ رہی ہیں، وہ خدا کی طرف سے نہیں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ خدا کو اُن لوگوں کی بہت فکر ہے جو اِن آفتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ اپنی بادشاہت کے ذریعے ہر اُس چیز کو ختم کر دے گا جس کی وجہ سے اِنسانوں کو تکلیف اُٹھانی پڑتی ہے اور اِس میں قدرتی آفتیں بھی شامل ہیں۔ لیکن جب تک وہ وقت نہیں آتا، خدا اُن لوگوں کو تسلی دیتا ہے جن کو قدرتی آفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔—‏2-‏کُرنتھیوں 1:‏3‏۔‏

 ہم کیوں یقین رکھ سکتے ہیں کہ قدرتی آفتیں خدا کی طرف سے سزا نہیں ہیں؟‏

 پاک کلام سے پتہ چلتا ہے کہ خدا نے لوگوں کو سزا دینے کے لیے قدرتی طاقتوں کو اِستعمال کِیا۔ لیکن اُس نے جس طرح سے اِن کو اِستعمال کِیا، اُس میں اور قدرتی آفتوں سے ہونے والی تباہی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔‏

  •   قدرتی آفتیں ہر طرح کے لوگوں کو ہلاک کرتی اور نقصان پہنچاتی ہیں۔‏ اِس کی بجائے جب خدا نے قدرتی طاقتوں کے ذریعے لوگوں کو سزا دی تو اُن سے صرف بُرے لوگ ہلاک ہوئے۔ مثال کے طور پر جب خدا نے سدوم اور عمورہ نامی قدیم شہروں کو تباہ کِیا تو اُس نے اپنے بندے لُوط اور اُن کی بیٹیوں کو بچا لیا۔ (‏پیدایش 19:‏29، 30‏)‏ خدا نے اُس زمانے کے لوگوں کے دلوں کو پڑھ لیا اور صرف اُنہی لوگوں کو تباہ کِیا جو اُس کی نظر میں بُرے تھے۔—‏پیدایش 18:‏23-‏32؛‏ 1-‏سموئیل 16:‏7‏۔‏

  •   قدرتی آفتیں اپنے آنے سے پہلے بالکل تھوڑی سی یا کوئی بھی آگاہی نہیں دیتیں۔‏ لیکن خدا نے بُرے لوگوں کو قدرتی طاقتوں سے ہلاک کرنے سے پہلے اُنہیں آگاہ کِیا۔ جن لوگوں نے اِن آگاہیوں پر دھیان دیا، اُنہیں اپنی جان بچانے کا موقع مل گیا۔—‏پیدایش 7:‏1-‏5؛‏ متی 24:‏38، 39‏۔‏

  •   کچھ حد تک اِنسان بھی قدرتی آفتوں کے ذمے‌دار ہیں۔‏ وہ کیسے؟ ماحول کو نقصان پہنچانے سے اور ایسی جگہوں پر عمارتیں بنانے سے جہاں پر زلزلے، سیلاب یا موسم کے اِنتہائی خراب ہو جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ (‏مکاشفہ 11:‏18‏)‏ اِنسان کے ایسے کاموں سے ہونے والے نقصان کا ذمے‌دار خدا کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔—‏امثال 19:‏3‏۔‏

 کیا قدرتی آفتیں آخری زمانے کا نشان ہیں؟‏

 جی ہاں۔ پاک کلام کی پیش‌گوئیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ”‏آخری زمانے‏“‏ میں قدرتی آفتیں آئیں گی۔ (‏متی 24:‏3؛‏ 2-‏تیمُتھیُس 3:‏1‏)‏ مثال کے طور پر یسوع مسیح نے ہمارے زمانے کے بارے میں پیش‌گوئی کی تھی کہ ”‏جگہ جگہ قحط پڑیں گے اور زلزلے آئیں گے۔“‏ (‏متی 24:‏7‏)‏ لیکن بہت جلد خدا اُن سب چیزوں کو ختم کر دے گا جن کی وجہ سے اِنسانوں کو تکلیفیں اور مشکلیں اُٹھانی پڑتی ہیں۔ اور اِن میں قدرتی آفتیں بھی شامل ہوں گی۔—‏مکاشفہ 21:‏3، 4‏۔‏

 خدا اُن لوگوں کی مدد کیسے کرتا ہے جو قدرتی آفتوں کا شکار ہوتے ہیں؟‏

  •   خدا اپنے کلام بائبل سے قدرتی آفتوں کا شکار لوگوں کو تسلی دیتا ہے۔‏ پاک کلام میں ہمیں اِس بات کا یقین دِلایا گیا ہے کہ خدا کو ہماری فکر ہے اور ہمیں مصیبت میں دیکھ کر اُسے بہت دُکھ ہوتا ہے۔ (‏یسعیاہ 63:‏9؛‏ 1-‏پطرس 5:‏6، 7‏)‏ اِس میں ایک ایسے وقت کا وعدہ بھی کِیا گیا ہے جب اِنسانوں کو پھر کبھی قدرتی آفتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔​—‏بکس ”‏ قدرتی آفتوں کا شکار لوگوں کو تسلی دینے کے لیے پاک کلام سے آیتیں‏“‏ کو دیکھیں۔‏

  •   خدا اپنے بندوں کے ذریعے قدرتی آفتوں کا شکار لوگوں کی مدد کرتا ہے۔‏ خدا اپنے بندوں کو سکھاتا ہے کہ وہ یسوع مسیح کی مثال پر عمل کریں۔ یسوع مسیح کے بارے میں پیش‌گوئی کی گئی تھی کہ وہ ”‏شکستہ‌دلوں کو تسلی“‏ اور ”‏سب غمگینوں کو دِلاسا“‏ دیں گے۔ (‏یسعیاہ 61:‏1، 2‏)‏ خدا کے بندے بھی ایسا ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔—‏یوحنا 13:‏15‏۔‏

     خدا اپنے بندوں کے ذریعے قدرتی آفتوں کا شکار لوگوں تک ضرورت کی چیزیں بھی پہنچاتا ہے۔—‏اعمال 11:‏28-‏30؛‏ گلتیوں 6:‏10‏۔‏

یہوواہ کے گواہ پورٹو ریکو میں طوفان سے متاثرہ لوگوں کو ضرورت کی چیزیں دے رہے ہیں۔‏

 کیا پاک کلام ہماری مدد کر سکتا ہے کہ ہم قدرتی آفتوں کا سامنا کرنے کے لیے پہلے سے تیاری کر سکیں؟‏

 جی۔ اگرچہ پاک کلام کو اِس لیے نہیں لکھا گیا تھا کہ یہ قدرتی آفتوں کے لیے تیاری کرنے میں ہماری رہنمائی کرے لیکن اِس میں ایسے اصول پائے جاتے ہیں جن کے ذریعے ہم اِس سلسلے میں مدد حاصل کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر:‏

  •   پہلے سے منصوبہ بنائیں کہ قدرتی آفت آنے کی صورت میں آپ کیا کریں گے۔‏ پاک کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏ہوشیار بلا کو دیکھ کر چھپ جاتا ہے لیکن نادان بڑھے چلے جاتے اور نقصان اُٹھاتے ہیں۔“‏ (‏امثال 22:‏3‏)‏ یہ سمجھ‌داری کی بات ہوگی کہ ہم پہلے سے منصوبہ بنائیں کہ جب قدرتی آفت آئے گی تو ہم کیا کریں گے۔ اِس منصوبے میں یہ شامل ہے کہ ہم ایک ایمرجنسی بیگ تیار کر کے رکھیں اور اِس بات کی مشق کریں کہ اگر قدرتی آفت آ گئی تو سب گھر والے کہاں ملیں گے۔‏

  •   چیزوں سے زیادہ زندگی کو اہمیت دیں۔‏ پاک کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏ہم خالی ہاتھ دُنیا میں آئے ہیں اور خالی ہاتھ چلے جائیں گے۔“‏ (‏1-‏تیمُتھیُس 6:‏7، 8‏)‏ قدرتی آفت میں خود کو بچانے کے لیے ہمیں اپنے گھر اور چیزوں کو چھوڑنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری زندگی سے زیادہ قیمتی کوئی چیز نہیں۔—‏متی 6:‏25‏۔‏