مواد فوراً دِکھائیں

کون لوگ آسمان پر جاتے ہیں؟‏

کون لوگ آسمان پر جاتے ہیں؟‏

پاک کلام کا جواب

 خدا نے ایسے مسیحیوں کی ایک تعداد مقرر کی ہے جنہیں اُن کی موت کے بعد آسمان پر زندگی حاصل کرنے کے لیے زندہ کِیا جائے گا۔ (‏1-‏پطرس 1:‏3، 4‏)‏ جب اُنہیں چُن لیا جاتا ہے تو اُنہیں اپنے ایمان کو مضبوط رکھنے اور اپنے چال‌چلن کو پاک رکھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے تاکہ وہ اُس وراثت کے لیے نااہل نہ ہو جائیں جو اُنہیں آسمان میں ملے گی۔—‏اِفسیوں 5:‏5؛‏ فِلپّیوں 3:‏12-‏14‏۔‏

جو لوگ آسمان پر جائیں گے، وہ وہاں کیا کریں گے؟‏

 وہ 1000 سال تک یسوع مسیح کے ساتھ بادشاہوں اور کاہنوں کے طور پر حکمرانی کریں گے۔ (‏مکاشفہ 5:‏9، 10؛‏ 20:‏6‏)‏ وہ ”‏نئے آسمان“‏ یعنی آسمانی حکومت کو تشکیل دیں گے جو ”‏نئی زمین“‏ یعنی نئے اِنسانی معاشرے پر حکمرانی کرے گی۔ اِن حکمرانوں کی مدد سے اِنسان ہر لحاظ سے بے‌عیب ہو جائیں گے جو کہ شروع سے اِنسانوں کے سلسلے میں خدا کا مقصد تھا۔—‏یسعیاہ 65:‏17؛‏ 2-‏پطرس 3:‏13‏۔‏

کتنے لوگ آسمان پر زندہ کیے جائیں گے؟‏

 پاک کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1 لاکھ 44 ہزار لوگوں کو آسمان پر زندہ کِیا جائے گا۔ (‏مکاشفہ 7:‏4‏)‏ مکاشفہ 14:‏1-‏3 میں درج رُویا میں یوحنا رسول نے دیکھا کہ ”‏میمنا کوہِ‌صیون پر کھڑا تھا اور اُس کے ساتھ 1،44،000 (‏ایک لاکھ چوالیس ہزار)‏ لوگ تھے۔“‏ اِس رُویا میں ”‏میمنا“‏ یسوع مسیح کی طرف اِشارہ کرتا ہے جنہیں مُردوں میں سے زندہ کِیا گیا۔ (‏یوحنا 1:‏29؛‏ 1-‏پطرس 1:‏19‏)‏ ”‏کوہِ‌صیون“‏ یسوع مسیح اور اُن کے ساتھ آسمان میں حکمرانی کرنے والے 1 لاکھ 44 ہزار اشخاص کے اعلیٰ مرتبے کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔—‏زبور 2:‏6؛‏ عبرانیوں 12:‏22‏۔‏

 جن لوگوں کو مسیح کے ساتھ بادشاہت کرنے کے لیے ”‏بلا‌یا اور چُنا گیا ہے،“‏ اُنہیں ’‏چھوٹا گلّہ‘‏ کہا گیا ہے۔ (‏مکاشفہ 17:‏14؛‏ لُوقا 12:‏32‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع کی بھیڑوں کی کُل تعداد کے مقابلے میں آسمان پر جانے والے مسیحیوں کی تعداد کافی کم ہے۔—‏یوحنا 10:‏16‏۔‏

آسمان پر جانے والے لوگوں کے بارے میں غلط‌فہمیاں

 غلط‌فہمی:‏ تمام نیک لوگ آسمان پر جاتے ہیں۔‏

 حقیقت:‏ خدا کا وعدہ ہے کہ زیادہ‌تر نیک لوگ زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کریں گے۔‏‏—‏زبور 37:‏29،‏ 34‏۔‏

  •   یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏کوئی بھی شخص آسمان پر نہیں گیا۔“‏ (‏یوحنا 3:‏13‏)‏ اِس طرح اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ اُن کے زمین پر آنے سے پہلے جو نیک لوگ فوت ہوئے جیسے کہ ابراہام، موسیٰ، ایوب اور داؤد، وہ آسمان پر نہیں گئے تھے۔ (‏اعمال 2:‏29،‏ 34‏)‏ اِس کی بجائے وہ لوگ یہ اُمید رکھتے تھے کہ اُنہیں زمین پر زندہ کِیا جائے گا جیسے کہ ایوب کے اِن الفاظ سے پتہ چلتا ہے:‏ ”‏اگر اِنسان مر جائے تو کیا وہ پھر سے جی سکے گا؟ ‏.‏.‏.‏ تُو آواز دے گا اور مَیں تجھے جواب دوں گا۔“‏‏—‏ایوب 14:‏14،‏ 15‏، نیو اُردو بائبل ورشن۔‏

  •   جن لوگوں کو آسمان میں زندگی پانے کے لیے زندہ کِیا جاتا ہے، وہ ”‏سب سے پہلے زندہ“‏ ہوتے ہیں۔ (‏مکاشفہ 20:‏6‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اَور بھی لوگوں کو زندہ کِیا جائے گا۔ اور ایسا زمین پر ہوگا۔‏

  •   پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ خدا کی بادشاہت کے تحت ’‏موت نہیں رہے گی۔‘‏ (‏مکاشفہ 21:‏3، 4‏)‏ خدا کا یہ وعدہ صرف زمین کے سلسلے میں ہی پورا ہو سکتا ہے کیونکہ آسمان پر موت کبھی نہیں رہی۔‏

 غلط‌فہمی:‏ ہر شخص خود یہ فیصلہ کر تا ہے کہ وہ آسمان پر زندگی حاصل کرے گا یا زمین پر۔‏

 حقیقت:‏ خدا یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اُس کے وفادار رہنے والے کون سے مسیحی ”‏اِنعام یعنی آسمان پر ‏.‏.‏.‏ زندگی حاصل“‏ کریں گے۔ (‏فِلپّیوں 3:‏14‏)‏ کسی شخص کی ذاتی خواہش سے اِس بات کا کوئی تعلق نہیں کہ اُسے آسمان پر جانے کے لیے چُنا جائے گا یا نہیں۔‏‏—‏متی 20:‏20-‏23‏۔‏

 غلط‌فہمی:‏ زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید آسمان پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید سے کم‌تر ہے اور یہ صرف اُن لوگوں کے لیے ہے جو آسمان پر جانے کے لائق نہیں ہیں۔‏

 حقیقت:‏ خدا نے اُن لوگوں کو جو زمین پر ہمیشہ کی زندگی پائیں گے، ’‏میرے بندے،‘‏ ”‏میرے برگزیدے [‏یعنی چُنے ہوئے]‏“‏ اور ’‏یہوواہ کے مبارک لوگ‘‏ کہا۔ (‏یسعیاہ 65:‏21-‏23‏)‏ اُنہیں یہ اعزاز حاصل ہوگا کہ وہ خدا کے اُس مقصد کے مطابق بالکل بے‌عیب ہو جائیں اور زمین پر فردوس میں ہمیشہ کی زندگی حاصل کریں جو خدا نے شروع ہی سے اِنسانوں کے سلسلے میں ٹھہرایا تھا۔—‏پیدایش 1:‏28؛‏ زبور 115:‏16؛‏ یسعیاہ 45:‏18‏۔‏

 غلط‌فہمی:‏ مکاشفہ میں 1 لاکھ 44 ہزار کا عدد حقیقی نہیں بلکہ مجازی ہے۔‏

 حقیقت:‏ سچ ہے کہ مکاشفہ کی کتاب میں کچھ اعداد مجازی ہیں لیکن کچھ اعداد حقیقی بھی ہیں جیسے کہ اِس میں ’‏میمنے کے 12 رسولوں کے 12 ناموں‘‏ کا ذکر ہے۔ (‏مکاشفہ 21:‏14‏)‏ آئیں، اِس بات کے ثبوت پر غور کریں کہ 1 لاکھ 44 ہزار کے عدد کو حقیقی کیوں سمجھا جانا چاہیے۔‏

 مکاشفہ 7:‏4 میں لکھا ہے کہ ”‏پھر مَیں نے اُن کی تعداد سنی جن پر مُہر لگائی گئی تھی [‏یا جن کے سلسلے میں یہ تصدیق کی گئی تھی کہ اُنہیں آسمان پر زندگی ملے گی]‏۔ اُن کی تعداد 1،44،000 (‏ایک لاکھ چوالیس ہزار)‏ تھی۔“‏ اِس آیت کے سیاق‌وسباق میں ایک اَور گروہ کا ذکر ہے یعنی”‏لوگوں کی ایک بڑی بِھیڑ “‏ کا ”‏جسے کوئی گن نہیں سکتا تھا۔“‏ جو لوگ ”‏بڑی بِھیڑ“‏ میں شامل ہیں، خدا اُنہیں بھی نجات دِلائے گا۔ (‏مکاشفہ 7:‏9، 10‏)‏ اگر 1 لاکھ 44 ہزار کا عدد مجازی ہوتا یعنی یہ کسی ایسے گروہ کی طرف اِشارہ کرتا جس کی کوئی مخصوص تعداد نہیں ہے تو پھر اِن دونوں گروہوں میں فرق واضح نہ ہوتا۔‏ a

 اِس کے علاوہ 1 لاکھ 44 ہزار اشخاص کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ”‏اِن کو اِنسانوں میں سے خرید لیا گیا تاکہ ‏.‏.‏.‏ پہلے پھل ہوں۔“‏ (‏مکاشفہ 14:‏4‏)‏ اِصطلا‌ح ”‏پہلے پھل“‏ پھلوں کی کُل تعداد کی طرف نہیں بلکہ کچھ پھلوں کی طرف اِشارہ کرتی ہے۔ اِس لحاظ سے یہ اِصطلا‌ح واقعی اُن لوگوں پر لاگو ہوتی ہے جو یسوع کے ساتھ آسمان سے زمین پر بے‌شمار لوگوں پر حکمرانی کریں گے۔—‏مکاشفہ 5:‏10‏۔‏

a پروفیسر رابرٹ تھامس نے مکاشفہ 7:‏4 میں درج عدد 1لاکھ 44 ہزار کے بارے میں لکھا:‏ ”‏یہ عدد ایک مخصوص تعداد کے لیے اِستعمال ہوا ہے جبکہ مکاشفہ 7:‏9 میں مخصوص تعداد کا ذکر نہیں ہے۔ اگر اِس عدد کو مجازی سمجھا جائے تو پھر مکاشفہ کی کتاب میں درج کسی بھی عدد کو حقیقی نہیں سمجھا جا سکتا۔“‏‏—‏ریولیشن 1-‏7:‏ این ایگزجیٹیکل کومینٹری،‏ صفحہ 474۔‏