واعظ 1‏:1‏-‏18

  • ‏”‏سب کچھ فضول ہے!‏“‏ ‏(‏1-‏11‏)‏

    • ‏”‏زمین ہمیشہ قائم رہتی ہے“‏ ‏(‏4‏)‏

    • قدرتی نظام چلتے رہتے ہیں ‏(‏5-‏7‏)‏

    • ‏”‏سورج تلے کچھ بھی نیا نہیں ہوتا“‏ ‏(‏9‏)‏

  • اِنسان کی دانش‌مندی محدود ہے ‏(‏12-‏18‏)‏

    • ہوا کے پیچھے بھاگنے کی طرح ‏(‏14‏)‏

1  داؤد کے بیٹے اور یروشلم کے بادشاہ واعظ*‏ کی باتیں۔‏   واعظ کہتا ہے:‏ ”‏اِنتہائی فضول!‏اِنتہائی فضول!‏ سب کچھ فضول ہے!‏“‏   اِنسان سورج تلے سخت محنت کرتا ہےلیکن اُسے اپنی ساری محنت کا کیا صلہ ملتا ہے؟‏   ایک پُشت جاتی ہے اور دوسری پُشت آتی ہےلیکن زمین ہمیشہ قائم*‏ رہتی ہے۔‏   سورج نکلتا*‏ ہے اور غروب ہوتا ہےپھر یہ بھاگا بھاگا*‏ وہاں لوٹ جاتا ہے جہاں سے یہ دوبارہ نکلتا ہے۔‏   ہوا جنوب کی طرف جاتی ہے اور گھوم کر شمال کی طرف آتی ہے؛‏یہ مسلسل چکر کاٹتی رہتی ہے، ہاں، یہ چکر پہ چکر کاٹتی رہتی ہے۔‏   ساری ندیاں*‏ سمندر میں گِرتی ہیں پھر بھی سمندر بھرتا نہیں۔‏ ندیاں اُس جگہ لوٹ جاتی ہیں جہاں سے وہ بہتی ہیں تاکہ پھر سے بہیں۔‏   سب چیزیں تھکا دینے والی ہیں؛‏کوئی بھی اِنہیں بیان نہیں کر سکتا۔‏ آنکھ دیکھ دیکھ کر تھکتی نہیںاور کان سُن سُن کر اُکتاتے نہیں۔‏   جو ہو چُکا ہے، وہ پھر سے ہوگااور جو کِیا جا چُکا ہے، وہ پھر سے کِیا جائے گا؛‏سورج تلے کچھ بھی نیا نہیں ہوتا۔‏ 10  کیا کوئی ایسی چیز ہے جس کے بارے میں کہا جا سکے:‏ ”‏دیکھو!‏ یہ تو نئی ہے“‏؟‏ نہیں۔ وہ چیز تو مُدتوں سے موجود ہے؛‏وہ تو ہمارے زمانے سے پہلے سے ہے۔‏ 11  پُرانے زمانے کے لوگوں کو کوئی یاد نہیں رکھتااور نہ ہی اُن کے بعد آنے والوں کو کوئی یاد رکھتا ہےاور جو اُن کے بعد آتے ہیں، اُنہیں بھی بُھلا دیا جاتا ہے۔‏ 12  مَیں واعظ یروشلم میں اِسرائیل کا بادشاہ ہوں۔ 13  مَیں نے اپنے دل کو تیار کِیا کہ مَیں دانش‌مندی سے اُس سب پر تحقیق‌وتفتیش کروں جو آسمان کے نیچے کِیا جاتا ہے یعنی اُس دُکھ‌بھرے کام پر جو خدا نے اِنسانوں کو دیا ہے اور جس میں وہ لگے رہتے ہیں۔‏ 14  مَیں نے اُن سب کاموں کو دیکھا جو سورج تلے کیے جاتے ہیںاور دیکھو!‏ سب کچھ فضول اور ہوا کے پیچھے بھاگنے کی طرح ہے۔‏ 15  جو ٹیڑھا ہے، اُسے سیدھا نہیں کِیا جا سکتااور جو ہے ہی نہیں، اُسے گنا نہیں جا سکتا۔‏ 16  پھر مَیں نے اپنے دل میں کہا:‏ ”‏دیکھو!‏ مَیں نے بہت دانش‌مندی حاصل کی ہے؛ مجھ سے پہلے یروشلم میں کسی کے پاس اِتنی دانش‌مندی نہیں تھی۔ میرے دل نے دانش‌مندی اور علم کے حوالے سے کافی تجربہ حاصل کر لیا ہے۔“‏ 17  مَیں نے دانش‌مندی، پاگل‌پن*‏ اور حماقت کے بارے میں جاننے کے لیے جی‌جان لگا دی اور یہ بھی ہوا کے پیچھے بھاگنے کی طرح ہے۔‏ 18  زیادہ دانش‌مندی زیادہ مایوسی لاتی ہےاِس لیے جو اپنا علم بڑھاتا ہے، وہ اپنی تکلیف بھی بڑھاتا ہے۔‏

فٹ‌ نوٹس

عبرانی میں:‏ ”‏مجمع بُلانے والے؛ اِکٹھا کرنے والے“‏
عبرانی میں:‏ ”‏کھڑی“‏
یا ”‏چمکتا“‏
یا ”‏ہانپتا ہوا“‏
یا ”‏سردی یا کسی اَور موسم میں بہنے والی ندیاں“‏
یا ”‏اِنتہا کی بے‌وقوفی“‏