مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

قدیم اصول جدید دَور میں

دل سے معاف کریں

دل سے معاف کریں

پاک کلام کا اصول:‏ ‏”‏اگر کسی کو دوسرے کی شکا‌یت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔‏ جیسے [‏یہوواہ خدا]‏ نے تمہارے قصور معاف کئے ویسے ہی تُم بھی کرو۔‏“‏—‏کُلسّیوں 3:‏13‏۔‏

تشریح:‏ خدا کے کلام میں گُناہ کو قرض سے اور معاف کرنے کو قرض کی معافی سے تشبیہ دی گئی ہے۔‏ (‏لُوقا 11:‏4‏)‏ ایک لغت کے مطابق جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏معاف کرنا“‏ کِیا گیا ہے،‏ اُس کا مطلب ہے:‏ ”‏قرض‌دار سے قرض واپس کرنے کا تقاضا نہ کرنا۔‏“‏ لہٰذا کسی شخص کو معاف کرتے وقت بدلے میں اُس سے کسی طرح کی تلا‌فی کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔‏ معاف کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اُس تکلیف سے نظریں چُرا رہے ہیں جو دوسرے شخص نے ہمیں پہنچائی ہے یا اُس کے غلط کام کو صحیح قرار دے رہے ہیں۔‏ دراصل اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے دل سے رنجش کو بالکل مٹا دیں،‏ چاہے ہماری شکا‌یت جائز ہی کیوں نہ ہو۔‏

آج بھی فائدہ‌مند:‏ عیب‌دار ہونے کی وجہ سے ہم سب گُناہ کرتے ہیں۔‏ (‏رومیوں 3:‏23‏)‏ لہٰذا دوسروں کو معاف کرنا سمجھ‌داری کی بات ہے کیونکہ کبھی نہ کبھی ہمیں بھی دوسروں سے معافی چاہیے ہوتی ہے۔‏ دوسروں کو معاف کرنے سے ہمیں اَور بھی فائدے ہوتے ہیں۔‏ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏

جب ہم دوسروں کو معاف نہیں کرتے اور اپنے دل میں غصے اور رنجش کو پلنے دیتے ہیں تو ہم خود کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔‏ اِن احساسات کی وجہ سے ہم اندر ہی اندر کڑھتے رہتے ہیں اور ہماری خوشیوں کو زنگ لگ جاتا ہے۔‏ اِن سے ہماری صحت کو بھی شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔‏ ایک طبی جریدے میں لکھا ہے:‏ ”‏حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ غصے اور نفرت میں اور دل کی بیماریوں میں گہرا تعلق ہے۔‏“‏‏—‏جرنل آف دی امریکن کالج آف کارڈیولوجی۔‏

اِس کے برعکس جب ہم دل سے دوسروں کو معاف کرتے ہیں تو ہم امن اور اِتحاد کو فروغ دیتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے رہتے ہیں۔‏ اِس طرح ہم خدا کو بھی خوش کرتے ہیں جو ہم سے توقع کرتا ہے کہ ہم دوسروں کو دل سے معاف کریں،‏ ویسے ہی جیسے وہ توبہ کرنے والے لوگوں کو معاف کرتا ہے۔‏—‏مرقس 11:‏25؛‏ اِفسیوں 4:‏32؛‏ 5:‏1‏۔‏