مواد فوراً دِکھائیں

اِن جیسا ایمان ظاہر کریں | ایوب

‏”‏مَیں مرتے دم تک اپنی راستی کو ترک نہ کروں گا“‏

‏”‏مَیں مرتے دم تک اپنی راستی کو ترک نہ کروں گا“‏

ایک آدمی زمین پر بیٹھا تھا۔‏ اُس کا جسم سر سے پاؤں تک تکلیف دہ پھوڑوں سے بھرا تھا۔‏ ذرا اُس کی حالت کا تصور کریں۔‏ اُس کا سر اور کندھے جھکے ہوئے تھے اور اُس میں اِتنی طاقت بھی نہیں تھی کہ وہ اپنے اِردگِرد بھنبھنانے والی مکھیوں کو اُڑا سکے۔‏ ماتم کا اِظہار کرنے کے لیے وہ راکھ پر بیٹھا تھا اور ایک ٹھیکرے سے اپنی جِلد کو کھجا رہا تھا۔‏ اُس نے بہت کچھ کھو دیا تھا۔‏ پہلے لوگ اُس کی عزت کرتے تھے لیکن اب وہ اُسے حقیر سمجھتے تھے۔‏ اُس کے دوستوں،‏ پڑوسیوں اور رشتےداروں نے اُسے چھوڑ دیا تھا۔‏ سب لوگ،‏ یہاں تک کہ بچے بھی اُس کا مذاق اُڑاتے تھے۔‏ اُسے لگتا تھا کہ اُس کے خدا یہوواہ نے بھی اُس سے مُنہ موڑ لیا ہے لیکن اُس کا یہ خیال غلط تھا۔‏‏—‏ایوب 2:‏8؛‏ 19:‏18،‏ 22‏۔‏

وہ آدمی ایوب تھا۔‏ خدا نے ایوب کے بارے میں کہا:‏ ”‏زمین پر اُس کی طرح ‏.‏.‏.‏ کوئی نہیں۔‏“‏ (‏ایوب 1:‏8‏)‏ اِس کے صدیوں بعد بھی یہوواہ خدا نے ایوب کا ذکر اُن لوگوں کے ساتھ کِیا جو اُس کے وفادار تھے۔‏‏—‏حِزقی ایل 14:‏14،‏ 20۔‏

کیا آپ کو بھی مشکلوں اور مصیبتوں کا سامنا ہے؟‏ اگر ایسا ہے تو ایوب کی کہانی سے آپ کو بڑی تسلی مل سکتی ہے۔‏ اِس سے آپ ایک اہم خوبی کے بارے میں بھی سیکھ سکتے ہیں جس کی خدا کے ہر بندے کو ضرورت ہے۔‏ یہ خوبی وفاداری ہے۔‏ خدا کے وفادار بندے پوری طرح سے خود کو خدا کے لیے وقف کر دیتے ہیں اور مشکلات کے باوجود اُس کی مرضی پر چلتے رہتے ہیں۔‏ آئیں،‏ ایوب کی کہانی پر تفصیل سے غور کریں اور اِس سے اہم سبق سیکھیں۔‏

ایوب کیا نہیں جانتے تھے؟‏

ایسا لگتا ہے کہ ایوب کی موت کے کچھ عرصے بعد خدا کے وفادار بندے موسیٰ نے ایوب کی کہانی لکھی۔‏ خدا کے اِلہام سے موسیٰ نے نہ صرف زمین پر ہونے والے اُن واقعات کے بارے میں بتایا جن سے ایوب کی زندگی متاثر ہوئی بلکہ ایسے کچھ واقعات کے بارے میں بھی جو اِس دوران آسمان پر ہوئے۔‏

اِس کہانی کے شروع میں بتایا گیا ہے کہ ایوب بڑی خوش گوار اور مطمئن زندگی گزار رہے تھے۔‏ وہ ایک خوش حال،‏ مشہور اور عزت دار شخص تھے۔‏ وہ عوض میں رہتے تھے جو غالباً شمالی عرب میں ہے۔‏ وہ دل کھول کر غریبوں کی مدد کرتے تھے اور بےسہارا لوگوں کو سہارا دیتے تھے۔‏خدا نے اُنہیں دس بچوں سے نوازا تھا۔‏ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ایوب خدا کے ساتھ اپنی دوستی کی بہت قدر کرتے تھے۔‏وہ اپنے دُور کے رشتےداروں ابراہام،‏ اِضحاق،‏ یعقوب اور یوسف کی طرح یہوواہ خدا کو خوش کرنے کی پور ی کوشش کرتے تھے۔‏ خدا کے اِن خادموں کی طرح ایوب بھی ایک کاہن کے طور پر باقاعدگی سے اپنے بچوں کی خاطر قربانیاں پیش کرتے تھے۔‏‏—‏ایوب 1:‏1-‏5؛‏ 31:‏16-‏22‏۔‏

اچانک اِس کہانی کا رُخ زمین سے آسمان کی طرف مُڑ جاتا ہے اور ہمیں آسمان پر ہونے والے ایسے واقعات کے بارے میں پتہ چلتا ہے جن کے بارے میں ایوب نہیں جانتے تھے۔‏ یہوواہ کے وفادار فرشتے اُس کے حضور جمع تھے۔‏ اور اچانک باغی فرشتہ شیطان وہاں آ گیا۔‏ یہوواہ جانتا تھا کہ شیطان اُس کے وفادار بندے ایوب سے نفرت کرتا ہے۔‏ اِس لیے اُس نے شیطان سے ایوب کی وفاداری کے بارے میں بات کی۔‏اِس پر شیطان نے دلیری سے کہا:‏ ”‏کیا اؔیوب یوں ہی خدا سے ڈرتا ہے؟‏ کیا تُو نے اُس کے اور اُس کے گھر کے گِرد اور جو کچھ اُس کا ہے اُس سب کے گِرد چاروں طرف باڑ نہیں بنائی ہے؟‏“‏ شیطان اُن لوگوں سے نفرت کرتا ہے جو یہوواہ خدا کے وفادار ہیں۔‏ جب وہ لوگ پورے دل سے خدا کی بندگی کرتے ہیں تو وہ ثابت کرتے ہیں کہ شیطان باغی ہے اور کسی سے پیار نہیں کرتا۔‏ شیطان نے کہا کہ ایوب خودغرضی کی وجہ سے خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔‏ اُس نے دعویٰ کِیا کہ اگر ایوب کا سب کچھ چلا جائے تو وہ یہوواہ کے مُنہ پر اُس کے خلاف کفر بکیں گے۔‏‏—‏ایوب 1:‏6-‏11‏۔‏

ایوب نہیں جانتے تھے لیکن یہوواہ نے اُنہیں ایک بڑا خاص اعزاز دیا تھا۔‏ اور وہ اعزاز یہ تھا کہ ایوب شیطان کو جھوٹا ثابت کریں۔‏ یہوواہ نے شیطان کو اِجازت دی کہ وہ ایوب کا سب کچھ چھین لے لیکن ایوب کو نقصان نہ پہنچائے۔‏ شیطان نے بڑے جوش سے اپنی بےرحم کارروائی شروع کر دی۔‏ ایک ہی دن میں ایوب پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔‏ اُنہیں پتہ چلا کہ وہ اپنے مویشیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔‏پہلے تو اُن کے بیل اور گدھے گئے پھر اُن کی بھیڑ بکریاں اور پھر اُونٹ۔‏ اِس سے بھی افسوس ناک بات یہ تھی کہ اِن مویشیوں کی دیکھ بھال کرنے والے خادموں کی جان چلی گئی۔‏ ایک واقعے کے بارے میں تو ایوب سے یہ کہا گیا کہ یہ ”‏خدا کی آگ“‏کی وجہ سے ہوا ہے جو غالباً آسمانی بجلی تھی۔‏ ابھی ایوب سمجھ بھی نہیں پائے تھے کہ ایک دم سے اِتنے لوگوں کی جان کیسے چلی گئی اور وہ اِتنے غریب کیسے ہو گئے کہ اُنہیں اب تک کی سب سے بُری خبر ملی۔‏ اُن کے سارے بچے اپنے سب سے بڑے بھائی کے گھر جمع تھے کہ اچانک سے ایک زوردار آندھی چلی جس کی وجہ سے گھر گِر گیا اور سب بچے اپنی جان گنوا بیٹھے۔‏‏—‏ایوب 1:‏12-‏19‏۔‏

یہ تصور کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہے کہ اُس وقت ایوب کیسا محسوس کر رہے ہوں گے۔‏ اُنہوں نے اپنے کپڑے پھاڑے،‏ اپنے بال کاٹ دیے اور زمین پر گِر گئے۔‏ ایوب نے سوچا کہ سب کچھ خدا نے اُنہیں دیا تھا اور خدا ہی نے واپس لے لیا۔‏ بےشک شیطان نے بڑی چالاکی سے یوں ظاہر کِیا کہ جیسے یہ ساری مصیبتیں خدا نے بھیجی ہوں۔‏لیکن پھر بھی ایوب نے خدا کے خلاف کفر نہیں بکا اور یوں شیطان کی بات جھوٹی ثابت ہوئی۔‏ ایوب نے کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کا نام مبارک ہو۔‏“‏‏—‏ایوب 1:‏20-‏22‏۔‏

ایوب نہیں جانتے تھے کہ شیطان خدا کے سامنے اُن پر اِلزام لگا رہا ہے۔‏

‏”‏وہ تیرے مُنہ پر تیری تکفیر کرے گا“‏

شیطان بہت غصے میں تھا لیکن اُس نے ہار نہیں مانی۔‏ وہ دوبارہ سے یہوواہ کے حضور گیا جہاں دوسرے فرشتے بھی موجود تھے۔‏ یہوواہ نے ایک بار پھر ایوب کی وفاداری کی تعریف کی کیونکہ وہ شیطان کے حملوں کے باوجود اُس کے وفادار تھے۔‏ شیطان نے کہا:‏ ”‏کھال کے بدلے کھال بلکہ اِنسان اپنا سارا مال اپنی جان کے لئے دے ڈالے گا۔‏ اب فقط اپنا ہاتھ بڑھا کر اُس کی ہڈی اور اُس کے گوشت کو چُھو دے تو وہ تیرے مُنہ پر تیری تکفیر کرے گا۔‏“‏ شیطان کو یقین تھا کہ اگر ایوب بہت زیادہ بیمار ہو جائیں تو وہ یہوواہ کے خلاف کفر بکیں گے۔‏ لیکن یہوواہ کو ایوب پر پورا بھروسا تھا اِس لیے اُس نے شیطان کو ایوب کو بیمار کرنے کی اِجازت دے دی مگر اُنہیں ہلاک کرنے کی اِجازت نہیں دی۔‏‏—‏ایوب 2:‏1-‏6‏۔‏

جلد ہی ایوب کی وہ حالت ہو گئی جو پہلے پیراگراف میں بتائی گئی ہے۔‏ ذرا اُن کی بیوی کی حالت کا تصور کریں۔‏ وہ اپنے دس بچوں کی موت کے غم سے پہلے ہی نڈھال تھی۔‏ اب اُسے اپنے شوہر کو اِتنی تکلیف میں دیکھنا پڑ رہا تھا۔‏ لیکن وہ بےبس تھی۔‏ وہ شدید کرب میں مبتلا تھی اِس لیے اُس نے اپنے شوہر سے کہا:‏ ”‏کیا تُو اب بھی اپنی راستی پر قائم رہے گا؟‏ خدا کی تکفیر کر اور مر جا۔‏“‏ آج سے پہلے ایوب کی بیوی نے ایسی بات نہیں کہی ہوگی۔‏ اِس لیے ایوب نے اُس سے بس اِتنا ہی کہا کہ وہ نادان لوگوں کی طرح بات کر رہی ہے۔‏ اپنی بیوی کے کہنے پر بھی ایوب نے خدا کے خلاف کفر نہیں بکا۔‏ اُنہوں نے ”‏اپنے لبوں سے خطا نہ کی۔‏“‏‏—‏ایوب 2:‏7-‏10‏۔‏

کیا یہ دُکھی کہانی ہم پر بھی اثر ڈالتی ہے؟‏ غور کریں کہ جب شیطان نے ایوب پر اِلزام لگایا تو یہ صرف ایوب پر نہیں تھا بلکہ تمام اِنسانوں پر تھا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏اِنسان اپنا سارا مال اپنی جان کے لئے دے ڈالے گا۔‏“‏ دوسرے لفظوں میں شیطان کا ماننا ہے کہ کوئی بھی اِنسان خدا کا وفادار نہیں رہ سکتا۔‏ اُس کا دعویٰ ہے کہ ہم خدا سے حقیقی محبت نہیں کرتے اور اپنے آپ کو بچانے کے لیے خدا سے فوراً مُنہ موڑ لیں گے۔‏ ایک طرح سے شیطان یہ کہتا ہے کہ ہم اُس کی طرح خودغرض ہیں۔‏ کیا آپ شیطان کو غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں؟‏ہم سب کے پاس یہ موقع ہے کہ ہم اُسے غلط ثابت کریں۔‏ (‏امثال 27:‏11‏)‏ آئیں،‏ اب دیکھیں کہ اِس کے بعد ایوب کو کون سی مشکل کا سامنا ہوا۔‏

ایوب کے دوستوں کے جھوٹے اِلزام

تین آدمی جنہیں بائبل میں ایوب کے دوست کہا گیا ہے،‏ ایوب کی مشکلوں اور تکلیفوں کا سُن کر اُن سے ملنے اور اُنہیں تسلی دینے آئے۔‏ جب اُنہوں نے ایوب کو دُور سے دیکھا تو وہ اُنہیں پہچان نہیں پائے۔‏ ایوب درد سے بےحال تھے،‏ اُن کی جِلد بیماری کی وجہ سے کالی سیاہ ہو چُکی تھی اور وہ پہلے جیسے بالکل نہیں لگ رہے تھے۔‏ اُن تینوں آدمیوں کے نام الیفز،‏بلدد اور ضوفر تھے۔‏ ایوب کو دیکھ کر وہ چلّا چلّا کر رونے لگے اور اپنے سر میں خاک ڈالنے لگے جیسے اُنہیں ایوب کی حالت پر بڑا دُکھ ہو۔‏ پھر وہ ایوب کے پاس زمین پر بیٹھ گئے اور کچھ نہیں کہا۔‏ ایک ہفتے تک وہ دن رات وہاں بیٹھے رہے لیکن اپنے مُنہ سے ایک لفظ نہیں نکلا۔‏ اُن کی خاموشی کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ ایوب کو تسلی دینا چاہتے تھے کیونکہ اُنہوں نے ایوب کی حالت جاننے کے لیے اُن سے کچھ نہیں پوچھا۔‏ اُنہیں بس وہ پتہ تھا جو اُنہیں نظر آ رہا تھا کہ ایوب بڑی تکلیف میں ہیں۔‏‏—‏ایوب 2:‏11-‏13؛‏ 30:‏30‏۔‏

آخرکار ایوب کو خود اُن سے بات شروع کرنی پڑی۔‏ اُنہوں نے اپنی پیدائش کے دن پر لعنت کی۔‏اُن کے الفاظ درد میں ڈوبے ہوئے تھے ۔‏ اُنہوں نے بتایا کہ وہ اِتنی تکلیف میں کیوں ہیں۔‏ دراصل وہ سوچ رہے تھے کہ خدا اُن پر مصیبتیں لایا ہے ۔‏ (‏ایوب 3:‏1،‏ 2،‏ 23‏)‏ ایوب نے خدا پر ایمان رکھنا نہیں چھوڑا تھا مگر اُنہیں تسلی کی اشد ضرورت تھی۔‏ لیکن جب اُن کے دوستوں نے بولنا شروع کِیا تو اُنہیں احساس ہو گیا کہ اُن کے دوستوں کا چپ رہنا ہی اچھا تھا۔‏‏—‏ایوب 13:‏5‏۔‏

الیفز نے جو غالباً سب سے بڑے تھے اور ایوب سے تو کافی بڑے تھے،‏ سب سے پہلے بات کی۔‏ آہستہ آہستہ دوسرے دونوں بھی بولنے لگے۔‏ اُن دونوں نے بھی الیفز کی طرح زیادہ تر فضول باتیں کہیں۔‏ اُن کی کچھ باتیں اِتنی نقصان دہ نہیں لگ رہی تھیں کیونکہ اُنہوں نے خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہیں جو صحیح تھیں۔‏ مثال کے طور پر اُنہوں نے کہا کہ خدا بڑی اعلیٰ ہستی ہے،‏ وہ بُرے لوگوں کو سزا دیتا ہے اور اچھے لوگوں کو اجر دیتا ہے۔‏ لیکن شروع سے ہی یہ لگ رہا تھا کہ اُنہیں ایوب کے احساسات کی بالکل پرواہ نہیں۔‏ الیفز نے سادہ سی دلیل دی اور کہا کہ اگر خدا نیک ہے اور بُرے لوگوں کو سزا دیتا ہے تو ایوب کو ضرور اِس لیے سزا مل رہی ہے کہ اُنہوں نے کوئی غلط کام کِیا ہے۔‏‏—‏ایوب 4:‏1،‏ 7،‏ 8؛‏ 5:‏3-‏6‏۔‏

ایوب نے اُن کی دلیلوں کو قبول نہیں کِیا۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏تُم دلیلوں سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہو؟‏“‏ (‏ایوب 6:‏25‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ لیکن ایوب کے تینوں دوستوں کا یہ یقین اَور پکا ہو گیا کہ ایوب نے کوئی گُناہ کِیا ہے اور وہ اِسے چھپا رہے ہیں جس کی وجہ سے اُن کی اِتنی بُری حالت ہوئی ہے۔‏ الیفز نے ایوب پر اِلزام لگایا کہ وہ مغرور اور بُرے ہیں اور خدا سے نہیں ڈرتے۔‏ (‏ایوب 15:‏4،‏ 7-‏9،‏ 20-‏24؛‏ 22:‏6-‏11‏)‏ ضوفر نے ایوب سے کہا کہ وہ اپنی بُرائی سے خوش نہ ہوں بلکہ اِس سے باز آ جائیں۔‏ (‏ایوب 11:‏2،‏ 3،‏ 14؛‏ 20:‏5،‏ 12،‏ 13‏)‏ اور بلدد نے تو ایوب پر سب سے تکلیف دہ وار کِیا۔‏ اُنہوں نے کہا کہ ایوب کے بیٹوں نے ضرور کچھ بُرا کِیا ہوگا اِس لیے اُن سب پر موت آئی۔‏‏—‏ایوب 8:‏4،‏ 13‏۔‏

ایوب کے تینوں دوست اُن کے لیے تسلی کا نہیں بلکہ اَور زیادہ غم کا باعث بنے۔‏

ایوب کی وفاداری پر حملے

اُن تینوں نے اِسی پر بس نہیں کی ۔‏ اُنہوں نے نہ صرف ایوب کی وفاداری پر سوال اُٹھایا بلکہ یہ دعویٰ بھی کِیا کہ خدا کے وفادار رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔‏ الیفز نے ایک اَن دیکھی ہستی کی آواز سننے کا دعویٰ کِیا اور اُس سے یہ تباہ کُن نتیجہ نکالا کہ خدا کو ”‏اپنے خادموں کا اِعتبار نہیں اور وہ اپنے فرشتوں پر حماقت کو عائد کرتا ہے۔‏“‏ اگر یہ بات صحیح ہوتی تو پھر تو اِنسان کبھی بھی خدا کو خوش نہ کر پاتے۔‏ بعد نے بلدد نے دعویٰ کِیا کہ خدا کی نظر میں ایوب کی وفاداری ویسے ہی ہے جیسے ایک کیڑے کی وفاداری۔‏‏—‏ایوب 4:‏12-‏18؛‏ 15:‏15؛‏ 22:‏2،‏ 3؛‏ 25:‏4-‏6‏۔‏

کیا آپ نے کبھی کسی ایسے شخص کو تسلی دینے کی کوشش کی ہے جو اِنتہائی تکلیف میں ہو؟‏ بےشک ایسا کرنا آسان نہیں ہوتا۔‏ لیکن ایوب کے تینوں دوستوں کی باتوں سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہمیں دوسروں کو تسلی دیتے وقت کیسی باتیں نہیں کہنی چاہئیں۔‏ وہ بڑی بڑی باتیں اور فضول دلیلیں پیش کرنے میں لگے تھے مگر اُنہوں نے ایک بار بھی ایوب کو نام لے کر نہیں پکارا۔‏ اُنہوں نے ایوب کے زخمی دل پر مرہم لگانے کے بارے میں بالکل نہیں سوچا۔‏ * لہٰذا اگر آپ کا کوئی عزیز دُکھی ہو تو اُس سے مہربانی اور نرمی سے بات کریں اور اُس کے احساسات کا خیال رکھیں۔‏ اُسے حوصلہ دینے اور اُس کا ایمان مضبوط کرنے کی کوشش کریں۔‏ اُس کی مدد کریں کہ وہ خدا پر پورا بھروسا رکھے اور اِس بات پر یقین رکھے کہ خدا نہایت مہربان،‏ رحیم اور اِنصاف کرنے والا ہے۔‏ اگر ایوب کے دوست اُن کی جگہ ہوتے تو ایوب اُن کو تسلی دیتے وقت اِن باتوں پر ضرور عمل کرتے۔‏ (‏ایوب 16:‏4،‏ 5‏)‏ ایوب نے اپنے دوستوں کے اُن لگاتار حملوں کا مقابلہ کیسے کِیا جو اُن کی وفاداری پر کیے جا رہے تھے؟‏

ایوب خدا کے وفادار رہے

جب ایوب نے اپنے دوستوں کی باتوں کا جواب دینا شروع کِیا تو وہ پہلے سے ہی کافی دُکھی تھے۔‏ اُنہوں نے شروع میں ہی کہا کہ اُن کی کچھ باتیں”‏بےتاملی کی ہیں“‏ یعنی وہ بِلا سوچے سمجھے بول رہے ہیں اور ایسے شخص کی طرح بات کر رہے ہیں جو بہت”‏مایوس“‏ ہو۔‏ (‏ایوب 6:‏3،‏ 26‏)‏ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اُنہوں نے ایسا کیوں کہا۔‏ اُن کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن دل غم سے بھرا تھا اور وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ اُن کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔‏ اُن پر اور اُن کے خاندان پر بالکل اچانک سے مصیبتیں ٹوٹ پڑی تھیں اور ایسا لگتا تھا کہ یہ کسی اِنسان کا کام نہیں ہے۔‏ اِس لیے ایوب کو لگا کہ اِس سب کے پیچھے یہوواہ کا ہاتھ ہے۔‏ لیکن کچھ ایسے واقعات تھے جن کے بارے میں ایوب نہیں جانتے تھے اِس لیے اُنہوں نے کچھ ایسی باتیں کہیں جو صحیح نہیں تھیں۔‏

مگر ایوب کا ایمان بہت گہرا اور مضبوط تھا۔‏ اُن کا ایمان اُن باتوں سے ظاہر ہوتا ہے جو اُنہوں نے اپنے دوستوں سے لمبی چوڑی بات چیت میں کہیں۔‏ اُن کی باتیں سچی اور دلکش تھیں اور اِن سے ہمیں حوصلہ ملتا ہے۔‏ جب اُنہوں نے تخلیق کی بات کی تو اُنہوں نے ایسی باتیں بتائیں جو کوئی اِنسان خدا کی مدد کے بغیر نہیں بتا سکتا تھا۔‏ مثال کے طور پر اُنہوں نے کہا کہ یہوواہ ”‏زمین کو خلا میں لٹکاتا ہے“‏ اور سائنس دانوں نے یہ حقیقت اِس کے صدیوں بعد دریافت کی۔‏ * (‏ایوب 26:‏7‏)‏ پھر جب ایوب نے مستقبل کے بارے میں اپنی اُمید کا ذکر کِیا تو اُنہوں نے اُسی یقین کا اِظہار کِیا جو خدا کے دیگر وفادار بندے رکھتے تھے۔‏ ایوب کو یقین تھا کہ اگر وہ مر بھی جائیں تو خدا اُنہیں یاد رکھے گا اور آخرکار اُنہیں دوبارہ زندہ کرے گا۔‏‏—‏ایوب 14:‏13-‏15؛‏ عبرانیوں 11:‏17-‏19،‏ 35‏۔‏

ایوب کے تینوں دوستوں نے وفاداری کے معاملے پر جو سوال اُٹھایا،‏ اُس کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟‏ الیفز اور اُن کے دونوں دوستوں نے بار بار یہ کہا کہ خدا کو اِنسانوں کے وفادار رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‏ کیا ایوب نے اِس فضول سوچ کو قبول کر لیا؟‏ ہرگز نہیں۔‏ ایوب نے اِس بات پر زور دیا کہ خدا کے نزدیک اِنسانوں کی وفاداری اہم ہے۔‏ اُنہوں نے بڑے اِعتماد سے یہوواہ کے بارے میں کہا کہ وہ ”‏میری راستی کو جان“‏ لے گا۔‏ (‏ایوب 31:‏6‏)‏ اِس کے علاوہ ایوب یہ بھی سمجھ گئے کہ اُنہیں تسلی دینے کی کوشش کرنے والے اُن کے دوست دراصل خدا کے لیے اُن کی وفاداری پر سوال اُٹھا رہے تھے۔‏ اِس کے بعد ایوب نے اُن سے جو باتیں کہیں،‏ وہ اُن کا سب سے لمبا بیان ہے۔‏ اِس بیان کے بعد اُن کے تینوں دوستوں کے مُنہ بند ہو گئے۔‏

ایوب سمجھتے تھے کہ اُنہیں زندگی کے ہر معاملے میں خدا کا وفادار رہنا ہے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے بتایا کہ وہ اپنی زندگی کیسے گزارتے رہے ہیں۔‏ مثال کے طور پر وہ ہر طرح کی بُت پرستی سے گریز کرتے تھے،‏ وہ دوسروں سے مہربانی اور احترام سے پیش آتے تھے،‏ وہ اپنا چال چلن پاک رکھتے تھے،‏ وہ اپنے شادی کے بندھن کی قدر کرتے تھے اور سب سے بڑھ کر وہ سچے خدا یہوواہ کے وفادار تھے اور اُس کی بندگی کرتے تھے۔‏ اِس لیے ایوب یہ کہہ سکتے تھے:‏ ”‏مَیں مرتے دم تک اپنی راستی کو ترک نہ کروں گا۔‏“‏‏—‏ایوب 27:‏5؛‏ 31:‏1،‏ 2،‏ 9-‏11،‏ 16-‏18،‏ 26-‏28‏۔‏

ایوب نے عزم کر رکھا تھا کہ وہ ہر حال میں خدا کے وفادار رہیں گے۔‏

ایوب جیسا ایمان ظاہر کریں

کیا ایوب کی طرح آپ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کا وفادار رہنا کتنا اہم ہے؟‏ ایوب جانتے تھے کہ محض یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ ہم خدا کے وفادار ہیں بلکہ اپنے کاموں سے اِس بات کو ثابت کرنا بھی ضروری ہے۔‏ ہم یہوواہ خدا کے حکموں پر عمل کرنے اور اپنی روزمرہ زندگی میں،‏ یہاں تک کہ مشکلات میں بھی صحیح کام کرنے سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم پورے دل سے یہوواہ کی بندگی کرتے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے ہم ایوب کی طرح یہوواہ کو خوش کرتے ہیں اور اُس کے دُشمن یعنی شیطان کو غصہ دِلاتے ہیں۔‏ یہوواہ کو خوش کرنا ایوب جیسا ایمان ظاہر کرنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے۔‏

لیکن ایوب کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔‏ وہ اپنے آپ کو ایک نیک شخص ثابت کرنے میں اِتنے مگن ہو گئے کہ وہ خدا کی حمایت میں بات کرنا بھول گئے۔‏ اُنہیں اِصلاح اور مدد کی ضرورت تھی تاکہ وہ معاملات کو خدا کی نظر سے دیکھ سکیں۔‏ وہ ابھی تک شدید تکلیف اور غم میں مبتلا تھے اور اُنہیں تسلی کی اشد ضرورت تھی۔‏ یہوواہ نے اپنے اِس وفادار بندے کو تسلی کیسے فراہم کی؟‏ مضامین کے اِس سلسلے کے ایک اَور مضمون میں اِس بارے میں بات کی جائے گی۔‏

^ پیراگراف 23 عجیب بات ہے کہ الیفز نے سوچا کہ وہ اور اُن کے دوست ایوب سے نرمی سے بات کر رہے ہیں۔‏ شاید اِس کی وجہ یہ ہو کہ اُنہوں نے ایوب سے اُونچی آواز میں بات نہیں کی تھی۔‏ (‏ایوب 15:‏11‏)‏ لیکن نرم لہجے میں بولے جانے والے الفاظ بھی سخت ہو سکتے ہیں اور دل کو چیر سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 26 اِس کے تقریباً 3000 سال بعد سائنس دانوں نے اِس بات کو تسلیم کرنا شروع کِیا کہ زمین کسی چیز کے سہارے پر نہیں ٹکی۔‏ جب خلا سے زمین کی تصویریں لی گئیں تو اِنسانوں کو اِس بات کا پکا ثبوت مل گیا کہ ایوب کی بات بالکل سچ تھی۔‏