مواد فوراً دِکھائیں

اِنتقالِ خون کے متعلق ڈاکٹروں کی بدلتی رائے

اِنتقالِ خون کے متعلق ڈاکٹروں کی بدلتی رائے

یہوواہ کے گواہوں کو بہت عرصے سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ وہ خون لگوانے سے اِنکار کرتے ہیں۔ اِس اِنکار کے پیچھے پاک کلام کا یہ حکم ہے کہ خون سے گریز کِیا جائے۔ (‏اعمال 15:‏29‏)‏ لیکن کبھی کبھار ڈاکٹروں کو لگتا تھا کہ مریض کو خون دیے بغیر وہ اُس کا اچھا علاج نہیں کر پائیں گے۔‏

مگر اُن طبی ماہرین کی تعداد بڑھ رہی ہے جن کا کہنا ہے کہ جب اِنتقالِ خون کی بجائے علاج کے دوسرے طریقے اپنائے جاتے ہیں تو یہ مریضوں کے لیے طبی لحاظ سے زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔‏

سن 2013ء میں سٹین فورڈ یونیورسٹی کے طبی جریدے میں خون کے بارے میں ایک خاص رپورٹ شائع کی گئی جس میں ایک مضمون کا عنوان یہ تھا:‏ ”‏خون دینے کا رواج کیوں کم ہو رہا ہے؟“‏ اِس مضمون میں لکھا تھا کہ ”‏پچھلے دس سال میں مختلف جائزوں سے ثابت ہوا ہے کہ پوری دُنیا میں ہسپتالوں میں مریضوں کو آپریشن کے دوران اور علاج کے سلسلے میں ضرورت سے زیادہ خون دیا جا رہا ہے۔“‏ a

اِس مضمون میں ڈاکٹر پٹریشیا فورڈ کا حوالہ دیا گیا ہے جو پینسلوانیا ہسپتال میں ایک ایسی کلینک کی ڈائریکٹر ہیں جس میں خون دیے بغیر علاج اور آپریشن کیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر فورڈ کہتی ہیں:‏ ”‏طبی حلقوں میں یہ بات پتھر پر لکیر کا درجہ رکھتی ہے کہ اگر اِنسان میں خون ایک مقررہ مقدار سے کم ہو جائے اور اُسے خون نہ دیا جائے تو وہ مر جائے گا گویا اِنتقالِ خون جان بچانے کا واحد ذریعہ ہو۔ .‏.‏.‏ یہ بات کچھ خاص صورتوں میں سچ ہوتی ہے b لیکن زیادہ تر مریضوں کے لیے اور زیادہ تر صورتوں میں یہ سچ نہیں ہے۔“‏

ڈاکٹر فورڈ جو کہ سال میں تقریباً 700 یہوواہ کے گواہوں کا علاج کرتی ہیں، کہتی ہیں:‏ ”‏بہت سے ڈاکٹر جن سے مَیں نے بات کی .‏.‏.‏ اِس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اِنتقالِ خون کے بغیر مریضوں کی بڑی تعداد زندہ نہیں بچ سکتی۔ .‏.‏.‏ ایک حد تک تو مَیں بھی یہ سوچا کرتی تھی۔ لیکن مَیں نے جلد ہی سیکھ لیا کہ علاج کے کچھ آسان طریقے اپنانے سے مریضوں کی مدد کی جا سکتی ہے۔“‏

ایک کلینک میں 28 سال کے دوران اُن مریضوں کا جائزہ لیا گیا جن کے دل کا آپریشن ہوا تھا۔ اِس جائزے کی رپورٹ 2012ء میں ایک طبی جریدے c میں شائع کی گئی۔ اِس رپورٹ کے مطابق اُن مریضوں کی نسبت جنہیں خون دیا گیا، یہوواہ کے گواہ زیادہ جلد صحت یاب ہو گئے، اُنہیں کم پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا، آپریشن کے بعد والے دنوں میں اُن کے زندہ بچنے کے اِمکانات زیادہ تھے اور آپریشن کے بعد 20 سال تک زندہ رہنے کا اِمکان تقریباً برابر تھا۔‏

دی وال سٹریٹ جرنل نے 8 اپریل 2013ء کو ایک مضمون شائع کِیا جس میں کہا گیا:‏ ”‏بڑے عرصے سے اُن مریضوں کا آپریشن عطیہ شُدہ خون کے بغیر کِیا جا رہا ہے جو مذہبی وجوہات کی بِنا پر خون لینے سے اِنکار کرتے ہیں۔ اب بہت سے ہسپتال علاج کے اِس طریقے کو اپنا رہے ہیں۔ .‏.‏.‏ جو سرجن خون کے بغیر آپریشن کرنے کے حق میں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یوں وہ خرچے کم ہو جاتے ہیں جو خون خریدنے، ذخیرہ کرنے، اِسے تیار کرنے، اِس کی جانچ کرنے اور اِسے مریضوں کو دینے کے سلسلے میں آتے ہیں اور خون کی وجہ سے ہونے والے اِنفیکشن اور پیچیدگیاں بھی کم ہو جاتی ہیں جس کے نتیجے میں مریضوں کو زیادہ جلد ہسپتال سے ڈِسچارج کِیا جا سکتا ہے۔“‏

اِس وجہ سے رابرٹ لورنز جو کلیولینڈ کلینک میں ایک سرجن ہیں، کہتے ہیں:‏ ”‏جب آپ مریض کو خون دیتے ہیں تو آپ کو لگتا ہے کہ آپ اُسے فائدہ پہنچا رہے ہیں .‏.‏.‏ لیکن تحقیق سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اصل میں ایسا نہیں ہے۔“‏

a یہ اِقتباس اِس جریدے سے لیا گیا ہے:‏ سٹین فورڈ میڈیسن میگزین،‏ شمارہ موسمِ بہار، 2013ء۔‏

b خون کے بارے میں یہوواہ کے گواہوں کا نظریہ جاننے کے لیے مضمون ”‏اکثر پوچھے جانے والے سوال—‏یہوواہ کے گواہ خون کیوں نہیں لگواتے؟‏‏“‏ کو دیکھیں۔‏

c آرکائیوز آف اِنٹرنل میڈیسن،‏ شمارہ اگست 2012ء۔‏