مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اِن جیسا ایمان پیدا کریں | سارہ

‏’‏تُو خوب‌صورت عورت ہے‘‏

‏’‏تُو خوب‌صورت عورت ہے‘‏

ذرا تصور کریں کہ مشرقِ‌وسطیٰ سے تعلق رکھنے والی ایک عورت اپنے کمرے میں کھڑی ہے اور اِس میں رکھی چیزوں کو دیکھ رہی ہے۔‏ اِس عورت کا نام سارہ ہے۔‏ شاید آپ کو سارہ کی کالی کالی دلکش آنکھوں میں اُداسی کی جھلک نظر آئے۔‏ اگر ایسا ہے تو یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں۔‏ اِس گھر سے سارہ کی بہت سی یادیں جُڑی ہیں۔‏ اُنہوں نے اور اُن کے شوہر ابرہام نے اِس گھر میں بڑے حسین پَل گزارے ہیں۔‏ *

ابرہام نبی اور سارہ شہر اُور میں رہتے تھے جو بڑا ترقی‌یافتہ شہر تھا اور کاریگروں اور تاجروں سے بھرا تھا۔‏ اِس لیے ہو سکتا ہے کہ اُن دونوں کے پاس بہت سی آسائشیں ہوں۔‏ لیکن سارہ کے لیے اُن کا گھر محض چیزیں رکھنے کی جگہ نہیں تھا۔‏ اِس گھر میں اُنہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ زندگی کے بہت سے اُتار چڑھاؤ دیکھے تھے۔‏ اِسی گھر میں اُنہوں نے بےشمار دفعہ یہوواہ خدا سے دُعا کی تھی۔‏ اِنہی وجوہات کی بِنا پر اُنہیں اپنے گھر سے بڑا لگاؤ تھا۔‏

لیکن پھر بھی سارہ اپنا گھر بار چھوڑنے کے لیے راضی تھیں۔‏ اُس وقت اُن کی عمر تقریباً 60 سال تھی اور وہ جانتی تھیں کہ وہ کبھی واپس نہیں آئیں گی۔‏ اِس کے باوجود وہ انجان علاقوں کا سفر کرنے اور آنے والی مشکلات اور خطروں کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھیں۔‏ سارہ نے اپنی زندگی میں اِتنی بڑی تبدیلیاں کیوں کیں؟‏ اور ہم اُن جیسا ایمان کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟‏

‏’‏اپنے ملک کو چھوڑ کر جاؤ‘‏

سارہ غالباً اُور میں ہی پلی بڑھی تھیں۔‏ آج اِس شہر کے صرف کھنڈرات موجود ہیں۔‏ لیکن سارہ کے زمانے میں یہ شہر بڑا خوش‌حال تھا۔‏ اُس وقت دریائےفرات کے پانیوں پر بحری جہاز تیرتے دِکھائی دیتے تھے جو دُور دُور سے قیمتی اشیا لے کر اِس شہر میں آتے تھے۔‏ اِس کی بندرگاہ پر بحری جہازوں کی بھرمار ہوتی تھی،‏ اِس کے بازاروں میں چیزوں کی ریل‌پیل ہوتی تھی اور اِس کی تنگ اور بل کھاتی گلیوں میں ہر وقت لوگوں کا رش لگا رہتا تھا۔‏ ذرا تصور کریں کہ اِس بِھیڑبھاڑ والے شہر میں پرورش پاتے وقت سارہ کی زندگی کیسی رہی ہوگی۔‏ وہ وہاں بہت سے لوگوں کو جانتی ہوں گی۔‏ یقیناً وہ لوگ بھی سارہ کے بارے میں بات کرتے ہوں گے کیونکہ وہ نہایت خوب‌صورت تھیں۔‏ اِس کے علاوہ اُور میں سارہ کے بہت سے عزیز اور رشتےدار بھی رہتے تھے۔‏

پاک کلام سے پتہ چلتا ہے کہ سارہ کا ایمان بہت مضبوط تھا۔‏ لیکن یہ ایمان چاند دیوتا پر نہیں تھا جسے اُور کے لوگ پوجتے تھے اور جس کے لیے شہر میں ایک بہت اُونچا مینار بنایا گیا تھا۔‏ دراصل سارہ سچے خدا یہوواہ پر ایمان رکھتی تھیں اور اُس کی عبادت کرتی تھیں۔‏ پاک کلام میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اُن میں یہ ایمان کیسے پیدا ہوا لیکن یہ بتایا گیا ہے کہ اُن کے ابو ایک زمانے میں بُتوں کی پوجا کرتے تھے۔‏ بہرحال سارہ کی شادی ابرہام سے ہوئی جو اُن سے دس سال بڑے تھے۔‏ * (‏پیدایش 17:‏17‏)‏ بعد میں ابرہام کو ’‏اُن سب لوگوں کا باپ ٹھہرایا گیا جو ایمان رکھتے ہیں۔‏‘‏ (‏رومیوں 4:‏11‏)‏ ابرہام اور سارہ نے مل کر اپنی شادی‌شُدہ زندگی کو خوش‌گوار بنایا۔‏ وہ ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے،‏ کُھل کر ایک دوسرے سے بات کرتے تھے،‏ مل کر مشکلات کا سامنا کرتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہوواہ خدا سے پیار کرتے تھے۔‏

سارہ اپنے شوہر سے بہت محبت کرتی تھیں۔‏ اُن دونوں نے اُور میں اپنے رشتےداروں کے درمیان ہی اپنا گھر بسایا۔‏ لیکن جلد ہی اُنہیں ایک مایوس‌کُن صورتحال کا سامنا ہوا۔‏ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ سارہ ’‏بانجھ تھیں اور اُن کا کوئی بال‌بچہ نہیں تھا۔‏‘‏ (‏پیدایش 11:‏30‏)‏ اُس زمانے میں ایسی عورتوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔‏ اِس لیے سارہ کو کافی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔‏ اِس کے باوجود وہ یہوواہ خدا اور اپنے شوہر کی وفادار رہیں۔‏ پھر ابرہام اور سارہ نے اپنے یتیم بھتیجے لُوط کو اپنا بیٹا بنا لیا۔‏ اُن کی زندگی معمول کے مطابق چل رہی تھی لیکن پھر ایک دن سب کچھ بدل گیا۔‏

یہوواہ خدا نے ابرہام سے بات کی،‏ یہاں تک کہ ایک فرشتے کے ذریعے اُن پر ظاہر بھی ہوا۔‏ اِس کے بعد ابرہام بھاگے بھاگے سارہ کے پاس آئے۔‏ وہ بےحد خوش تھے۔‏ اُنہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہوواہ خدا اُن پر ظاہر ہوا ہے۔‏ ذرا تصور کریں کہ جب ابرہام نے سارہ کو یہ بات بتائی ہوگی تو سارہ کا ردِعمل کیا ہوگا۔‏ اُنہوں نے بڑے غور سے اپنے شوہر کو دیکھا ہوگا اور بڑی بےتابی سے اُن سے پوچھا ہوگا:‏ ”‏مجھے بھی تو بتائیں کہ یہوواہ خدا نے آپ سے کیا کہا ہے؟‏“‏ شاید ابرہام ایک جگہ بیٹھ گئے ہوں اور پھر آرام سے سارہ کو بتایا ہو کہ یہوواہ خدا نے کہا ہے کہ ”‏اپنے ملک اور رشتےداروں کو چھوڑ کر اُس ملک میں جاؤ جو مَیں تمہیں دِکھاؤں گا۔‏“‏ (‏اعمال 7:‏2،‏ 3‏)‏ بعد میں جب وہ دونوں تھوڑا پُرسکون ہوئے ہوں گے تو اُنہوں نے ضرور یہوواہ خدا کے اِس حکم پر سوچ بچار کی ہوگی۔‏ اِس حکم پر عمل کرنے کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ اپنی پُرآسائش اور آرام‌دہ زندگی کو چھوڑ کر خیموں میں زندگی گزاریں۔‏ یقیناً ابرہام یہ جاننے کے لیے بےتاب ہوں گے کہ سارہ زندگی کے اِس اہم موڑ پر اُن کا ساتھ دیں گی یا نہیں۔‏

کیا ہمیں بھی سارہ جیسی صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے؟‏ شاید ہم سوچیں کہ ”‏خدا نے کبھی مجھے یا میرے جیون ساتھی کو تو ایسا کچھ کرنے کے لیے نہیں کہا۔‏“‏ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہم سب کو سارہ جیسی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے۔‏ ہم سب ایک ایسی دُنیا میں رہتے ہیں جہاں روپے پیسے کو بہت اہم خیال کِیا جاتا ہے۔‏ شاید یہ دُنیا ہمیں اُکسائے کہ ہم مال‌ودولت حاصل کرنے،‏ آسائشوں بھری زندگی گزارنے اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دیں۔‏ لیکن پاک کلام میں ہمیں نصیحت کی گئی ہے کہ ہم یہوواہ خدا کی خدمت کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دیں اور اُس کی خوشی کو اپنی خوشی سے زیادہ ترجیح دیں۔‏ (‏متی 6:‏33‏)‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ سارہ نے کیا فیصلہ کِیا۔‏ اُن کے فیصلے پر غور کرتے وقت ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں:‏ ”‏مَیں اپنی زندگی میں کس طرح کے فیصلے کروں گا؟‏“‏

وہ اپنے ”‏ملک کو چھوڑ کر“‏ چلے گئے

ذرا تصور کریں کہ جب سارہ اپنا سامان باندھ رہی ہوں گی تو اُن کے ذہن میں کیا چل رہا ہوگا۔‏ یقیناً وہ اِس کشمکش میں ہوں گی کہ وہ کون سی چیزیں ساتھ لے جائیں اور کون سی نہیں۔‏ ظاہر ہے کہ وہ اپنے ساتھ کوئی ایسی چیز نہیں لے جا سکتی تھیں جسے گدھوں اور اُونٹوں پر لاد کر لے جانا مشکل ہوتا اور جو خیموں میں رہتے ہوئے اُن کے کام نہ آتیں۔‏ اِس لیے شاید اُنہوں نے اپنی بہت سی چیزیں بیچ دی ہوں یا پھر کسی کو دے دی ہوں۔‏ اِس کے علاوہ اُنہیں اُن سہولتوں کو بھی چھوڑنا پڑا ہوگا جو شہر اُور میں اُنہیں حاصل تھیں جیسے کہ آسانی سے بازار جا کر کھانے پینے کی چیزیں،‏ کپڑے اور دوسری چیزیں وغیرہ خریدنا۔‏

اپنے ایمان کی وجہ سے سارہ نے اُور کی پُرآسائش زندگی کو چھوڑ دیا۔‏

سارہ کے لیے اپنے گھر کو چھوڑنا بھی مشکل رہا ہوگا۔‏ اگر سارہ کا گھر بھی شہر اُور کے اُن گھروں جیسا تھا جو آثارِقدیمہ کے ماہرین نے دریافت کیے ہیں تو بِلاشُبہ اُن کے گھر میں بہت سی سہولتیں ہوں گی۔‏ اُور کے کچھ گھروں میں ایک درجن سے بھی زیادہ کمرے تھے اور گھروں میں تازہ پانی پہنچانے کا بھی نظام تھا۔‏ ایک عام گھر میں بھی چھت اور دیواریں پکی ہوتی تھیں اور ایک دروازہ بھی ہوتا تھا جسے اچھی طرح بند کِیا جا سکتا تھا۔‏ کیا سارہ اور ابرہام ایک خیمے میں خود کو اُتنا محفوظ محسوس کر سکتے تھے جتنا وہ اپنے گھر میں کرتے تھے؟‏ کیا خیمے میں اُنہیں چوروں اور جنگلی جانوروں جیسے کہ شیر،‏ چیتے،‏ بھالو اور بھیڑیے وغیرہ سے تحفظ مل سکتا تھا جو اُس زمانے میں بہت عام تھے؟‏

ذرا یہ بھی سوچیں کہ سارہ کو اپنے رشتےداروں کو چھوڑنا کیسا لگا ہوگا۔‏ یہوواہ خدا نے اُنہیں حکم دیا تھا:‏ ”‏اپنے ملک اور رشتےداروں کو چھوڑ کر اُس ملک میں جاؤ جو مَیں تمہیں دِکھاؤں گا۔‏“‏ اِس کا مطلب تھا کہ اُنہیں نہ صرف اپنا گھر بار چھوڑنا تھا بلکہ اپنے رشتےدار بھی۔‏ شاید اپنے رشتےداروں سے دُور جانا سارہ کے لیے سب سے مشکل رہا ہو۔‏ سارہ بہت خوش‌مزاج اور شفیق خاتون تھیں۔‏ غالباً اُن کے رشتےداروں میں اُن کے بہن بھائی،‏ بھانجے بھانجیاں،‏ بھتیجے بھتیجیاں،‏ خالہ،‏ پھوپھو،‏ ماموں،‏ چچا اور تایا وغیرہ شامل تھے۔‏ اُنہیں اپنے رشتےداروں سے بڑا لگاؤ تھا اور وہ جانتی تھیں کہ شاید وہ اُنہیں دوبارہ نہ دیکھ پائیں۔‏ اِس کے باوجود سارہ اُور سے روانہ ہونے کی تیاری کرتی رہیں۔‏

اگرچہ سارہ کے لیے اُور کو چھوڑنا آسان نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ مقررہ دن پر وہاں سے روانہ ہونے کے لیے تیار تھیں۔‏ تارح خاندان کے سربراہ کے طور پر ابرہام اور سارہ کے ساتھ گئے حالانکہ اُس وقت اُن کی عمر تقریباً 200 سال تھی۔‏ (‏پیدایش 11:‏31‏)‏ بےشک سارہ کو اپنے بوڑھے باپ کی کافی دیکھ‌بھال کرنی پڑی ہوگی۔‏ جب وہ لوگ یہوواہ خدا کے حکم کے مطابق ”‏کسدیوں کے ملک کو چھوڑ کر“‏ نکلے تو لُوط بھی اُن کے ساتھ تھے۔‏—‏اعمال 7:‏4‏۔‏

یہ قافلہ دریائےفرات کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہوا شہر حاران پہنچا جو اُور سے تقریباً 960 کلومیٹر (‏600 میل)‏ شمال مغرب کی طرف تھا۔‏ یہ خاندان کچھ عرصے کے لیے حاران میں رُکا۔‏ ہو سکتا ہے کہ اِس کی وجہ یہ ہو کہ تارح کافی بیمار ہو گئے ہوں اور مزید سفر نہ کر سکتے ہوں۔‏ پھر 205 سال کی عمر میں تارح فوت ہو گئے اور تب تک یہ خاندان حاران میں ہی رہا۔‏ اِس سے پہلے کہ وہ لوگ حاران سے روانہ ہوتے،‏ یہوواہ خدا نے ایک بار پھر ابرہام سے بات کی اور اُن سے کہا کہ وہ اِس ملک کو چھوڑ کر اُس ملک میں جائیں جو وہ اُنہیں دِکھائے گا۔‏ مگر اِس بار یہوواہ خدا نے اُن سے یہ شان‌دار وعدہ بھی کِیا:‏ ”‏مَیں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا۔‏“‏ (‏پیدایش 12:‏2-‏4‏)‏ لیکن جب ابرہام حاران سے نکلے تو اُن کی عمر 75 سال تھی اور سارہ کی عمر 65 سال تھی اور اُن دونوں کی کوئی اولاد نہیں تھی۔‏ تو پھر ابرہام ایک بڑی قوم کیسے بن سکتے تھے؟‏ کیا اُنہیں ایک اَور شادی کرنی ہوگی؟‏ شاید سارہ نے اِس بارے میں سوچا ہو کیونکہ اُس دَور میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنا عام بات تھی۔‏

بہرحال ابرہام اور سارہ کا خاندان حاران سے روانہ ہوا۔‏ لیکن اِس بار اُن کے ساتھ اَور کون تھا؟‏ پاک کلام میں لکھا ہے کہ اُنہوں نے ”‏سب مال کو جو اُنہوں نے جمع کِیا تھا اور اُن آدمیوں کو جو اُن کو حاؔران میں مل گئے تھے ساتھ لیا۔‏“‏ (‏پیدایش 12:‏5‏)‏ یہ آدمی کون تھے؟‏ بہت ممکن ہے کہ یہ اُن کے نوکر ہوں۔‏ لیکن ابرہام اور سارہ نے حاران میں اُن لوگوں کو یہوواہ خدا کے بارے میں ضرور بتایا ہوگا جو سچے خدا کے متعلق جاننا چاہتے تھے۔‏ اِس لیے کچھ قدیم یہودی تحریروں میں بتایا گیا ہے کہ اِس آیت میں جن آدمیوں کا ذکر کِیا گیا ہے،‏ وہ ایسے لوگ تھے جو یہوواہ خدا پر ایمان لے آئے تھے۔‏ اگر واقعی ایسا تھا تو یقیناً سارہ یہوواہ خدا پر بڑا مضبوط ایمان رکھتی تھیں اِسی لیے اُنہوں نے دوسروں کو بھی اپنے خدا اور اُس کے وعدوں کے بارے میں بڑی اچھی طرح سے بتایا ہوگا۔‏ سارہ کی مثال پر غور کرنے سے ہم ایک بہت اچھا سبق سیکھتے ہیں۔‏ ہم ایک ایسی دُنیا میں رہتے ہیں جس میں زیادہ‌تر لوگ خدا پر ایمان نہیں رکھتے اور نااُمیدی اور مایوسی کا شکار ہیں۔‏ لہٰذا جب آپ پاک کلام سے کوئی بات سیکھتے ہیں تو اِسے دوسروں کو بھی ضرور بتائیں۔‏

وہ ’‏مصر کو گئے‘‏

غالباً 14 نیسان 1943 قبل‌ازمسیح کو ابرہام کے خاندان نے دریائےفرات کو پار کِیا اور اُس ملک میں داخل ہوئے جس کے بارے میں یہوواہ خدا نے وعدہ کِیا تھا کہ وہ اُنہیں دے گا۔‏ (‏خروج 12:‏40،‏ 41‏)‏ پھر اُنہوں نے اِس ملک کے جنوب کی طرف سفر جاری رکھا۔‏ ذرا تصور کریں کہ جب سارہ نے اُس ملک کی خوب‌صورتی اور وہاں کے سہانے موسم کو دیکھا ہوگا تو اُنہیں کتنا اچھا لگا ہوگا!‏ شہر سِکم میں مورہ کے مقام پر بلوط کے درختوں کے پاس یہوواہ خدا ابرہام پر دوبارہ ظاہر ہوا اور اُن سے کہا:‏ ”‏یہی ملک مَیں تیری نسل کو دوں گا۔‏“‏ یقیناً لفظ ”‏نسل“‏ ابرہام کے لیے کافی خاص ہوگا۔‏ اِس لفظ کو سُن کر اُنہوں نے ضرور اُس پیش‌گوئی کے بارے میں سوچا ہوگا جو یہوواہ خدا نے باغِ‌عدن میں کی تھی کہ ایک نسل آئے گی جو شیطان کو ختم کر دے گی۔‏ یہوواہ خدا نے ابرہام کو پہلے سے یہ بتا دیا تھا کہ اُن سے ایک قوم آئے گی جس کے ذریعے زمین کے سب لوگوں کو برکتیں حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔‏—‏پیدایش 3:‏15؛‏ 12:‏2،‏ 3،‏ 6،‏ 7‏۔‏

لیکن دوسرے لوگوں کی طرح اِس گھرانے کو بھی مشکلات کا سامنا ہوا۔‏ ملک کنعان میں سخت قحط پڑ گیا جس کی وجہ سے ابرہام نے اپنے گھرانے کو ملک مصر لے جانے کا فیصلہ کِیا جو جنوب کی طرف واقع تھا۔‏ مگر ابرہام کو اندازہ تھا کہ اُس ملک میں اُنہیں ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے سارہ سے کہا:‏ ”‏دیکھ مَیں جانتا ہوں کہ تُو دیکھنے میں خوب‌صورت عورت ہے۔‏ اور یوں ہوگا کہ مصری تجھے دیکھ کر کہیں گے کہ یہ اُس کی بیوی ہے۔‏ سو وہ مجھے تو مار ڈالیں گے مگر تجھے زندہ رکھ لیں گے۔‏ سو تُو یہ کہہ دینا کہ مَیں اِس کی بہن ہوں تاکہ تیرے سبب سے میری خیر ہو اور میری جان تیری بدولت بچی رہے۔‏“‏ (‏پیدایش 12:‏10-‏13‏)‏ لیکن ابرہام نے سارہ سے ایسی بات کیوں کہی؟‏

کچھ لوگ ابرہام کی اِس بات پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ جھوٹے اور بزدل تھے۔‏ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ سارہ اصل میں اُن کی سوتیلی بہن تھیں۔‏ اِس کے علاوہ ابرہام نے ٹھوس وجوہات کی بِنا پر یہ بات کہی تھی۔‏ ابرہام اور سارہ جانتے تھے کہ خدا کا مقصد ہے کہ ابرہام کے ذریعے ایک خاص نسل اور قوم آئے اِس لیے یہ اہم تھا کہ ابرہام کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔‏ آثارِقدیمہ کی دریافتوں سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ مصر کے حاکم اکثر کسی آدمی کی بیوی کو زبردستی لے لیتے تھے اور اُس کے شوہر کو مروا دیتے تھے۔‏ لہٰذا ابرہام نے سمجھ‌داری سے کام لیا اور سارہ نے اُن کا ساتھ دیا۔‏

جلد ہی یہ ثابت ہو گیا کہ ابرہام کے خدشات بےبنیاد نہیں تھے۔‏ فرعون کے محل کے کچھ شہزادے سارہ کی خوب‌صورتی کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔‏ اُنہوں نے جا کر فرعون کو سارہ کے بارے میں بتایا۔‏ اِس پر فرعون نے حکم دیا کہ سارہ کو اُن کے محل میں لایا جائے۔‏ شاید ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اُس وقت ابرہام کس کرب سے گزرے ہوں گے اور سارہ کتنی ڈری ہوئی ہوں گی۔‏ لیکن ایسا لگتا ہے کہ محل میں سارہ کے ساتھ قیدیوں جیسا سلوک نہیں کِیا گیا تھا بلکہ اُنہیں ایک خاص مہمان کی طرح رکھا گیا تھا۔‏ شاید فرعون نے سوچا ہو کہ وہ سارہ کو شادی کے لیے منانے اور مال‌ودولت سے اُن کا دل جیتنے کی کوشش کرے گا اور پھر اُن کے بھائی یعنی ابرہام سے اُن کا ہاتھ مانگ لے گا۔‏—‏پیدایش 12:‏14-‏16‏۔‏

ذرا تصور کریں کہ سارہ محل کی کھڑکی یا بالکونی میں کھڑی مصر کا نظارہ کر رہی ہیں۔‏ اُنہیں کیسا لگا ہوگا کہ وہ دوبارہ سے ایک چاردیواری میں رہ رہی ہیں،‏ اُن کے سر پر ایک چھت ہے اور اُن کے سامنے اچھے اچھے کھانے رکھے جا رہے ہیں؟‏ شاید اب اُن کی زندگی اُور کی زندگی سے بھی زیادہ عالیشان ہے۔‏ لیکن کیا وہ اِس آرام‌وآسائش والی زندگی کو اپنانے کا فیصلہ کریں گی؟‏ ذرا سوچیں کہ اگر سارہ ابرہام کو چھوڑ کر فرعون سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیتیں تو شیطان کتنا خوش ہوتا!‏ لیکن سارہ نے ایسا نہیں کِیا۔‏ وہ اپنے شوہر اور اپنے خدا کی وفادار رہیں۔‏ کاش کہ بُرائی سے بھری اِس دُنیا میں تمام شادی‌شُدہ لوگ سارہ کی طرح اپنے جیون ساتھی کے وفادار رہیں!‏ کیا آپ سارہ کی مثال پر عمل کرتے ہوئے اپنے پیاروں کے وفادار رہیں گے؟‏

سارہ نے فرعون کے محل کی عالیشان زندگی کو اپنانے کی بجائے اپنے شوہر سے وفاداری کرنے کا اِنتخاب کِیا۔‏

یہوواہ خدا نے سارہ کو فرعون کے ہاتھ سے بچانے کے لیے اُس پر اور اُس کے گھرانے پر آفتیں بھیجیں۔‏ جب فرعون کو پتہ چلا کہ سارہ ابرہام کی بیوی ہیں تو اُس نے ابرہام کو بلایا اور اُن سے کہا کہ وہ اپنی بیوی کو لے جائیں اور اپنے گھرانے سمیت مصر چھوڑ دیں۔‏ (‏پیدایش 12:‏17-‏20‏)‏ بِلاشُبہ اپنی بیوی کو واپس پا کر ابرہام بےحد خوش ہوں گے!‏ اُنہوں نے بڑے پیار سے اپنی بیوی سے کہا تھا کہ ”‏مَیں جانتا ہوں کہ تُو دیکھنے میں خوب‌صورت عورت ہے۔‏“‏ لیکن ابرہام اُن کی ظاہری خوب‌صورتی سے زیادہ اُن کی سیرت کی قدر کرتے تھے۔‏ بےشک سارہ کی ”‏خوب‌صورتی اندر سے“‏ تھی اور یہوواہ خدا ایسی ہی خوب‌صورتی کو پسند کرتا ہے۔‏ (‏1-‏پطرس 3:‏1-‏5‏)‏ ہم سب اپنے اندر ایسی خوب‌صورتی پیدا کر سکتے ہیں۔‏ اگر ہم یہوواہ خدا کی خدمت کو مال‌ودولت سے زیادہ اہمیت دیں گے،‏ اُس کے بارے میں دوسروں کو بتائیں گے اور مشکلات کے باوجود اُس کے معیاروں کے مطابق زندگی گزاریں گے تو ہم سارہ جیسا ایمان ظاہر کریں گے۔‏

^ پیراگراف 3 پہلے اُن کے نام ابرام اور ساری تھے لیکن بعد میں یہوواہ خدا نے اُن کے نام ابرہام اور سارہ رکھ دیے اور وہ اِنہی ناموں سے جانے جاتے ہیں۔‏—‏پیدایش 17:‏5،‏ 15‏۔‏

^ پیراگراف 8 سارہ ابرہام کی سوتیلی بہن تھیں۔‏ اُن دونوں کا باپ ایک ہی تھا جس کا نام تارح تھا لیکن اُن کی مائیں فرق فرق تھیں۔‏ (‏پیدایش 20:‏12‏)‏ آج‌کل اِس طرح کی شادیاں مناسب نہیں ہیں لیکن ہمیں اِس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ زمانہ ہمارے زمانے سے فرق تھا۔‏ اُس وقت آدم اور حوا کو گُناہ کیے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا اِس لیے لوگ زیادہ صحت‌مند اور تندرست تھے اور اُن کی عمریں بھی لمبی تھیں۔‏ لہٰذا قریبی رشتےداروں کے درمیان شادیوں کی وجہ سے یہ خطرہ نہیں ہوتا تھا کہ بچے پیدائشی طور پر بیمار یا معذور ہوں گے۔‏ لیکن اِس کے کوئی 400 سال بعد کے زمانے میں صورتحال ہمارے زمانے جیسی تھی۔‏ اِس لیے خدا نے بنی‌اِسرائیل کو یہ حکم دیا کہ قریبی رشتےدار ایک دوسرے سے جنسی تعلقات قائم نہ کریں۔‏—‏احبار 18:‏6‏۔‏