مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

بحث‌وتکرار ختم کرنے کا نسخہ

بحث‌وتکرار ختم کرنے کا نسخہ

خاندان کی خوشی کا راز

بحث‌وتکرار ختم کرنے کا نسخہ

شوہر:‏ ‏”‏شادی کے بعد مَیں اور میری بیوی سارہ * میرے خاندان کے ساتھ رہنے لگے۔‏ ایک دن میرے چھوٹے بھائی کی دوست نے درخواست کی کہ مَیں اُسے گاڑی میں گھر چھوڑ آؤں۔‏ اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر مَیں نے اُسے گھر پہنچا دیا۔‏ گھر واپس لوٹنے پر مَیں نے سارہ کو بڑے غصے میں پایا۔‏ ہم نے دوسروں کے سامنے بحث کرنا شروع کر دی۔‏ اُس نے مجھ پر یہ الزام لگایا کہ آپ لڑکیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔‏ مَیں آپے سے باہر ہو گیا اور ایسی باتیں کہنے لگا جن سے سارہ کا غصہ اَور بھی بھڑک اُٹھا۔‏“‏

بیوی:‏ ‏”‏ہمارا بیٹا بہت بیمار تھا اور اُس وقت ہمارے پاس زیادہ پیسا بھی نہ تھا۔‏ اس وجہ سے جب میرے شوہر فرید ہمارے بیٹے اور اپنے بھائی کی دوست کے ساتھ گاڑی میں چلے گئے تو مَیں بہت خفا ہوئی۔‏ جب وہ گھر لوٹ آئے تو مَیں نے اُن کو بتایا کہ مَیں اُن سے بہت ناراض ہوں۔‏ پھر لڑائی‌جھگڑا شروع ہو گیا اور ہم ایک دوسرے کو بُرابھلا کہنے لگے۔‏ لیکن بعد میں مجھے بہت افسوس ہوا۔‏“‏

اگر میاں‌بیوی میں بحث‌وتکرار ہوتی ہے تو کیا اس کا مطلب ہے کہ وہ ایک دوسرے سے پیار نہیں کرتے؟‏ جی‌نہیں۔‏ فرید اور سارہ ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں۔‏ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ شادی‌شُدہ زندگی کتنی بھی خوشگوار کیوں نہ ہو،‏ کبھی‌کبھار میاں‌بیوی میں بحث‌وتکرار ہو ہی جاتی ہے۔‏

شوہر اور بیوی میں جھگڑے کیوں ہوتے ہیں؟‏ آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ اِس وجہ سے آپ کی شادی برباد نہ ہو جائے؟‏ شادی کے بندھن کو خدا نے قائم کِیا ہے۔‏ لہٰذا،‏ اس سلسلے میں بہترین مشورہ اُس کے کلام میں پایا جاتا ہے۔‏—‏پیدایش ۲:‏۲۱،‏ ۲۲؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶،‏ ۱۷‏۔‏

مسئلوں کی بنیادی وجہ

زیادہ‌تر لوگ اپنے جیون‌ساتھی سے نرمی اور پیار سے پیش آنا چاہتے ہیں۔‏ البتہ خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ ”‏سب نے گُناہ کِیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔‏“‏ (‏رومیوں ۳:‏۲۳‏)‏ جب میاں‌بیوی میں اختلاف ہو جاتا ہے تو اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا اُن کے لئے آسان نہیں ہوتا۔‏ اور پھر جب اُن میں بحث‌وتکرار شروع ہو جاتی ہے تو اکثر وہ غصہ ہو کر بدگوئی کرنے پر اُتر آتے ہیں۔‏ (‏رومیوں ۷:‏۲۱؛‏ افسیوں ۴:‏۳۱‏)‏ میاں‌بیوی میں اَور کن وجوہات سے بدمزگی پیدا ہو سکتی ہے؟‏

شوہر اور بیوی کے بات کرنے کے انداز میں اکثر بڑا فرق پایا جاتا ہے۔‏ میشی‌کو نامی ایک عورت کہتی ہے:‏ ”‏شادی کے بعد مجھے پتا چلا کہ ہم دونوں بڑے مختلف انداز میں بات‌چیت کرتے ہیں۔‏ مَیں ایک واقعے پر بات کرتے وقت نہ صرف یہ جاننا چاہتی ہوں کہ کیا ہوا بلکہ یہ بھی کہ ایسا کیوں ہوا اور کیسے ہوا۔‏ لیکن میرے شوہر کے لئے صرف یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ اِس واقعے کا نتیجہ کیا نکلا۔‏“‏

میشی‌کو نے جس مسئلے کا ذکر کِیا ہے یہ کافی عام ہے۔‏ جب ایک شادی‌شُدہ جوڑے میں اختلاف پیدا ہوتا ہے تو اکثر اُن میں سے ایک اِس معاملے پر لمبی چوڑی بحث کرنا چاہتا ہے جبکہ دوسرا اِس پر بات نہیں کرنا چاہتا ہے۔‏ اور جتنا بھی ایک فرد اِس معاملے پر اٹکے رہتا ہے اُتنا ہی دوسرا اِس پر بات کرنے سے کتراتا ہے۔‏ کیا یہ آپ کی شادی کے بارے میں بھی سچ ہے؟‏ کیا آپ دونوں میں سے اکثر ایک کسی معاملے پر تفصیلاً بات کرنا چاہتا ہے جبکہ دوسرا اِس پر بات نہیں کرنا چاہتا ہے؟‏

یہ بھی یاد رکھیں کہ ایک شخص کا خاندانی پس‌منظر اِس بات پر گہرا اثر ڈالتا ہے کہ وہ کس انداز میں بات کرنا مناسب سمجھتا ہے۔‏ جسٹن جس کی پانچ سال سے شادی ہوئی ہے،‏ وہ کہتا ہے:‏ ”‏میرے خاندان‌والے عموماً اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرتے۔‏ اس لئے مجھے بھی اپنے احساسات کا اظہار کرنا مشکل لگتا ہے اور میری بیوی کو اِس وجہ سے کافی مایوسی ہو رہی ہے۔‏ اُس کے خاندان‌والے بِلاجھجھک دل کی بات کہہ ڈالتے ہیں اور اس لئے میری بیوی بھی اپنے احساسات کے بارے میں صاف صاف بات کرتی ہے۔‏“‏

مسئلوں کا حل ڈھونڈنے کی اہمیت

ماہرین نے اِس بات پر تحقیق کی کہ ایک شادی کی کامیابی کا اندازہ کیسے لگایا جا سکتا ہے۔‏ اُن کی تحقیق سے ظاہر ہوا کہ میاں‌بیوی کی خوشی اِس بات پر انحصار نہیں ہے کہ وہ کتنی بار ایک دوسرے کے لئے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں یا کہ اُن کے پاس کتنے پیسے ہیں۔‏ اِس کی بجائے شادی کی کامیابی کا انحصار اِس بات پر ہے کہ میاں‌بیوی جھگڑوں کو کس طرح حل کرتے ہیں۔‏

یسوع مسیح نے کہا کہ شادی کے بندھن کو خدا نے قائم کِیا ہے۔‏ (‏متی ۱۹:‏۴-‏۶‏)‏ اس لئے شوہر اور بیوی کو تب ہی سچی خوشی حاصل ہوگی جب دونوں خدا کا احترام کریں گے۔‏ اگر شوہر اپنی بیوی کا لحاظ نہیں رکھتا اور اُس کے ساتھ پیار سے پیش نہیں آتا تو ہو سکتا ہے کہ خدا اُس کی دُعاؤں کو قبول نہ کرے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۷‏)‏ اسی طرح ایک ایسی بیوی جو اپنے شوہر کا احترام نہیں کرتی وہ دراصل یہوواہ خدا کا احترام نہیں کرتی کیونکہ خدا نے شوہر کو خاندان کی سربراہی کرنے کی ذمہ‌داری سونپی ہے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۳‏۔‏

بات کرنے کے انداز میں بہتری لائیں

میاں‌بیوی کے خاندانی پس‌منظر سے قطعِ‌نظر،‏ اُن کو خدا کے کلام کی ہدایت پر عمل کرنا اور لڑنا جھگڑنا ختم کرنا چاہئے۔‏ اس لئے انہیں ایسی باتیں کہنے سے گریز کرنا چاہئے جن سے دوسرے کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔‏ خود سے یہ سوال پوچھیں:‏

‏”‏کیا مجھے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی عادت ہے؟‏“‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏ناک مروڑنے سے لہو [‏نکلتا ہے۔‏]‏ اِسی طرح قہر بھڑکانے سے فساد برپا ہوتا ہے۔‏“‏ (‏امثال ۳۰:‏۳۳‏)‏ اِس کا کیا مطلب ہے؟‏ فرض کریں کہ شوہر اور بیوی گھر کے خرچے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔‏ شاید شوہر کہے کہ ”‏ہم حد سے زیادہ پیسے خرچ کر رہے ہیں۔‏“‏ اگر بیوی جواب میں شوہر پر یہ الزام لگائے کہ ”‏آپ ہی تو لاپرواہی سے پیسے خرچ کرتے ہیں“‏ تو دراصل وہ شوہر کے کردار پر حملہ کر رہی ہوگی۔‏ ایسی صورت میں شاید شوہر کو لگے کہ بیوی اُس کی ’‏ناک مروڑ‘‏ رہی ہے۔‏ لیکن اگر وہ اِسی انداز میں جواب دے تو دونوں کا غصہ بھڑک اُٹھے گا اور لڑائی‌جھگڑا شروع ہو جائے گا۔‏

پاک صحائف میں لکھا ہے:‏ ”‏دیکھو۔‏ تھوڑی سی آگ سے کتنے بڑے جنگل میں آگ لگ جاتی ہے۔‏ زبان بھی ایک آگ ہے۔‏“‏ (‏یعقوب ۳:‏۵،‏ ۶‏)‏ جب شوہر اور بیوی اپنی زبان پر قابو نہیں رکھتے تو چھوٹے سے اختلاف سے جلد ہی بڑے بڑے جھگڑے چھڑ جاتے ہیں۔‏ اگر ایسے جھگڑے بار بار بھڑک اُٹھتے ہیں تو وہ دھکتی آگ کی طرح ایک شادی کو برباد کر سکتے ہیں۔‏ ایسے ماحول میں محبت جلد ہی ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔‏

اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بجائے یسوع مسیح کی طرح بننے کی کوشش کریں۔‏ وہ ’‏گالیاں کھا کر گالی نہیں دیتا تھا۔‏‘‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۳‏)‏ جب آپ دونوں میں کوئی اختلاف پیدا ہو جائے تو اپنے جیون‌ساتھی کی بات پر دھیان دیں۔‏ اور اگر آپ نے کوئی غلط بات کہہ دی ہے تو فوراً معافی مانگیں۔‏ اس طرح غصے کے انگارے جلد ہی بجھ جاتے ہیں۔‏

اِس طریقے کو آزمائیں:‏ اگلی بار جب آپ کے درمیان جھگڑا شروع ہو تو خود سے پوچھیں کہ ”‏کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ مَیں اپنے جیون‌ساتھی کی پریشانی کو سمجھنے کی کوشش کروں؟‏ کیا میری کسی غلطی کی وجہ سے جھگڑا شروع ہوا ہے؟‏ کیا مجھے اپنی غلطی کے لئے معافی مانگنی چاہئے؟‏“‏

‏”‏کیا مَیں اپنے جیون‌ساتھی کے احساسات کو نظرانداز کر رہا ہوں؟‏“‏ خدا کے کلام میں یہ حکم دیا گیا ہے:‏ ”‏غرض سب کے سب یکدل اور ہمدرد رہو۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۸‏)‏ اگر آپ خدا کے کلام کی اِس ہدایت پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہیں تو اِس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔‏ ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آپ اپنے جیون‌ساتھی کے خیالات اور جذبات کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں۔‏ مثال کے طور پر جب وہ آپ کی نسبت کسی معاملے کے بارے میں زیادہ پریشان ہو تو شاید آپ کہیں کہ ”‏آپ جذباتی نہ ہوں!‏“‏ یہ کہہ کر شاید آپ اُس کی پریشانی کو دُور کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔‏ لیکن دراصل ایسی باتوں سے کسی کو تسلی نہیں ملتی۔‏ آپ کے جیون‌ساتھی کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ آپ اُس کے احساسات کو سمجھتے ہیں اور آپ کو اُس سے ہمدردی ہے۔‏

اس کے علاوہ کئی لوگ غرور کی وجہ سے بھی اپنے جیون‌ساتھی کے احساسات کو نظرانداز کرتے ہیں۔‏ ایک مغرور شخص دوسروں کو نیچا دکھا کر اپنی بڑائی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‏ وہ دوسروں کو بُرابھلا کہتا ہے یا ان کی نکتہ‌چینی کرتا ہے۔‏ یسوع کے زمانے کے مغرور فریسی دوسروں سے بالکل اسی طرح کا سلوک کرتے تھے۔‏ جب کوئی شخص اُن کی رائے سے متفق نہ ہوتا تو وہ اُسے بُرابھلا کہتے۔‏ (‏یوحنا ۷:‏۴۵-‏۵۲‏)‏ لیکن یسوع مسیح نے ایسا نہیں کِیا۔‏ اُسے لوگوں سے ہمدردی تھی کیونکہ وہ اُن کے احساسات کو سمجھتا تھا۔‏—‏متی ۲۰:‏۲۹-‏۳۴؛‏ مرقس ۵:‏۲۵-‏۳۴‏۔‏

ذرا سوچیں:‏ جب آپ کا جیون‌ساتھی اپنی کسی پریشانی کا اظہار کرتا ہے تو عام طور پر آپ کا ردِعمل کیا ہوتا ہے؟‏ کیا آپ اپنی باتوں،‏ اپنی آواز اور اپنے چہرے کے تاثرات سے ظاہر کرتے ہیں کہ آپ کو اُس سے ہمدردی ہے؟‏ یاپھر کیا آپ اُس کے احساسات کو نظرانداز کرتے ہیں؟‏

اِس طریقے کو آزمائیں:‏ آنے والے چند ہفتوں کے دوران اِس بات پر دھیان دیں کہ آپ اپنے جیون‌ساتھی کے ساتھ کس لہجے میں بات کرتے ہیں۔‏ اگر آپ اُس کے احساسات کو نظرانداز کرتے ہیں یا کوئی سخت بات کہہ دیتے ہیں تو فوراً معافی مانگ لیں۔‏

‏”‏کیا مَیں اپنے جیون‌ساتھی کو مطلبی خیال کرتا ہوں؟‏“‏ شیطان نے خدا کے وفادار بندے ایوب پر الزام لگایا کہ وہ مطلبی ہے۔‏ اُس نے خدا سے کہا:‏ ”‏کیا اؔیوب یوں ہی خدا سے ڈرتا ہے؟‏ کیا تُو نے اُس کے اور اُس کے گھر کے گِرد اور جو کچھ اُس کا ہے اُس سب کے گِرد چاروں طرف باڑ نہیں بنائی ہے؟‏“‏—‏ایوب ۱:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

شوہر اور بیوی کو احتیاط برتنی چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں ایسی سوچ نہ اپنائیں۔‏ مثال کے طور پر اگر آپ کا جیون‌ساتھی آپ کی بڑی خاطرتواضع کرے تو کیا آپ فوراً سوچنے لگتے ہیں کہ وہ مجھ سے کیا چاہتا ہے؟‏ یاپھر یہ کہ اُس نے ضرور کوئی غلطی کی ہو گی جس وجہ سے وہ میرے ساتھ اتنا اچھا سلوک کر رہا ہے۔‏ اور اگر اُس سے کوئی غلطی ہو گئی ہے تو کیا آپ اُس پر خودغرض ہونے کا الزام لگاتے ہیں اور اُن غلطیوں کو یاد میں لاتے ہیں جو اُس نے ماضی میں کی ہیں؟‏

اِس طریقے کو آزمائیں:‏ ان تمام اچھے کاموں کی فہرست بنائیں جو آپ کے جیون‌ساتھی نے آپ کی خاطر کئے ہیں اور سوچیں کہ اُس نے کس اچھی نیت سے ایسا کِیا ہے۔‏

پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏محبت .‏ .‏ .‏ بدگمانی نہیں کرتی۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۴،‏ ۵‏)‏ حالانکہ محبت کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک شخص دوسروں کی غلطیوں کو نظرانداز کرے لیکن اِس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ دوسروں کی تمام غلطیوں کو حساب میں لائے۔‏ پولس رسول نے یہ بھی بیان کِیا کہ محبت ”‏سب کچھ یقین کرتی ہے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۷‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محبت کرنے والا شخص شکی نہیں ہوتا بلکہ دوسروں پر بھروسہ کرتا ہے۔‏ خدا کے کلام میں سچی محبت کرنے والے شخص کے بارے میں یہ بھی ظاہر کِیا گیا ہے کہ وہ معاف کرنے کو تیار ہوتا ہے اور اِس بات پر یقین کرتا ہے کہ دوسروں کی نیت صاف ہے۔‏ (‏زبور ۸۶:‏۵؛‏ افسیوں ۴:‏۳۲‏)‏ اگر میاں‌بیوی ایک دوسرے کے لئے اِس قسم کی محبت ظاہر کریں گے تو اُن کی شادی کا بندھن خوشگوار رہے گا۔‏

خود سے پوچھیں .‏ .‏ .‏

▪ مضمون کے شروع میں جس جوڑے کے بارے میں بتایا گیا،‏ اُس نے کونسی غلطیاں کیں؟‏

▪ مَیں کیا کر سکتا ہوں تاکہ مجھ سے ایسی غلطیاں نہ ہوں؟‏

▪ مجھے اِس مضمون میں بیان کئے گئے کن مشوروں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے؟‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 نام بدل دئے گئے ہیں۔‏