مواد فوراً دِکھائیں

آگ کی جھیل کیا ہے؟‏

آگ کی جھیل کیا ہے؟‏

پاک کلام کا جواب

 آگ کی جھیل ابدی ہلاکت کی علامت ہے۔ آگ کی جھیل اور ہنوم کی وادی ایک ہی چیز کی طرف اِشارہ کرتی ہیں۔‏

یہ جھیل حقیقی نہیں ہے

 پاک کلام کی وہ پانچ آیتیں جن میں ”‏آگ کی جھیل“‏ کا ذکر ہوا ہے، ظاہر کرتی ہیں کہ یہ کوئی حقیقی جھیل نہیں ہے بلکہ کسی چیز کی علامت ہے۔ (‏مکاشفہ 19:‏20؛‏ 20:‏10،‏ 14، 15؛‏ 21:‏8‏)‏ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ اِن کو آگ کی جھیل میں ڈالا جائے گا:‏

  •   اِبلیس۔ (‏مکاشفہ 20:‏10‏)‏ چونکہ اِبلیس ایک روحانی مخلوق ہے اِس لیے اُسے حقیقی آگ سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔—‏خروج 3:‏2؛‏ قضاۃ 13:‏20‏۔‏

  •   موت۔ (‏مکاشفہ 20:‏14‏)‏ موت کوئی چیز نہیں بلکہ ایک ایسی حالت ہے جس میں ایک شخص کچھ بھی نہیں کر سکتا کیونکہ ”‏قبر میں ‏.‏.‏.‏ نہ کوئی کام ہے نہ ہی کوئی منصوبہ۔“‏ (‏واعظ 9:‏10‏، نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ لہٰذا موت کو حقیقی آگ میں نہیں جلایا جا سکتا۔‏

  •   ”‏وحشی درندہ“‏ اور ”‏جھوٹا نبی۔“‏ (‏مکاشفہ 19:‏20‏)‏ چونکہ یہ دونوں حقیقی نہیں بلکہ مجازی ہیں اِس لیے یہ کہنا مناسب ہے کہ جس جھیل میں اُنہیں ڈالا جائے گا، وہ بھی مجازی ہے۔—‏مکاشفہ 13:‏11، 12؛‏ 16:‏13‏۔‏

یہ جھیل ابدی ہلاکت کی علامت ہے

 پاک کلام میں لکھا ہے کہ”‏آگ کی جھیل کا مطلب دوسری موت ہے۔“‏ (‏مکاشفہ 20:‏14؛‏ 21:‏8‏)‏ پاک کلام کے مطابق پہلی موت وہ ہے جو آدم کے گُناہ کی وجہ سے اِنسانوں پر آتی ہے۔ اِس موت کا توڑ مُردوں کو زندہ کر کے کِیا جا سکتا ہے اور آخرکار خدا اِسے ختم کر دے گا۔—‏1-‏کُرنتھیوں 15:‏21، 22،‏ 26‏۔‏

آگ کی علامتی جھیل سے رِہائی ممکن نہیں ہے۔‏

 لیکن ”‏آگ کی جھیل“‏ یعنی دوسری موت فرق ہے۔ یہ ضرور ہے کہ جن پر یہ موت آئے گی، وہ بھی پہلی موت مرنے والوں کی طرح کچھ کرنے کی حالت میں نہیں ہوں گے۔ لیکن پاک کلام میں کوئی ایسی بات نہیں لکھی جس سے یہ اِشارہ ملے کہ اِس موت کا کوئی توڑ ہے۔ مثال کے طور پر پاک کلام میں لکھا ہے کہ یسوع مسیح کے پاس ”‏موت اور قبر کی چابیاں“‏ ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو اُس موت سے رِہائی دِلا سکتے ہیں جو آدم کے گُناہ کی وجہ سے آتی ہے۔ (‏مکاشفہ 1:‏18؛‏ 20:‏13‏)‏ لیکن نہ تو یسوع مسیح اور نہ ہی کسی اَور کے پاس آگ کی جھیل کی چابی ہے۔ یہ جھیل ابدی سزا کی طرف اِشارہ کرتی ہے جو کہ ابدی ہلاکت کی صورت میں دی جائے گی۔—‏2-‏تھسلُنیکیوں 1:‏9‏۔‏

یہ جھیل اور ہنوم کی وادی ایک ہی چیز ہے

 ہنوم کی وادی (‏یونانی لفظ:‏ گیہینّا)‏ بائبل میں 12 مرتبہ آیا ہے۔ آگ کی جھیل کی طرح یہ بھی ابدی ہلاکت کی علامت ہے۔‏

ہنوم کی وادی

 ہنوم کی وادی یروشلیم کے باہر تھی اور قدیم زمانے میں شہر کے باشندے اِس میں کچرا پھینکتے تھے۔ کچرے کو تلف کرنے کے لیے وہاں ہر وقت آگ جلا کر رکھی جاتی تھی۔ جو کچرا آگ کی لپیٹ میں نہیں آتا تھا، اُسے کیڑے کھا جاتے تھے۔‏

 یسوع مسیح نے ہنوم کی وادی کو ابدی ہلاکت کی علامت کے طور پر اِستعمال کِیا۔ (‏متی 23:‏33‏)‏ اُنہوں نے کہا کہ ہنوم کی وادی میں ”‏کیڑے نہیں مرتے اور آگ نہیں بجھائی جاتی۔“‏ (‏مرقس 9:‏47، 48‏)‏ اِس طرح اُنہوں نے یسعیاہ 66:‏24 میں درج پیش‌گوئی کی طرف اِشارہ کِیا جہاں لکھا ہے:‏ ”‏وہ نکل نکل کر اُن لوگوں کی لاشوں پر جو مجھ سے باغی ہوئے نظر کریں گے کیونکہ اُن کا کیڑا نہ مرے گا اور اُن کی آگ نہ بجھے گی۔“‏ یسوع مسیح کی دی ہوئی اِس مثال سے پتہ چلتا ہے کہ ہنوم کی وادی اذیت کی طرف نہیں بلکہ مکمل تباہی کی طرف اِشارہ کرتی ہے۔ آگ اور کیڑے لاشوں کو کھاتے ہیں نہ کہ زندہ اِنسانوں کو۔‏

 بائبل میں کہیں بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ ہنوم کی وادی میں جانے والا اِس سے واپس آ سکتا ہے۔ ”‏آگ کی جھیل“‏ اور ”‏ہنوم کی وادی کی آگ“‏ دونوں ہمیشہ کی ہلاکت کی طرف اِشارہ کرتی ہیں۔—‏مکاشفہ 20:‏14، 15؛‏ 21:‏8؛‏ متی 18:‏9‏۔‏

اِس جھیل میں ”‏ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دن رات اذیت“‏ کیسے دی جاتی ہے؟‏

 اگر آگ کی جھیل ابدی ہلاکت کی علامت ہے تو پھر بائبل میں یہ کیوں کہا گیا ہے کہ اِبلیس، وحشی درندے اور جھوٹے نبی کو اِس میں ”‏ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دن رات اذیت دی جائے گی“‏؟ (‏مکاشفہ 20:‏10‏)‏ ذرا چار وجوہات پر غور کریں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اذیت حقیقی نہیں ہے۔‏

  1.   اگر اِبلیس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اذیت دی جانی ہے تو پھر اُسے ہمیشہ زندہ رکھنا پڑے گا۔ لیکن بائبل میں بتایا گیا ہے کہ اُسے ختم کر دیا جائے گا۔—‏عبرانیوں 2:‏14‏۔‏

  2.   ہمیشہ کی زندگی خدا کی طرف سے ایک نعمت ہے، سزا نہیں۔­—‏رومیوں 6:‏23‏۔‏

  3.   وحشی درندہ اور جھوٹا نبی حقیقی نہیں بلکہ مجازی ہیں اِس لیے اُنہیں حقیقی اذیت نہیں دی جا سکتی۔‏

  4.   بائبل سے پتہ چلتا ہے کہ اِبلیس کو اِس لحاظ سے اذیت دی جائے گی کہ اُسے ہمیشہ کے لیے کارروائی کرنے سے روک دیا جائے گا یا ہمیشہ کے لیے ہلاک کر دیا جائے گا۔‏

 بائبل میں جس لفظ کا ترجمہ ”‏اذیت“‏ کِیا گیا ہے، اُس کا مطلب ”‏قید کی حالت“‏ بھی ہو سکتا ہے جس میں کوئی کارروائی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر متی 18:‏34 میں یسوع مسیح نے ایک غلام کا ذکر کِیا جسے سپاہیوں نے قید میں ڈال دیا۔ یہاں جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏سپاہیوں“‏ کِیا گیا ہے، اُس کا لفظی مطلب ”‏اذیت دینے والے“‏ ہے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یونانی زبان میں”‏اذیت“‏ اور ”‏قید“‏ میں تعلق ہے۔ متی 8:‏29 اور لُوقا 8:‏30، 31 میں ایک ہی واقعے کا ذکر کِیا گیا ہے اور متی کی اِنجیل میں لفظ ”‏سزا“‏(‏یا اذیت)‏ جبکہ لُوقا کی اِنجیل میں اُسی جگہ اِصطلا‌ح”‏اتھاہ گڑھے“‏اِستعمال کی گئی ہے جو کہ قید یا موت کی حالت کی طرف اِشارہ کرتی ہے۔ (‏رومیوں 10:‏7؛‏ مکاشفہ 20:‏1،‏ 3 )‏ دراصل مکاشفہ کی کتاب میں کئی مرتبہ لفظ ”‏اذیت“‏ علامتی معنوں میں اِستعمال ہوا ہے۔—‏مکاشفہ 9:‏5؛‏ 11:‏10؛‏ 18:‏7،‏ 10‏۔‏