پہلا سبق
ضبطِنفس سے کام لینے کے فائدے
ضبطِنفس کیا ہے؟
ضبطِنفس میں یہ شامل ہے کہ ایک شخص یہ سیکھے کہ
-
اُس کی ہر خواہش فوراً پوری نہیں ہو جائے گی بلکہ اُسے اِنتظار کرنا چاہیے۔
-
اُسے اپنی خواہشوں کو قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے۔
-
اُسے وہ کام بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے جسے کرنے کو اُس کا دل نہ چاہ رہا ہو۔
-
وہ خود سے زیادہ دوسروں کا سوچے۔
ضبطِنفس کی خوبی ظاہر کرنا اِتنا ضروری کیوں ہے؟
جو بچے خود پر قابو رکھتے ہیں، وہ بُرے کام کرنے سے اِنکار کر پاتے ہیں پھر چاہے اُنہیں یہ لگے کہ وہ کام کرنے میں اُنہیں مزہ آئے گا۔ لیکن جو بچے خود پر قابو نہیں رکھتے، ممکن ہے کہ وہ ...
-
غصیلے بن جائیں۔
-
ڈپریشن کا شکار ہو جائیں۔
-
سگریٹ یا شراب پینے لگیں یا کوئی اَور نشہ کرنے لگیں۔
-
ایسی چیزیں کھانے لگیں جو صحت کے لیے اچھی نہیں ہیں۔
ایک تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ جن لوگوں نے اپنے بچپن میں خود پر قابو رکھنا سیکھا، بڑے ہو کر اُنہیں صحت کے کم مسئلوں کا سامنا ہوا، اُنہیں اِتنی مالی تنگی نہیں ہوئی اور اُن کے لیے قاعدے قوانین کو ماننا آسان رہا۔ اِس تحقیق پر غور کرنے کے بعد پینسلوانیا کی یونیورسٹی کی ایک پروفیسر نے جن کا نام اینجلا ڈکورتھ ہے کہا: ”ضبطِنفس کی خوبی کو ظاہر کرنے سے ہمیشہ فائدہ ہی ہوتا ہے، نقصان نہیں ہوتا۔“
بچوں کو ضبطِنفس سے کام لینا کیسے سکھائیں؟
بچوں کو نہ کہنا سیکھیں اور اپنی بات پر قائم رہیں۔
پاک کلام کا اصول: ”آپ کی ہاں کا مطلب ہاں ہو اور آپ کی نہیں کا مطلب نہیں۔“—متی 5:37۔
چھوٹے بچے اکثر اپنے ماں باپ سے اپنی بات منوانے کے لیے چیخنا اور رونا دھونا شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ تو سب کے سامنے ہی ایسا کرنے لگتے ہیں۔ اگر ماں باپ اِس وجہ سے اپنے بچے کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیں گے تو بچہ یہ سوچنے لگے گا کہ اپنی بات منوانے کا یہ بڑا اچھا طریقہ ہے۔
لیکن اگر ماں باپ اُسے اِنکار کرتے ہیں اور اپنی بات پر قائم رہتے ہیں تو بچہ زندگی کا ایک اہم اصول سیکھ پائے گا۔ یہ اصول کہ ہمیں ہمیشہ وہ چیز نہیں مل سکتی جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ذرا ڈاکٹر ڈیوڈ والش کی بات پر غور کریں جنہوں نے کہا: ”لوگوں کو لگتا ہے کہ اپنی من چاہی چیزوں کو پا لینے سے اُنہیں خوشی مل سکتی ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ لوگ زیادہ خوش رہتے ہیں جو ضبطِنفس کی خوبی ظاہر کرنا سیکھتے ہیں۔ اگر ہم اپنے بچوں کو یہ سکھائیں گے کہ اُن کی ہر فرمائش پوری ہو جائے گی تو ہم اُن کا بھلا نہیں چاہ رہے ہوں گے۔“ *
اگر آپ ابھی اپنے بچوں کی ہر ضد کو پورا نہیں کریں گے تو اُن کے لیے آگے چل کر ضبطِنفس کی خوبی کو ظاہر کرنا کافی آسان ہو جائے گا، مثلاً اُس وقت جب اُنہیں نشہ کرنے، شادی سے پہلے سیکس کرنے یا کسی اَور بُرے کام کو کرنے کی آزمائش کا سامنا ہوگا۔
بچوں کو سکھائیں کہ اُن کے کاموں کے یا تو اچھے یا پھر بُرے نتیجے نکل سکتے ہیں۔
پاک کلام کا اصول: ”اِنسان جو کچھ بوتا ہے، وہی کاٹتا ہے۔“—گلتیوں 6:7۔
آپ کو اپنے بچوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اُن کے کاموں کے یا تو اچھے یا پھر بُرے نتیجے نکل سکتے ہیں۔ اِس لیے اگر وہ ضبطِنفس سے کام نہیں لیں گے تو اُنہیں بُرا انجام بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کا بیٹا بات بات پر غصے میں آ جاتا ہے تو لوگ اُس سے دُور بھاگنے لگیں گے۔ لیکن اگر وہ اپنے غصے کو قابو میں رکھنا سیکھے گا اور کسی کی بات کاٹنے کی بجائے اپنی باری کا اِنتظار کرے گا تو دوسرے اُسے پسند کریں گے۔ اپنے بچے کو سکھائیں کہ اگر وہ ضبطِنفس سے کام لے گا تو اِس کے اچھے نتیجے نکلیں گے۔
بچوں کو سکھائیں کہ کون سی باتیں زیادہ اہم ہیں۔
پاک کلام کا اصول: ”معلوم کرتے رہیں کہ کون سی باتیں زیادہ اہم ہیں۔“—فِلپّیوں 1:10۔
ضبطِنفس کا بس یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ایک شخص بُرے کام کرنے سے باز رہے بلکہ اِس میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم وہ ضروری کام بھی کریں جنہیں کرنا شاید ہمیں پسند نہ ہو۔ بچوں کے لیے یہ سیکھنا بہت ضروری ہے کہ کون سے کام زیادہ اہم ہے اور اُنہیں سب سے پہلے اِنہی کو کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر اُنہیں یہ سیکھنا چاہیے کہ اُنہیں کھیلنے کودنے سے پہلے اپنے سکول کا ہوم ورک کرنا چاہیے۔
اچھی مثال قائم کریں۔
پاک کلام کا اصول: ”مَیں نے آپ کے لیے مثال قائم کی ہے۔ جیسا مَیں نے آپ کے ساتھ کِیا ہے، آپ کو بھی ویسا ہی کرنا چاہیے۔“—یوحنا 13:15۔
آپ کے بچے یہ دیکھتے ہیں کہ آپ ایک مشکل صورتحال میں کیسا ردِعمل دِکھاتے ہیں۔ اپنے کاموں اور رویے سے یہ ظاہر کریں کہ ضبطِنفس سے کام لینے کے کتنے اچھے نتیجے نکلتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب آپ کا بچہ آپ کے صبر کا اِمتحان لیتا ہے تو کیا آپ غصے سے بھڑک اُٹھتے ہیں یا پُرسکون رہتے ہیں؟
^ پیراگراف 20 کتاب ”ہر عمر کے بچوں کو نہ سننے کی عادت کیوں ڈالنی چاہیے اور ماں باپ اُنہیں ایسا کرنا سکھا سکتے ہیں؟“ کے اِقتباس سے۔—یہ کتاب انگریزی میں دستیاب ہے۔