مواد فوراً دِکھائیں

کیا خدا اپنی سوچ یا اِرادہ بدل لیتا ہے؟‏

کیا خدا اپنی سوچ یا اِرادہ بدل لیتا ہے؟‏

پاک کلام کا جواب

 جی ہاں۔ جب لوگ اپنے طورطریقے بدل لیتے ہیں تو خدا بھی اُن کے حوالے سے اپنا اِرادہ بدل لیتا ہے۔ مثال کے طور پر جب خدا نے بنی‌اِسرائیل کو سزا کا پیغام سنایا تو اُس نے کہا:‏ ”‏شاید وہ شنوا ہوں اور ہر ایک اپنی بُری روِش سے باز آئے اور مَیں بھی اُس عذاب کو جو اُن کی بداعمالی کے باعث اُن پر لانا چاہتا ہوں باز رکھوں‏۔“‏—‏یرمیاہ 26:‏3‏۔‏

 پاک کلام کے بہت سے ترجموں میں اِس آیت کا ترجمہ جس طرح کِیا گیا ہے اُس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ خدا جس عذاب کو لانا چاہتا تھا اُس کی وجہ سے وہ ’‏پچھتایا۔‘‏اِس کا یہ مطلب نکل سکتا ہے کہ خدا سے غلطی ہوئی۔ لیکن اِن ترجموں میں جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ’‏پچھتانا‘‏ کِیا گیا ہے، اُس کا مطلب ہے:‏ ”‏اپنی سوچ یا اِرادے کو بدلنا۔“‏ ایک عالم نے اِس حوالے سے کہا:‏ ”‏جب ایک شخص اپنا چال‌چلن بدل لیتا ہے تو خدا اُسے سزا دینے کا اپنا اِرادہ بدل لیتا ہے۔“‏

 حالانکہ یہ سچ ہے کہ خدا اپنا اِرادہ بدل سکتا ہے لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ لازمی ایسا کرے ۔ آئیں پاک کلام میں درج کچھ ایسی صورتحال پر غور کریں جن میں خدا نے اپنا اِرادہ نہیں بدلا۔‏

  •   خدا نے بلق کی وجہ سے اپنا اِرادہ نہیں بدلا اور اُسے بنی‌اِسرائیل پر لعنت نہیں کرنے دی۔—‏گنتی 23:‏18-‏20‏۔‏

  •   بنی‌اِسرائیل کا بادشاہ ساؤل جان بُوجھ کر غلط کام کرنے لگا جس کی وجہ سے یہوواہ نے اُسے بادشاہ کے طور پر رد کرنے کا اپنا اِرادہ نہیں بدلا۔—‏1-‏سموئیل 15:‏28، 29‏۔‏

  •   خدا نے وعدہ کِیا ہے کہ یسوع مسیح ہمیشہ کاہن رہیں گے۔ خدا اپنے اِس اِرادے کو کبھی نہیں بدلے گا۔—‏زبور 110:‏4‏۔‏

کیا پاک کلام میں یہ نہیں کہا گیا کہ خدا کبھی نہیں بدلتا؟‏

 جی ہاں، یہ کہا گیا ہے۔ خدا نے خود اپنے کلام میں کہا ہے کہ ”‏مَیں [‏یہوواہ]‏ لاتبدیل ہوں۔“‏ (‏ملاکی 3:‏6‏)‏ پاک کلام میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خدا ”‏سایے کی طرح نہیں ہے جس میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔“‏ (‏یعقوب 1:‏17‏)‏ لیکن اِس میں اور اِس بات میں کوئی اِختلاف نہیں پایا جاتا کہ خدا اپنا اِرادہ بدل لیتا ہے۔‏ خدا اِس لحاظ سے لاتبدیل ہے کہ اُس کی ذات اور اُس کی محبت اور اِنصاف کے معیار کبھی نہیں بدلتے۔ (‏اِستثنا 32:‏4؛‏ 1-‏یوحنا 4:‏8‏)‏ لیکن وہ فرق فرق موقعوں پر لوگوں کو فرق فرق ہدایتیں دے سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک بار جب بادشاہ داؤد کو ایک کے بعد دوسری جنگ لڑنی پڑی تو خدا نے اُنہیں اُن دونوں جنگوں کو لڑنے کے لیے فرق فرق ہدایتیں دیں اور وہ دونوں ہدایتیں دونوں جنگوں کے لیے کامیاب ثابت ہوئیں۔—‏2-‏سموئیل 5:‏18-‏25‏۔‏

کیا خدا کو اِس بات کا پچھتاوا ہے کہ اُس نے اِنسانوں کو بنایا ہے؟‏

 بالکل نہیں۔ لیکن اُسے اِس بات کا افسوس ضرور ہے کہ زیادہ‌تر اِنسان اُس کے حکم نہیں مانتے۔ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ طوفانِ‌نوح سے پہلے لوگوں کی بُرائیاں دیکھ کر ”‏[‏خدا]‏ پچھتایا کہ مَیں نے اِنسان کو بنا کر دُنیا میں رکھ دیا ہے، اور اُسے سخت دُکھ ہوا۔“‏ (‏پیدایش 6:‏6‏، اُردو جیو ورشن‏)‏ اِس آیت میں جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”‏پچھتایا“‏ کِیا گیا ہے وہ ایک ایسے لفظ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے:‏ ”‏اپنا اِرادہ بدل لینا۔“‏ لہٰذا طوفان سے پہلے جو لوگ زمین پر تھے اُن میں سے زیادہ‌تر لوگوں کے بارے میں خدا نے اپنا اِرادہ یا اپنی سوچ بدل لی تھی کیونکہ وہ نہایت بُرے کام کرنے لگے تھے۔ (‏پیدایش 6:‏5،‏ 11‏)‏ حالانکہ خدا کو اِس بات کا دُکھ تھا کہ اُن لوگوں نے بُری راہ اپنائی ہے لیکن پھر بھی اُس نے سب اِنسانوں کے بارے میں اپنا اِرادہ نہیں بدلا بلکہ خدا نے تو نوح اور اُن کے خاندان کے ذریعے اِنسانی نسل کو مٹنے سے بچا لیا۔—‏پیدایش 8:‏21؛‏ 2-‏پطرس 2:‏5،‏ 9‏۔‏