مواد فوراً دِکھائیں

اِن جیسا ایمان ظاہر کریں | یونتن

‏’‏یہوواہ کے لئے بہتوں یا تھوڑوں کے ذریعہ سے بچانے کی قید نہیں‘‏

‏’‏یہوواہ کے لئے بہتوں یا تھوڑوں کے ذریعہ سے بچانے کی قید نہیں‘‏

ذرا اِس منظر کا تصور کریں۔‏ ایک بنجر اور چٹانی علاقے میں فلستی فوجیوں کی چوکی ہے۔‏ اِس چوکی پر تعینات فوجیوں کو اچانک دو آدمی نظر آتے ہیں۔‏ یہ آدمی اِسرائیلی ہیں اور وہ کھائی کے دوسرے پار میدان میں کھڑے ہیں۔‏ فوجی اُن آدمیوں کو دیکھ کر اُن کا مذاق اُڑانے لگتے ہیں۔‏ اُن کے خیال میں اُنہیں اِن آدمیوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔‏ فلستیوں نے کافی عرصے سے اِسرائیلیوں کو دبا کر رکھا ہوا ہے۔‏ اِسرائیلیوں کی حالت تو ایسی ہے کہ اُنہیں اپنے کھیتی‌باڑی میں اِستعمال ہونے والے اوزاروں کو تیز کروانے کے لیے بھی اپنے اِن دُشمنوں کے پاس جانا پڑتا ہے۔‏ اِسرائیلی فوجیوں کے پاس بس نام کے ہی ہتھیار ہیں۔‏ اِس کے علاوہ جو آدمی کھائی کے دوسرے پار کھڑے ہیں،‏ اگر اُن کے پاس ہتھیار ہیں بھی تو بھی وہ اُن فوجیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ اُن کے مقابلے میں وہ بس دو ہیں۔‏ (‏1-‏سموئیل 13:‏19-‏23؛‏ 14:‏11‏)‏ لہٰذا فلستی اِن آدمیوں کو طعنہ دیتے ہوئے کہتے ہیں:‏ ”‏آؤ،‏ ہمارے پاس آؤ تو ہم تمہیں سبق سکھائیں گے۔‏“‏—‏1-‏سموئیل 14:‏12‏،‏ اُردو جیو ورشن۔‏

اُس دن سبق تو واقعی سکھایا گیا۔‏ لیکن یہ سبق فلستیوں نے اِسرائیلیوں کو نہیں بلکہ اِسرائیلیوں نے فلستیوں کو سکھایا۔‏ وہ دو اِسرائیلی کھائی میں اُترے اور پھر اِسے پار کر کے اُوپر چٹانوں پر چڑھنے لگے۔‏ ڈھلان اِتنی زیادہ تھی کہ اُنہیں اپنے ہاتھوں اور پیروں دونوں کو اِستعمال کرنا پڑا۔‏ وہ چٹانوں کو سر کرتے ہوئے چوکی کی طرف بڑھنے لگے۔‏ (‏1-‏سموئیل 14:‏13‏)‏ اب فلستی دیکھ سکتے تھے کہ جو آدمی آگے چل رہا ہے،‏ اُس کے پاس ہتھیار ہیں اور اُس کا سلاح‌بردار اُس کے پیچھے پیچھے آ رہا ہے۔‏ لیکن کیا واقعی یہ آدمی اپنے اور اپنے سلاح‌بردار کے بل‌بوتے پر چوکی پر حملہ کرنے والا تھا؟‏ کہیں یہ آدمی پاگل تو نہیں تھا؟‏

یہ آدمی پاگل نہیں تھا بلکہ وہ مضبوط ایمان کا مالک تھا۔‏ اُس کا نام یونتن تھا۔‏ یونتن کے ساتھ پیش آئے اِس واقعے سے آج بھی خدا کے بندے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ سچ ہے کہ آج ہم کسی جنگ میں تو حصہ نہیں لیتے لیکن یونتن کی دلیری اور وفاداری پر غور کرنے سے ہمیں بہت فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ یہ خوبیاں حقیقی ایمان پیدا کرنے کے لیے نہایت ضروری ہیں۔‏—‏یسعیاہ 2:‏4؛‏ متی 26:‏51،‏ 52‏۔‏

ایک وفادار بیٹا اور دلیر فوجی

اِس بات کو سمجھنے کے لیے کہ یونتن نے اُس چوکی پر حملہ کیوں کِیا،‏ ہمیں اُن کے پس‌منظر پر غور کرنا ہوگا۔‏ یونتن اِسرائیل کے سب سے پہلے بادشاہ ساؤل کے پہلوٹھے بیٹے تھے۔‏ جب ساؤل کو بادشاہ کے طور پر مسح کِیا گیا تو اُس وقت یونتن شاید 20 سال یا اِس سے اُوپر کے تھے۔‏ لگتا ہے کہ یونتن،‏ ساؤل کے بادشاہ بننے کے بعد بھی اُن کے بہت قریب تھے اور ساؤل اکثر اُن سے راز کی باتیں کِیا کرتے تھے۔‏ اُس وقت یونتن کے نزدیک اُن کا والد صرف ایک خوب‌صورت اور لمبا چوڑا آدمی اور دلیر جنگجو ہی نہیں تھا بلکہ وہ اپنے باپ کو ایک ایسے شخص کے طور پر بھی جانتے تھے جو خاکسار اور مضبوط ایمان کا مالک تھا۔‏ یونتن کی نظر میں یہ بات بالکل واضح تھی کہ یہوواہ نے ساؤل کو اِنہی خوبیوں کی وجہ سے بادشاہ کے طور پر چُنا ہے۔‏ اور ایک موقعے پر تو سموئیل نبی نے بھی ساؤل کے بارے میں کہا تھا کہ ”‏اُس کی مانند سب لوگوں میں ایک بھی نہیں۔‏“‏—‏1-‏سموئیل 9:‏1،‏ 2،‏ 21؛‏ 10:‏20-‏24؛‏ 20:‏2‏۔‏

یونتن کو اپنے باپ کے زیرِکمان یہوواہ کے دُشمنوں سے لڑنے میں یقیناً بڑا فخر محسوس ہوتا ہوگا۔‏ خدا کے بندوں نے جو جنگیں لڑیں،‏ وہ آج‌کل کی جنگوں کی طرح نہیں تھیں جو قوم‌پرستی کے نام پر لڑی جاتی ہیں۔‏ اُس زمانے میں اِسرائیلی خدا کی چُنی ہوئی قوم تھے اور یہ قوم لگاتار بُت‌پرست قوموں کے نشانے پر تھی۔‏ اِن میں سے ایک فلستی تھے جو دجون اور دیگر دیوتاؤں کو پوجتے تھے۔‏ اُنہوں نے اکثر خدا کے بندوں پر ظلم ڈھائے،‏ یہاں تک کہ اُن کا نام‌ونشان مٹانے کی بھی کوشش کی۔‏

لہٰذا یونتن جیسے آدمی کے نزدیک ایسی قوموں سے جنگ کرنا خدا کی خدمت کرنے میں شامل تھا۔‏ یہوواہ نے بھی یونتن کی کوششوں پر برکت ڈالی۔‏ جب ساؤل بادشاہ بنے تو اِس کے تھوڑے ہی عرصے بعد اُنہوں نے یونتن کو 1000 فوجیوں کا سردار مقرر کر دیا۔‏ یونتن نے اپنے اِن فوجیوں کو ساتھ لے کر شہر جبع میں فلستی فوجیوں پر حملہ کِیا۔‏ حالانکہ یونتن اور اُن کے آدمیوں کے پاس اِتنے ہتھیار نہیں تھے لیکن یہوواہ کی مدد سے اُنہوں نے اپنے دُشمنوں کو مات دی۔‏ البتہ فلستی اپنی شکست پر چپ نہیں بیٹھے۔‏ اُنہوں نے ایک بڑی فوج اِکٹھی کی۔‏ اِس پر ساؤل کے بہت سے فوجی ڈر کے مارے کانپنے لگے۔‏ اُن میں سے کچھ بھاگ گئے اور کچھ چھپ گئے۔‏ کچھ اِسرائیلیوں نے تو فلستیوں کا ساتھ دیا۔‏ لیکن اِس سب کے باوجود یونتن کی دلیری ماند نہیں پڑی۔‏—‏1-‏سموئیل 13:‏2-‏7؛‏ 14:‏21‏۔‏

جس واقعے کا اِس مضمون کے شروع میں ذکر کِیا گیا ہے،‏ اُس دن یونتن نے فیصلہ کِیا کہ وہ اور اُن کا سلاح‌بردار اپنے باقی فوجیوں کی نظروں سے بچ کر فلستیوں کے مقابلے کو نکلیں گے۔‏ جیسے ہی وہ دونوں مکماس میں فلستیوں کی چوکی کے پاس پہنچے تو یونتن نے اپنے سلاح‌بردار کو اپنا منصوبہ بتایا اور اُس سے کہا کہ ہم ایسی جگہ جائیں گے جہاں سے فلستی ہمیں دیکھ سکیں۔‏ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر فلستیوں نے ہمیں اپنے ساتھ لڑنے کو کہا تو یہ اِس بات کا نشان ہوگا کہ یہوواہ اپنے بندوں کی مدد کرے گا۔‏ یونتن کا سلاح‌بردار فوراً اُن کی بات مان گیا۔‏ شاید اُس پر اُن کے اِن الفاظ کا اثر ہوا ہو:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کے لئے بہتوں یا تھوڑوں کے ذریعہ سے بچانے کی قید نہیں۔‏“‏ (‏1-‏سموئیل 14:‏6-‏10‏)‏ یونتن نے ایسا کیوں کہا؟‏

اِس لیے کیونکہ وہ اپنے خدا سے اچھی طرح واقف تھے۔‏ بِلاشُبہ وہ جانتے تھے کہ یہوواہ نے ماضی میں اپنے بندوں کو اُن کے دُشمنوں کے ہاتھ سے چھڑایا تھا حالانکہ یہ دُشمن تعداد میں اُن سے بہت زیادہ تھے۔‏ کئی موقعوں پر تو اُس نے صرف ایک شخص کے ذریعے اُنہیں فتح دِلائی۔‏ (‏قضاۃ 3:‏31؛‏ 4:‏1-‏23؛‏ 16:‏23-‏30‏)‏ لہٰذا یونتن اچھی طرح سمجھتے تھے کہ خدا کے بندوں کی فتح کا اِنحصار اِس پر نہیں کہ اُن کی تعداد کتنی ہے،‏ وہ کتنے طاقت‌ور ہیں یا اُن کے پاس کتنے ہتھیار ہیں بلکہ اِس کا اِنحصار اُن کے ایمان پر ہے۔‏ یونتن نے مضبوط ایمان کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہوواہ کو یہ فیصلہ کرنے دیا کہ وہ چوکی پر حملہ کریں یا نہیں۔‏ اور اِس کے لیے اُنہوں نے ایک نشان ٹھہرایا۔‏ پھر جب اُنہیں یہوواہ کی طرف سے منظوری مل گئی تو وہ دلیری سے چوکی پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھے۔‏

اِس واقعے سے یونتن کے ایمان کے حوالے سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔‏ پہلی یہ کہ وہ جانتے تھے کہ لامحدود قدرت والے خدا کو اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے کسی اِنسانی طاقت کی ضرورت تو نہیں ہے لیکن اُسے اپنے وفادار بندوں کے کاموں پر برکت دینے سے خوشی ملتی ہے۔‏ (‏2-‏تواریخ 16:‏9‏)‏ دوسری یہ کہ یونتن نے خدا پر بھروسا ظاہر کِیا۔‏ اُنہوں نے کارروائی کرنے سے پہلے یہوواہ سے اِس بات کا ثبوت مانگا کہ آیا وہ اُن کے منصوبے سے خوش ہے یا نہیں۔‏ آج ہم یہ توقع نہیں کرتے کہ خدا معجزانہ طور پر کوئی نشان دِکھا کر ہمیں بتائے کہ وہ ہمارے کسی منصوبے سے خوش ہے یا نہیں بلکہ ہمارے پاس خدا کا کلام ہے جس کے ذریعے ہم اُس کی مرضی کو جان سکتے ہیں۔‏ (‏2-‏تیمُتھیُس 3:‏16،‏ 17‏)‏ کیا آپ اہم فیصلے کرنے سے پہلے خدا کے کلام پر غور کرتے ہیں؟‏ اگر ایسا ہے تو آپ بھی یونتن کی طرح ظاہر کرتے ہیں کہ آپ کی نظر میں خدا کی مرضی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔‏

یونتن اور اُن کا سلاح‌بردار چوکی کی طرف بڑھنے کے لیے جلدی جلدی چٹانوں پر چڑھنے لگے۔‏ آخرکار فلستیوں کو احساس ہوا کہ اُن پر حملہ ہونے والا ہے اِس لیے اُنہوں نے اِن آدمیوں سے لڑنے کے لیے اپنے کچھ فوجی بھیجے۔‏ ایسا لگ رہا تھا کہ فلستیوں کے ہارنے کا سوال ہی نہیں ہے کیونکہ ایک تو وہ تعداد میں بہت زیادہ تھے اور دوسرا وہ اُونچائی پر تھے۔‏ وہاں سے اُتر کر اِن دو حملہ‌آوروں کو مارنا اُن کے لیے کافی آسان تھا۔‏ لیکن پھر جو ہوا،‏ وہ فلستیوں کے وہم‌وگمان میں بھی نہیں تھا۔‏ یونتن ایک کے بعد ایک فوجی کو گِراتے گئے اور پیچھے اُن کا سلاح‌بردار اُن کو موت کے گھاٹ اُتارتا گیا۔‏ تھوڑے سے ہی فاصلے میں اِن دو آدمیوں نے 20 دُشمن فوجی مار ڈالے۔‏ اِس کے بعد یہوواہ نے اَور بھی بڑا کام کِیا۔‏ بائبل میں ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏فلستیوں کے لشکر کے سارے سپاہیوں میں خوف‌وہراس پھیل گیا،‏ خواہ وہ لشکرگاہ میں تھے یا میدان میں۔‏ جو چوکیوں پر مُتعیّن تھے اُن میں اور چھاپہ‌مار دستوں میں بھی دہشت کی لہر دوڑ گئی اور زمین دہل گئی۔‏ یہ خوف‌وہراس [‏یہوواہ]‏ نے نازل کِیا تھا۔‏“‏—‏1-‏سموئیل 14:‏15‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن۔‏

یونتن اپنے سلاح‌بردار کے ساتھ فلستیوں کی چوکی پر حملہ کرنے گئے۔‏

کافی فاصلے پر کھڑے ساؤل اور اُن کے آدمیوں نے دیکھا کہ فلستیوں میں افراتفری مچ گئی ہے،‏ اُن پر دہشت طاری ہو گئی ہے،‏ یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کو ہی جان سے مار رہے ہیں۔‏ (‏1-‏سموئیل 14:‏16،‏ 20‏)‏ اِس پر اِسرائیلیوں نے ہمت باندھی اور اُن پر حملہ کر دیا۔‏ شاید اُنہوں نے مرے ہوئے فلستیوں کے ہتھیار اُٹھا لیے اور اُنہیں اِستعمال کِیا۔‏ اُس دن یہوواہ نے اپنے بندوں کو بڑی فتح‌یابی بخشی۔‏ یہوواہ نہیں بدلا؛‏ وہ جیسا اُس وقت تھا،‏ آج بھی ویسا ہی ہے۔‏ اگر ہم بھی یونتن اور اُن کے سلاح‌بردار کی طرح یہوواہ پر ایمان رکھیں گے تو ہم کبھی مایوس نہیں ہوں گے۔‏—‏ملاکی 3:‏6؛‏ رومیوں 10:‏11‏۔‏

‏”‏اُس نے آج خدا کے ساتھ ہو کر کام کِیا ہے“‏

یونتن اِس لڑائی میں اِس لیے کامیاب ہو پائے کیونکہ یہوواہ کا ہاتھ اُن پر تھا۔‏ البتہ ساؤل کے ساتھ ایسا نہیں تھا۔‏ اِس کی وجہ یہ تھی کہ ساؤل نے کچھ سنگین غلطیاں کی تھیں۔‏ پہلے تو اُنہوں نے خدا کے نبی سموئیل کی نافرمانی کی۔‏ اُنہوں نے یہوواہ کے حضور قربانی چڑھائی جسے چڑھانے کا حق لاوی ہونے کے ناتے سموئیل نبی کا تھا۔‏ جب سموئیل وہاں پہنچے تو اُنہوں نے ساؤل کو بتایا کہ اُن کی اِس نافرمانی کی وجہ سے اُن کی حکومت قائم نہیں رہے گی۔‏ اور اب اِس موقعے پر جب یونتن نے چوکی پر حملہ کِیا تو ساؤل نے اپنے آدمیوں کو جنگ پر بھیجنے سے پہلے یہ قسم دی:‏ ”‏جب تک شام نہ ہو اور مَیں اپنے دشمنوں سے بدلہ نہ لے لوں اُس وقت تک اگر کوئی کچھ کھائے تو وہ ملعون ہو۔‏“‏—‏1-‏سموئیل 13:‏10-‏14؛‏ 14:‏24‏۔‏

ساؤل کے اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کتنے بدل گئے تھے۔‏ کیا یہ خاکسار شخص جو خدا کے قریب تھا،‏ اناپرست بن گیا تھا؟‏ دیکھا جائے تو یہوواہ نے اُن دلیر اور محنتی فوجیوں پر اِس طرح کی کوئی پابندی نہیں لگائی تھی۔‏ اِس کے علاوہ غور کریں کہ ساؤل نے کہا:‏ ”‏جب تک .‏.‏.‏ مَیں اپنے دشمنوں سے بدلہ نہ لے لوں۔‏“‏ کیا ساؤل کی ”‏مَیں“‏ سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اُنہوں نے اِس جنگ کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا تھا؟‏ کیا وہ یہ بھول رہے تھے کہ اپنے بدلے کی آگ کو بجھانے اور اپنی بڑائی یا فتح‌یابی سے زیادہ اہم یہ ہے کہ یہوواہ کی اِنصاف‌پسندی ظاہر ہو؟‏

یونتن کو اپنے باپ کی دی ہوئی قسم کی کوئی خبر نہیں تھی۔‏ اِس لیے جب وہ جنگ سے تھکے ہارے ہوئے تھے تو اُنہوں نے اپنی لاٹھی کا سرا شہد کے چھتّے میں ڈال کر اُسے چاٹ لیا۔‏ اِس پر فوراً ہی اُن کی جان میں جان آ گئی۔‏ لیکن پھر اُن کے آدمیوں میں سے ایک نے اُنہیں اُن کے باپ کی قسم کے بارے میں بتایا۔‏ اِس پر یونتن نے کہا:‏ ”‏میرے باپ نے ملک کو دُکھ دیا ہے۔‏ دیکھو میری آنکھوں میں ذرا سا شہد چکھنے کے سبب سے کیسی روشنی آئی!‏ کتنا زیادہ اچھا ہوتا اگر سب لوگ دشمن کی لُوٹ میں سے جو اُن کو ملی دل کھول کر کھاتے کیونکہ ابھی تو فلستیوں میں کوئی بڑی خون‌ریزی بھی نہیں ہوئی ہے۔‏“‏ (‏1-‏سموئیل 14:‏25-‏30‏)‏ یونتن کی بات بالکل ٹھیک تھی۔‏ سچ ہے کہ یونتن ایک وفادار بیٹے تھے لیکن اُن کی آنکھوں پر وفاداری کی پٹی نہیں بندھی ہوئی تھی۔‏ اُنہوں نے بغیر سوچے سمجھے اپنے باپ کی ہر بات نہیں مان لی۔‏ اِسی وجہ سے اُنہوں نے لوگوں کی نظر میں عزت کمائی۔‏

جب ساؤل کو پتہ چلا کہ یونتن نے اُن کی قسم کی خلاف‌ورزی کی ہے تو یہ تسلیم کرنے کی بجائے کہ اُن کی دی ہوئی قسم سراسر غلط تھی،‏ اُنہوں نے کہا کہ اُن کے بیٹے کو ہی مار دیا جانا چاہیے۔‏ غور کریں کہ اِس پر یونتن نے کیسا ردِعمل دِکھایا۔‏ اُنہوں نے نہ تو اپنے باپ سے بحث کی اور نہ ہی رحم کی بھیک مانگی۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں مرنے کے لئے تیار ہوں۔‏“‏ (‏1-‏سموئیل 14:‏43‏،‏ اُردو جیو ورشن‏)‏ لیکن اِسرائیلی بول اُٹھے:‏ ”‏کیا یونتنؔ مارا جائے جس نے اِؔسرائیل کو ایسا بڑا چھٹکارا دیا ہے؟‏ ایسا نہ ہوگا [‏یہوواہ]‏ کی حیات کی قسم ہے کہ اُس کے سر کا ایک بال بھی زمین پر گِرنے نہیں پائے گا کیونکہ اُس نے آج خدا کے ساتھ ہو کر کام کِیا ہے۔‏“‏ لوگوں کی اِس بات پر ساؤل نے ہتھیار ڈال دیے۔‏ یوں ’‏لوگوں نے یونتن کو بچا لیا اور وہ مارے نہیں گئے۔‏‘‏—‏1-‏سموئیل 14:‏44،‏ 45‏۔‏

‏”‏مَیں مرنے کے لئے تیار ہوں۔‏“‏

اپنی دلیری اور محنت کی وجہ سے یونتن نے ایک اچھا نام کمایا تھا۔‏ اُن کی نیک‌نامی اُس وقت اُن کے کام آئی جب اُن کی جان خطرے میں تھی۔‏ ہمیں بھی اِس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہم کیسا نام کما رہے ہیں۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏نیک‌نامی بیش‌بہا عطر سے بہتر ہے۔‏“‏ (‏واعظ 7:‏1‏)‏ اگر یونتن کی طرح ہم بھی یہوواہ کی نظر میں نیک نام بننے کی کوشش کریں گے تو یہ بات ہمارے کام آئے گی۔‏

مایوسی کے باوجود ثابت‌قدم

اپنے باپ کی غلطیوں کے باوجود یونتن نے ہر جنگ میں اُس کا ساتھ دیا۔‏ ذرا تصور کریں کہ یونتن کو یہ دیکھ کر کتنی مایوسی ہوتی ہوگی کہ اُن کے باپ کے دل میں غرور سما گیا ہے اور وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا ہے!‏ اُن کا باپ دن‌بہ‌دن اندھیرے میں ڈوبتا جا رہا تھا اور یونتن چاہ کر بھی اُسے اِس اندھیرے سے نکال نہیں پا رہے تھے۔‏

ساؤل کی نافرمانی اُس وقت عروج پر پہنچ گئی جب یہوواہ نے اُنہیں عمالیقیوں کے خلاف جنگ کرنے کو کہا۔‏ عمالیقی اِس قدر بُرے تھے کہ موسیٰ کے زمانے میں یہوواہ نے پیش‌گوئی کی تھی کہ اُن کی پوری قوم تباہ ہو جائے گی۔‏ (‏خروج 17:‏14‏)‏ یہوواہ نے ساؤل کو حکم دیا تھا کہ وہ عمالیقیوں کے سارے مویشیوں کو اور اُن کے بادشاہ اجاج کو مار ڈالیں۔‏ ساؤل یہ جنگ جیت گئے۔‏ بےشک یونتن نے ہمیشہ کی طرح اِس جنگ میں بھی اپنے باپ کا ساتھ دیا ہوگا اور وہ بڑی بہادری سے لڑے ہوں گے۔‏ لیکن اِس موقعے پر ساؤل نے کھلم‌کُھلا خدا کی نافرمانی کی۔‏ اُنہوں نے اجاج کو نہیں مارا اور عمالیقیوں کے مویشیوں اور مال‌واسباب کو اپنے پاس رکھ لیا۔‏ یہ دیکھ کر سموئیل نے ساؤل کو یہوواہ کا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے کہا:‏ ”‏چُونکہ تُو نے [‏یہوواہ]‏ کے حکم کو رد کِیا ہے اِس لئے اُس نے بھی تجھے رد کِیا ہے کہ بادشاہ نہ رہے۔‏“‏—‏1-‏سموئیل 15:‏2،‏ 3،‏ 9،‏ 10،‏ 23‏۔‏

اِس واقعے کو گزرے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا کہ یہوواہ نے اپنی پاک روح ساؤل سے ہٹا لی۔‏ یہوواہ کی رہنمائی سے محروم ہونے کی وجہ سے ساؤل کے مزاج میں اُتار چڑھاؤ آنے لگے،‏ اُنہیں غصے کے دورے پڑنے لگے اور اُن پر خوف طاری رہنے لگا۔‏ یہ ایسے تھا گویا اچھی روح کی جگہ خدا کی طرف سے بُری روح اُن پر اثر کرنے لگی تھی۔‏ (‏1-‏سموئیل 16:‏14؛‏ 18:‏10-‏12‏)‏ ذرا سوچیں کہ اپنے باپ کی شخصیت کو اِتنی بُری طرح سے بدلتے دیکھ کر یونتن کتنے دُکھی ہو جاتے ہوں گے!‏ لیکن یونتن نے کبھی بھی یہوواہ سے مُنہ نہیں موڑا۔‏ اُن کے لیے جہاں تک ممکن تھا،‏ اُنہوں نے اپنے باپ کا ساتھ دیا۔‏ اُنہوں نے ساؤل کی سوچ کو درست کرنے کی کوشش کی اور کبھی کبھار تو سیدھے اور کھرے لفظوں میں اُن سے بات بھی کی۔‏ البتہ اُنہوں نے اپنی پوری توجہ اپنے لاتبدیل خدا یہوواہ پر رکھی۔‏—‏1-‏سموئیل 19:‏4،‏ 5‏۔‏

کیا آپ نے کبھی اپنے کسی عزیز یا شاید اپنے گھر کے کسی فرد کی اچھی شخصیت کو بُری شخصیت میں بدلتے دیکھا ہے؟‏ یہ نہایت ہی تکلیف‌دہ تجربہ ہو سکتا ہے۔‏ یونتن کے تجربے سے ہمیں زبورنویس کی لکھی یہ بات یاد آتی ہے:‏ ”‏جب میرا باپ اور میری ماں مجھے چھوڑ دیں تو یہوواہ مجھے سنبھال لے گا۔‏“‏ (‏زبور 27:‏10‏)‏ یہوواہ وفادار خدا ہے۔‏ بھلے عیب‌دار اِنسان آپ کو کتنا ہی مایوس کریں،‏ یہوواہ آپ کو سنبھالے گا اور ایسا بہترین باپ ثابت ہوگا جس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔‏

یونتن غالباً جانتے تھے کہ یہوواہ نے ساؤل سے اُن کی حکومت لے لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‏ اِس پر یونتن کا ردِعمل کیا تھا؟‏ کیا اُنہوں نے کبھی یہ سوچا تھا کہ اگر وہ تخت سنبھالیں گے تو وہ کیسے حکمران بنیں گے؟‏ کیا اُنہیں یہ اُمید تھی کہ اُنہیں اپنے باپ کی غلطیوں کو سدھارنے اور خود کو یہوواہ کا وفادار اور ایک مثالی بادشاہ ثابت کرنے کا موقع ملے گا؟‏ ہم یہ تو نہیں جانتے کہ یونتن نے کیا کچھ سوچ رکھا تھا لیکن ہم اِتنا ضرور جانتے ہیں کہ اُن کی اِن خواہشوں نے کبھی حقیقت کا رُوپ اِختیار نہیں کِیا۔‏ تو کیا اِس کا مطلب یہ تھا کہ یہوواہ اپنے اِس وفادار بندے سے خوش نہیں تھا؟‏ ہر گز نہیں۔‏ اُس نے اپنے کلام میں یونتن کا ذکر ایک ایسے شخص کے طور پر کِیا جس نے دوستی کی عمدہ مثال قائم کی۔‏ یونتن پر آنے والے اگلے مضمون میں اِس دوستی پر بات کی جائے گی۔‏