مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سرِورق کا موضوع

کیا احتجاج مسائل کا حل ہے؟‏

کیا احتجاج مسائل کا حل ہے؟‏

اِس رسالے کے ناشرین یہوواہ کے گواہ ہیں جو نہ تو سیاست میں حصہ لیتے ہیں اور نہ ہی سیاسی معاملات میں کسی کی طرف‌داری کرتے ہیں۔‏ (‏یوحنا 17:‏16؛‏ 18:‏36‏)‏ حالانکہ اِس مضمون میں ماضی میں ہوئے کچھ احتجاجوں کا ذکر کِیا گیا ہے لیکن اِس میں کسی خاص قوم کی حمایت نہیں کی گئی اور نہ ہی کسی سیاسی معاملے میں کسی کی طرف‌داری کی گئی ہے۔‏

محمد بوعزیزی ایک 26 سالہ نوجوان تھے جو تیونس میں رہتے تھے۔‏ حالانکہ وہ پڑھے لکھے تھے لیکن اُن کو کوئی اچھی ملازمت نہیں ملی۔‏ روزی روٹی کمانے کے لئے آخرکار اُنہوں نے سبزیوں اور پھلوں کا ٹھیلا لگا لیا۔‏ اکثر کچھ پولیس والے ٹھیلے پر آ کر اُن سے رشوت لیتے تھے۔‏ لیکن 17 دسمبر 2010ء کی صبح بوعزیزی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔‏ ہوا یہ کہ کچھ پولیس والوں نے زبردستی اُن کے ٹھیلے سے سارے پھل اُٹھا لئے۔‏ لیکن جب اُنہوں نے ترازو بھی اُٹھانا چاہا تو بوعزیزی نے اُنہیں روکنے کی کوشش کی۔‏ جو لوگ وہاں کھڑے یہ دیکھ رہے تھے،‏ اُن میں سے بعض کا کہنا ہے کہ جب بوعزیزی پولیس والوں کو روک رہے تھے تو ایک پولیس والی نے اُن کو تھپڑ مارا۔‏

بوعزیزی اپنی بےعزتی برداشت نہ کر سکے۔‏ وہ بڑے غصے میں قریب کے ایک سرکاری دفتر میں اپنی شکایت درج کرانے گئے۔‏ لیکن کسی نے اُن کی نہ سنی۔‏ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ بوعزیزی دفتر کے سامنے کھڑے ہو کر چلّا رہے تھے کہ ”‏مجھے بتاؤ،‏ مَیں اپنے گھر والوں کا پیٹ کیسے پالوں؟‏“‏ پھر بوعزیزی نے اپنے اُوپر تیل ڈالا اور خود کو آگ لگا لی۔‏ وہ بُری طرح جُھلس گئے اور تقریباً تین ہفتے بعد فوت ہو گئے۔‏

بوعزیزی نے جو کچھ کِیا،‏ وہ ایک چنگاری کی طرح تھا جس نے تیونس کے ساتھ‌ساتھ کئی اَور ملکوں میں آگ لگا دی۔‏ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اِسی وجہ سے تیونس کی عوام نے حکومت کے خلاف احتجاج کِیا اور اُس کا تختہ اُلٹ دیا۔‏ احتجاج کی یہ لہر بہت سے عرب ملکوں میں پھیل گئی۔‏ سن 2011ء میں یورپی پارلیمنٹ نے بوعزیزی اور چار اَور لوگوں کو اپنے حق کے لئے آواز اُٹھانے پر ایوارڈ دیا۔‏ اِس کے ساتھ‌ساتھ لندن کے اخبار دی ٹائمز نے بوعزیزی کو 2011ء کی بہترین شخصیت قرار دیا۔‏

اِس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ احتجاج ایک طاقت‌ور ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے۔‏ لیکن آج‌کل اِتنے زیادہ احتجاج کیوں ہوتے ہیں؟‏ کیا احتجاج کئے بغیر مسائل کو حل کِیا جا سکتا ہے؟‏

احتجاج کی لہر کیوں اُٹھتی ہے؟‏

بہت سے لوگ اِن باتوں کی وجہ سے احتجاج کرتے ہیں:‏

  • سماجی نظام سے مایوسی۔‏ جب ایک ملک کی مالی حالت ٹھیک ہوتی ہے اور حکومت عوام کی ضروریات کو پورا کرتی ہے تو لوگ احتجاج کرنے کی طرف زیادہ مائل نہیں ہوتے۔‏ اگر اُنہیں کسی مسئلے کا سامنا ہوتا بھی ہے تو وہ حکومت کے بنائے نظام کے تحت اِسے حل کرتے ہیں۔‏ اِس کے برعکس اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ اُن کے ملک کا نظام خراب ہے،‏ عوام کو اِنصاف نہیں مل رہا اور حکومت لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے میں طرف‌داری سے کام لے رہی ہے تو لوگ احتجاج کرنے پر اُتر آتے ہیں۔‏

  • کوئی خاص واقعہ۔‏ کبھی‌کبھار کوئی ایک واقعہ لوگوں کو احتجاج کرنے پر اُکساتا ہے۔‏ شاید لوگ پہلے اِس قسم کے واقعات پر چپ رہتے تھے لیکن اِس واقعے پر اُن کو لگتا ہے اُنہیں اِس کے خلاف آواز اُٹھانی چاہئے۔‏ محمد بوعزیزی کے واقعے پر تیونس کے لوگوں نے ایسا ہی کِیا تھا۔‏ جب بھارت میں ایک سماجی کارکن انا ہزارے نے رشوت‌خوری کے خلاف بھوک ہڑتال کی تو 450 شہروں اور گاؤں میں اُن کے حمایتیوں نے بھی احتجاج کِیا۔‏

خدا کے کلام میں بہت پہلے بتا دیا گیا تھا کہ اِس دُنیا میں ”‏کچھ لوگوں کے پاس اِختیار ہوتا ہے اور باقی لوگوں کو اِختیار والوں کے ہاتھوں تکلیف سہنی پڑتی ہے۔‏“‏ (‏واعظ 8:‏9‏،‏ گڈ نیوز ٹرانسلیشن‏)‏ پُرانے زمانے کی نسبت آج‌کل رشوت‌خوری اور نااِنصافی زیادہ پھیل گئی ہے۔‏ اب لوگ سیاسی اور معاشی نظام سے اَور بھی زیادہ مایوس ہو چکے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ آج‌کل سمارٹ‌فون،‏ اِنٹرنیٹ اور ٹی‌وی کی وجہ سے کسی واقعے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہے اور بڑے پیمانے پر احتجاج کا باعث بنتی ہے۔‏

احتجاج کرنے سے کون‌سے فائدے ہوئے ہیں؟‏

احتجاج کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ احتجاج کے یہ فائدے ہیں:‏

  • غریبوں کی مدد ہوتی ہے۔‏ سن 1931ء میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کے شہر شکاگو میں بہت سے لوگ بےروزگار تھے اور اِس وجہ سے مکان کا کرایہ ادا نہیں کر سکتے تھے۔‏ جب مالک مکانوں نے اُن کو گھر خالی کرنے کے لئے نوٹس بھیجے تو اِن لوگوں نے اِس کے خلاف احتجاج کئے۔‏ اِن احتجاجوں کی وجہ سے حکومت نے لوگوں کو کچھ عرصے تک کرایہ دئے بغیر گھر میں رہنے کی اِجازت دے دی اور بعض لوگوں کو ملازمت بھی دی۔‏ شہر نیو یارک میں بھی ایسے ہی مسئلے پر احتجاج کِیا گیا جس کی وجہ سے 77 ہزار خاندان بےگھر ہونے سے بچ گئے۔‏

  • لوگوں کو اِنصاف ملتا ہے۔‏ امریکہ کی ریاست الاباما کے شہر مونٹ‌گومری میں بہت عرصے تک بسوں میں سیاہ‌فام اور سفیدفام لوگوں کے لئے الگ الگ سیٹیں ہوتی تھیں۔‏ لیکن یہاں کے بہت سے لوگ اِس اِمتیازی سلوک کو ختم کرنا چاہتے تھے۔‏ اِس لئے اُنہوں نے 1955ء سے 1956ء تک احتجاج کے طور پر بسوں کو اِستعمال نہیں کِیا۔‏ اِس کے نتیجے میں حکومت نے حکم جاری کِیا کہ بسوں میں سیاہ‌فام اور سفیدفام لوگوں کے لئے الگ الگ سیٹیں نہیں ہوں گی۔‏

  • تعمیراتی کام روک دیا جاتا ہے۔‏ ایک کمپنی ہانگ‌کانگ کے قریب کوئلے سے چلنے والا ایک بجلی‌گھر بنانا چاہتی تھی۔‏ لیکن دسمبر 2011ء میں ہزاروں لوگوں نے اِس منصوبے کے خلاف احتجاج کِیا کیونکہ اُنہیں لگتا تھا کہ اِس سے بہت زیادہ آلودگی پھیلے گی۔‏ اِس کے نتیجے میں اِس منصوبے کو روک دیا گیا۔‏

حالانکہ کبھی‌کبھار احتجاج کرنے والوں کی مانگیں پوری ہو جاتی ہیں لیکن خدا کی بادشاہت ہی مسائل کا بہترین حل ہے۔‏

سچ ہے کہ احتجاج کرنے والے کسی حد تک اپنی مانگیں پوری کرا لیتے ہیں۔‏ لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔‏ مثال کے طور پر کچھ سیاسی رہنما لوگوں کی مانگیں پوری کرنے کی بجائے اُن پر اَور زیادہ سختی کرنے لگتے ہیں۔‏ حال ہی میں مشرقِ‌وسطیٰ کے ایک صدر نے اپنے ملک میں ہونے والے احتجاج کے بارے میں کہا:‏ ”‏ہمیں احتجاج کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی۔‏“‏ اور اِس صدر نے ایسا کِیا بھی۔‏ اِس کے نتیجے میں اِس ملک میں ہزاروں احتجاجی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔‏

حالانکہ کبھی‌کبھار احتجاج کرنے والوں کے مطالبے پورے ہو جاتے ہیں لیکن اِس کے بعد اکثر اَور مسئلے کھڑے ہو جاتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر ایک افریقی ملک کے حکمران کو عوام کے احتجاج کرنے پر عہدے سے ہٹا دیا گیا۔‏ اِس احتجاج میں حصہ لینے والے ایک شخص نے نئی حکومت کے بارے میں رسالے ٹائم کو یہ بیان دیا:‏ ”‏ہم نے تو سوچا تھا کہ ملک کے حالات ٹھیک ہو جائیں گے لیکن فوراً ہی حالات بہت بگڑ گئے۔‏“‏

مسائل کا بہترین حل کیا ہے؟‏

بہت سے مشہور لوگوں کا کہنا ہے کہ ہر اِنسان کو ظلم کے خلاف اپنی آواز اُٹھانی چاہئے۔‏ اِس سلسلے میں جمہوریہ چیک کے سابق صدر واسلاو ہاویل کے بیان پر غور کریں جنہوں نے اِنسانی حقوق کی خاطر کئی سال جیل میں کاٹے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏جو شخص ظلم کے خلاف احتجاج کرتا ہے،‏ اُسے خود کو صحیح ثابت کرنے کے لئے اپنی جان تک دینے کو تیار رہنا چاہئے۔‏“‏

محمد بوعزیزی اور کئی اَور لوگوں نے ایسا ہی کِیا۔‏ حال ہی میں ایک ایشیائی ملک میں بہت سے لوگوں نے مذہبی اور سیاسی نااِنصافیوں سے تنگ آ کر خود کو آگ لگا لی۔‏ اِنہی نااِنصافیوں کے شکار ایک آدمی نے رسالے نیوز ویک کو بتایا کہ ”‏نہ تو ہمارے پاس بندوقیں ہیں اور نہ ہی ہم لوگوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔‏ اپنی جان دینے کے سوا ہمارے پاس کوئی اَور راستہ نہیں ہے۔‏“‏

پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ نااِنصافی،‏ رشوت‌خوری اور ظلم‌وستم کو کیسے ختم کِیا جائے گا۔‏ اِس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خدا نے آسمان پر ایک حکومت قائم کی ہے جو زمین کے سیاسی اور معاشی نظام کو ختم کر دے گی۔‏ خدا کی حکومت کے بادشاہ کے بارے میں یہ پیش‌گوئی کی گئی ہے کہ ”‏وہ محتاج کو جب وہ فریاد کرے اور غریب کو جس کا کوئی مددگار نہیں چھڑائے گا۔‏ وہ فدیہ دے کر اُن کی جان کو ظلم اور جبر سے چھڑائے گا۔‏“‏—‏زبور 72:‏12،‏ 14‏۔‏

یہوواہ کے گواہ مانتے ہیں کہ صرف خدا کی بادشاہت کے ذریعے ہی زمین پر امن قائم ہوگا۔‏ (‏متی 6:‏9،‏ 10‏)‏ اِسی وجہ سے وہ احتجاجوں میں حصہ نہیں لیتے۔‏ شاید کچھ لوگوں کو اِس بات پر یقین کرنا مشکل لگے کہ خدا کی حکومت اِنسانوں کے مسائل کو حل کرے گی۔‏ لیکن بہت سے لوگوں نے پاک کلام سے اِس بات کے ثبوت دیکھے ہیں کہ خدا کی بادشاہت واقعی ایسا کرے گی۔‏ اِس وجہ سے اُن کو خدا کی حکومت پر پورا بھروسا ہو گیا ہے۔‏ کیوں نہ آپ بھی پاک کلام سے اِس حکومت کے بارے میں سیکھیں؟‏